[email protected]

عمران خان اور ان کی اہلیہ کے خلاف پے درپے کئی فیصلے آگئے۔ ان فیصلوں کے بعد اس جماعت کے سیاسی مستقبل پر کئی سوالیہ نشان لگ گئے۔ آنے والے دنوں میں جن پر تفصیل سے بات ہو گی۔ اسی دوران میں مسلم لیگ ن سمیت ملک کی چند بڑی جماعتوں کے منشور بھی آگئے۔

اس معاملے کا ایک دل چسپ پہلو یہ ہے کہ ن لیگ کا منشور جب تک نہیں آیا تھا، اس جماعت کو طنز و تعریض کا نشانہ بنایا جا رہا تھا کہ کیوں اب تک یہ جماعت اپنا منشور پیش نہیں کر سکی، باقی سب تو پیش کر چکے۔ لطیفہ یہ ہوا کہ جیسے ہی ن لیگ کا منشور جاری ہوا، پیپلز پارٹی نے بھی منشور جاری کر دیا اور پی ٹی آئی نے بھی۔ ورنہ اب تک اس جماعت کا کہنا تھا کہ ہم تو 2018 ء کے منشور پر اکتفا کر رہے جب کہ پیپلز پارٹی کے دس نکات کا شہرہ تھا۔ بلاول ایک کتاب بھی لہرایا کرتے تھے۔

سب سے زیادہ زور سے بھی وہی بات بھی کیا کرتے تھے کہ ہم نے منشور پیش کر دیا، ن لیگ اتنا بھی نہ کر سکی پھر جب سینیٹر عرفان صدیقی کی قیادت میں 32 کمیٹیوں اور سات ہزار شہریوں کی آرا پر مشتمل منشور سامنے آ گیا تو ایک منشور پیپلز پارٹی نے بھی پیش کر دیا اور ایک پی ٹی آئی نے بھی۔ پی ٹی آئی کو تو چھوڑئیے کہ اس جماعت کا مزاج اور طور طریقے معروف قاعدے قوانین اور سیاسی روایات سے مختلف ہیں لیکن پیپلز پارٹی کا مسئلہ کیا ہے؟

وہ پہلے منشور پیش کر چکی تھی تو اسے دوسری بار پیش کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ ایک سوال یہ بھی ہے کہ اب اس کے پہلے دس نکاتی منشور کو تسلیم کیا جائے یا نئے منشور کو؟ خیر وہ اس سوال کا جواب کیا دے گی؟یہ اس کا مسئلہ ہے۔ جمہوری معاشروں میں انتخابی عمل میں شریک سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور کا تقابلی جائزہ ایک صحت مند روایت ہے۔

ہمارے یہاں ماضی میں تو ان پر کسی قدر بحث ہوا کرتی تھی اور اخبارات و جرائد میں اس پر بحث مباحثہ بھی ہوا کرتا تھا۔ ایک زمانہ تھا کہ پاکستان ٹیلی ویژن پر سیاسی قائدین کی تقاریر نشر کی جاتی تھیں پھر انٹرویو کیے جانے لگے لیکن پرائیویٹ چینلوں کی مقبولیت کے بعد یہ روایت کچھ کمزور ہوئی اور کچھ پس منظر میں چلی گئی۔

سبب یہ تھا کہ پرائیویٹ چینلوں نے مستقل نوعیت کے موضوعات کے بجائے وقتی بلکہ سنسنی خیز موضوعات پر توجہ زیادہ دیتے ہیں یوں سنجیدہ معاملات پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔ اس بار بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں 2024 ء کے منشور اس اعتبار سے یاد رکھے جائیں گے کہ کچھ جماعتوں نے اپنے منشور حریف جماعتوں کے منشور سے مشروط کیے رکھے۔

اگر کسی جماعت نے سنجیدگی کے ساتھ یہ کام کیا ہے تو وہ مسلم لیگ ن ہے جس نے یہ ذمے داری ممتاز دانش ور سینیٹر عرفان صدیقی صاحب کو سونپی۔ عرفان صدیقی صاحب کی شہرت ادبیات کے استاد، شاعر اور ادیب کی ہے لیکن انھوں نے جس مہارت سے یہ کام کیا یے، وہ یقینا رجحان ساز ثابت ہو گا۔ انھوں نے منشور سازی کے کام کو پاکستان میں پہلی بار ایک ادارے کی شکل دے کر اس میں تمام شعبہ ہائے زندگی کے ماہرین کو شامل کر کے ایک نمائندہ حیثیت دے دی۔

اس کے علاوہ انھوں نے اندرون و بیرون ملک پاکستانیوں کو براہ راست مخاطب کر کے ان سے تجاویز بھی طلب کیں۔ یہ بھی ہمارے یہاں پہلی بار ہوا کہ سات ہزار عام شہریوں نے کسی جماعت کی منشور سازی کے عمل میں براہ راست شرکت کی۔ عرفان صدیقی صاحب منشور سازی کے لیے ملک بھر سے آنے والے کارکنان اور شہریوں کی تجاویز کو ایک دستاویز کی شکل میں شائع کر نے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔ یہ روایت بھی ہمارے یہاں پہلی بار پڑے گی۔

