پاکستان کی 76 سالہ تاریخ کا ایک اہم مرحلہ آن پہنچا۔ ایک ایسا دن جب ”پاکستانی جمہوریت“ کا امتحان ہوگا۔ وہ ملک جو توپ، تلوار، بندوق سے مسلح جدوجہد کی بجائے ووٹ کے عمل سے دنیا کے نقشے پر اُبھرا، وہاں آج 76سال کے بعد بھی جمہوریت ایک ایسے ”کمرہئ امتحان“ میں ہے جہاں 12 کروڑ 70 لاکھ ووٹر اپنے مستقبل کے حکمرانوں کو چنیں گے، مگر حکمرانوں کو چننے کے لئے وہ جن نمائندوں کو ووٹ ڈال کر اپنی نمائندگی کا اختیار سونپیں گے ان کے بارے آج اکیسویں صدی میں بھی انہیں یہ ”شک“ ہے کہ ان کا نمائندہ کہیں ابتدائی ”72 گھنٹوں“ میں ہی ان سے ”ہاتھ“ نہ کردے۔ یہ شک ان کے دل میں ”ریاست“ کے فیصلوں اور ٹی وی سکرین پر بیٹھ کر سیاسی جماعتوں کی ”نمک حلالی“ کرنے والے ”اینکروں اور تجزیہ نگاروں“ نے ڈالا ہے۔ بچپن میں کسی سے سنا تھا کہ شک کا بیج بونا مشکل کام نہیں، صرف بیج بونے والے کا چہرہ ”معصومانہ“ ہونا چاہئے تاکہ دھوکہ دینے اور دلوں میں وسوسے پیدا کرنے میں آسانی ہو۔ پاکستان کے معصوم عوام جن کو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ”ریاست اور حکمرانوں“ نے تعلیم اور سکول سے دور رکھا، ہر چند سال بعد ”معصوم چہروں“ کے بنائے جال میں اس طرح پھنس جاتے ہیں کہ اسے آنکھوں کے سامنے موجود سچ دکھائی نہیں دیتا اور اسے وہی سچ لگتا ہے جو ”ریاست“ کے نام پر اسے بیچا جاتا ہے۔ بیچا جانے والا سودا ”کھرا ہے یا کھوٹا“ اس کی شناخت پڑھے لکھے ”سمجھدار“ لوگوں کے لئے بھی مشکل کام ہے، چہ جائیکہ وہ ملک جہاں پونے تین کروڑ بچہ سکول نہ جا رہا ہو، اس کے ”حال اور مستقبل“ کا ووٹ کی پرچی کے صحیح استعمال کرنے والوں کی بصیرت پر کتنا بھروسہ کیا جا سکتا ہے، اس کا اندازہ مشکل کام نہیں ہے، مگر بیسویں اور اکیسویں صدی کی ایجادات نے ”ریاست اور اس کے حکمرانوں“ کو اس دفعہ مشکل میں ڈال رکھا ہے۔ گزشتہ دو سال کی جدوجہد، اقدامات اور کاوشوں کے باوجود ”بڑے بڑوں“ کے دلوں میں بھی وسوسے ہیں کہ 8 فروری کو کیا ہو گا۔ پاکستان کے 12 کروڑ ووٹرز خصوصاً تقریباً 6 کروڑ سے زائد نوجوان ووٹرز (ان میں 18سے 25 سال کے وہ 2 کروڑ 10 لاکھ ایسے ووٹر بھی ہیں جو پہلی دفعہ ووٹ ڈالیں گے) کے ہاتھوں میں موجود ”سیل فون“ نے ایک ایسا آگاہی کا دروازہ کھول دیا ہے جہاں دکھائی اور سنائی گئی ”معلومات“ اس قدر خوبصورتی سے پیش کی جاتی ہیں کہ ان پر ”یقین“ کرنے کو دِل مچل مچل جاتا ہے۔ یہ معلومات اکثر اتنا ”رُلا دینے“ والی ہوتی ہیں کہ دِل پر لمبے عرصے کے لئے اثر چھوڑ جاتی ہیں۔ ہمارا آج کل کا سوشل میڈیا ایسی معلومات سے بھرا پڑا ہے۔ دو برسوں سے ”راندہئ درگاہ“ قرار دی گئی ایک سیاسی جماعت کا شعبہ سوشل میڈیا اتنا طاقتور ہے کہ مدمقابل تمام فریق تمام تر ”سہولیات“ کے باوجود اسکا مقابلہ نہیں کر پا رہے۔

نواز شریف کی این اے 130 سے سیٹ غیر محفوظ ہے, صحافی منصور علی خان کا دعویٰ

اس دفعہ اصل الیکشن گلیوں، بازاروں، جلسہ گاہوں کی بجائے موبائل فون کی چند انچ کی سکرین پر لڑا جا رہا ہے۔ ایسا نہیں کہ جلسے نہیں ہورہے، جلوس نہیں نکالے جا رہے، مگر یہ سہولت ”راندہئ درگاہ“ قرار دی گئی جماعت کے علاوہ سب چھوٹی بڑی جماعتوں کو میسر ہے۔ ریاست کی ”معتوب“ جماعت کو الیکشن شیڈول جاری ہونے کے بعد بھی جلسے، جلوس کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ انتخابی نشان ”گنوانے“ کے بعد انکو اللہ کی مدد کے بعد اس ”نازک صورتحال“ میں سوشل میڈیا کا ہی سہارا ہے۔ انتظامیہ کے پاس سڑکوں، بازاروں کو صاف رکھنے کا مجرب نسخہ دفعہ 144 ہے۔ اس دفعہ اس مجرب دوائی کا استعمال صرف معتوب جماعت کی حد تک محدود ہے جبکہ دیگر کو سات خون بھی معاف ہیں۔ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم، جمعیت علمائے اسلام (ف) روزانہ جلسوں اور جلوسوں کا مقابلہ کررہی ہیں۔ پاکستان میں الیکشن کا اعلان ہوتے ہی کوچہ و بازار بینروں، پوسٹروں سے بھر جاتے ہیں۔ وال چاکنگ سے دیواریں لال، نیلی، سبز، سیاہ ہو جاتی ہیں مگر ایک جماعت کو ”ریس ٹریک“ سے دور کرکے اس سے یہ سہولت بھی چھین لی گئی ہے۔ ان حالات میں سوشل میڈیا کا سہارا بھی نہ ہوتا تو ”مظلوم“ کہاں جاتے؟ اس وقت قیدی نمبر804 کی انتخابی نشان کے بغیر لڑنے والی جماعت کے ہر امیدوار کی انتخابی مہم سوشل میڈیا پر زوروشور سے جاری ہے۔ اس مہم کا ایک ایڈوانٹیج یہ بھی ہے کہ یہ رات کی تاریکی میں بھی جاری رہتی ہے اور 7 فروری کو جب جلسوں، جلوس پر پابندی ہوگی، سوشل میڈیا پر یقینا کچھ ”نیا سودا“ بھی ملے گا۔ فی الحال تو ووٹرز کو ان کے امیدوار کا نام اور انتخابی نشان سے آگاہ کرنے کی مہم جاری ہے