عرفان صاحب کے تیار کردہ منشور کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ اس میں مسلم لیگ (ن)کے 2013 ء سے 2018 ء تک کی حکومت کی کارکردگی کے علاوہ ڈیڑھ برس کی پی ڈی ایم کی حکومتی کارکردگی بھی شامل کر دی ہے تاکہ عوام کو موازنے میں آسانی رہے۔ ن لیگ کے منشور میں شامل ان خوبیوں کا کریڈٹ ظاہر ہے کہ عرفان صدیقی صاحب اور مریم اورنگزیب صاحبہ کو جاتا ہے۔ مریم اورنگزیب نے بطور سیکریٹری اور کوآرڈینیٹر منشور کو سنوارنے اور سمیٹنے میں جو محنت کی ہے۔

اس کا اعتراف خود عرفان صدیقی صاحب نے بھی کیا ہے۔ پیپلز پارٹی نے اپنے منشور میں اگر آئندہ پانچ برس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ڈبل کرنے کا اعلان کیا ہے تو ن لیگ نے کہا ہے کہ وہ مہنگائی میں فوری طور کمی کرنے کے بعد آئندہ پانچ برس میں اس کی شرح چار سے پانچ فیصد پر لے آئے گی جب کہ فی کس آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ کر کے اسے دو ہزار ڈالر کر دیا جائے گا۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ عام آدمی کے ہاتھ میں کچھ پیسے تھما دینے کے بہ جائے معیشت کو مضبوط بنا کر اس پر پڑے والے اقتصادی بوجھ کو کم کر کے اس کی مشکلات میں کمی کی جائے گی اور معیار زندگی میں اضافہ کیا جائے گا۔ اسی طرح مسلم لیگ ن نے نوجوانوں کی تعلیم اور روزگار کے ساتھ ساتھ نئے چیلنجوں یعنی ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے اور زرعی و صنعتی پیداوار میں اضافے اور ان شعبوں میں اصلاحات کا وعدہ کیا ہے۔

اس جماعت نے نظام عدل میں اصلاحات کے علاوہ غیر معمولی آئینی اصلاحات کا وعدہ بھی کیا ہے۔ ایک وعدہ آئین کی دفعات باسٹھ اور تریسٹھ کی اصل شکل میں بحالی کا بھی ہے۔ آئین کی یہ دفعات ہمارے یہاں شروع سے ہی متنازع رہی ہیں لیکن بھٹو بہ مقابلہ ضیا کی تفریق کے زمانے میں انھیں تحفظ حاصل رہا کیوں کہ ان کے ساتھ مذہبی حوالے سے تقدس وابستہ ہو گیا تھا لیکن بعد کے زمانے میں جیسے جیسے ان دفعات کے مضمرات سامنے آتے گئے، قومی سطح پر یہ اتفاق رائے وسیع ہوتا چلا گیا کہ ضیا آمریت میں آئین میں شامل کی جانے والے ان “شرائط” سے جان چھڑا لی جائے۔

ن لیگ کے منشور میں شامل اس وعدے کے خلاف سیاسی حلقوں یہاں تک کہ مذہبی سیاسی جماعتوں کی طرف سے بھی کوئی احتجاج سامنے نہیں آیا، سوائے جناب انصار عباسی کے اعتراض کے ۔ انصار عباسی صاحب کا کہنا ہے کہ ن لیگ کی طرف سے ان دفعات کو ان کی اصل شکل میں بحال کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ دستور کی اسلامی دفعات کی مخالف ہو گئی ہے۔ انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ یہ دفعات جنرل ضیا الحق نے دستور میں شامل کی تھیں۔

انصار صاحب کا یہ دعوی جزوی طور پر درست ہے، مکمل طور پر نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آئین کی دفعات 62 اور 63 مکمل طور پر جنرل ضیا کے ذہن کی پیداوار نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی دونوں دفعات پاکستان کے پہلے یعنی 1956 ء کے دستور میں بھی شامل تھیں اور 1962 ء کے دستور میں بھی۔ بالکل اسی طرح 1973 ء کے دستور میں بھی انھیں شامل کیا گیا۔ پاکستان کے ان تینوں دساتیر میں شامل ان دفعات میں پارلیمنٹ کی رکنیت کے لیے اہلیت کی جو شرائط شامل کی گئی تھیں، ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ ان کی مدد سے ایک واضح پیمانہ بنانا ممکن تھا یعنی کوئی امیدوار کسی جرم میں سزا یافتہ نہ ہو۔

اس کی عمر کتنی ہو، اپنے حلقے سے اس کا تعلق کیسا ہو وغیرہ۔ جنرل ضیا الحق نے ان واضح شرائط کے بالکل برعکس کچھ ایسی شرائط اس میں شامل کردیں جنھیں ناپنے کا کوئی پیمانہ بنانا ممکن نہیں تھا جیسے اچھا کردار، احکام اسلام کی پابندی اور ان کا علم، پارسائی، فسق و فجور اور صادق و امین جیسی شرائط۔ یہ ایسی تصوراتی شرائط تھیں جنھیں ناپنے کے لیے کوئی پیمانہ وضع کرنا انسان کے لیے ممکن نہیں۔ گزشتہ کچھ انتخابات میں ریٹرننگ افسروں نے ان خوبیوں کو ماپنے کے لیے ایک پیمانہ یہ وضع کیا کہ امیدوار قرآن وحدیث کے بارے میں ریٹرننگ افسروں کے سوالوں کے جواب دیں۔

اسی قسم کے اور بہت سے تصوراتی سوالات وغیرہ۔ کسی کے اخلاقی و سنگین جرائم میں سزا یافتہ ہونے کی حد تک تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن دین کے معاملات کے ماپنے کا پیمانہ ذات باری تعالی کے پاس تو ہو سکتا ہے لیکن یہ کسی انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔

ن لیگ نے آئین کے ذریعے پیدا کیے جانے والے اسی سنگین مسئلے کے حل کی بات کی ہے جس کی وجہ سے ملک عدم استحکام سے دوچار ہوتا رہا ہے لیکن اگر کوئی اسے اسلامی شقوں کی مخالفت گردانتا ہے تو اس سے واضح ہوتا ہے کہ معترضین مسئلے سے پوری طرح واقف ہیں اور نہ آئین، اس کی منشا اور پاکستان کے مسائل سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ آئین کی ان دفعات کو ان کی اصل شکل میں بحال کرنے کی کوشش کو دین کی مخالفت کے ساتھ خلط ملط کرنے سے پیجان تو پیدا ہو سکتا ہے لیکن اسلام اور پاکستان کی خدمت نہیں کی جا سکتی۔

QOSHE - آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ اور اسلام - ڈاکٹر فاروق عادل
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ اور اسلام

15 0
05.02.2024

[email protected]

عمران خان اور ان کی اہلیہ کے خلاف پے درپے کئی فیصلے آگئے۔ ان فیصلوں کے بعد اس جماعت کے سیاسی مستقبل پر کئی سوالیہ نشان لگ گئے۔ آنے والے دنوں میں جن پر تفصیل سے بات ہو گی۔ اسی دوران میں مسلم لیگ ن سمیت ملک کی چند بڑی جماعتوں کے منشور بھی آگئے۔

اس معاملے کا ایک دل چسپ پہلو یہ ہے کہ ن لیگ کا منشور جب تک نہیں آیا تھا، اس جماعت کو طنز و تعریض کا نشانہ بنایا جا رہا تھا کہ کیوں اب تک یہ جماعت اپنا منشور پیش نہیں کر سکی، باقی سب تو پیش کر چکے۔ لطیفہ یہ ہوا کہ جیسے ہی ن لیگ کا منشور جاری ہوا، پیپلز پارٹی نے بھی منشور جاری کر دیا اور پی ٹی آئی نے بھی۔ ورنہ اب تک اس جماعت کا کہنا تھا کہ ہم تو 2018 ء کے منشور پر اکتفا کر رہے جب کہ پیپلز پارٹی کے دس نکات کا شہرہ تھا۔ بلاول ایک کتاب بھی لہرایا کرتے تھے۔

سب سے زیادہ زور سے بھی وہی بات بھی کیا کرتے تھے کہ ہم نے منشور پیش کر دیا، ن لیگ اتنا بھی نہ کر سکی پھر جب سینیٹر عرفان صدیقی کی قیادت میں 32 کمیٹیوں اور سات ہزار شہریوں کی آرا پر مشتمل منشور سامنے آ گیا تو ایک منشور پیپلز پارٹی نے بھی پیش کر دیا اور ایک پی ٹی آئی نے بھی۔ پی ٹی آئی کو تو چھوڑئیے کہ اس جماعت کا مزاج اور طور طریقے معروف قاعدے قوانین اور سیاسی روایات سے مختلف ہیں لیکن پیپلز پارٹی کا مسئلہ کیا ہے؟

وہ پہلے منشور پیش کر چکی تھی تو اسے دوسری بار پیش کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ ایک سوال یہ بھی ہے کہ اب اس کے پہلے دس نکاتی منشور کو تسلیم کیا جائے یا نئے منشور کو؟ خیر وہ اس سوال کا جواب کیا دے گی؟یہ اس کا مسئلہ ہے۔ جمہوری معاشروں میں انتخابی عمل میں شریک سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور کا تقابلی جائزہ ایک صحت مند روایت ہے۔

ہمارے یہاں ماضی میں تو ان پر کسی قدر بحث ہوا کرتی تھی اور اخبارات و جرائد میں اس پر بحث مباحثہ بھی ہوا کرتا تھا۔ ایک زمانہ تھا کہ پاکستان ٹیلی ویژن پر سیاسی قائدین کی تقاریر نشر کی جاتی تھیں پھر انٹرویو کیے جانے لگے لیکن پرائیویٹ چینلوں کی........

© Express News


Get it on Google Play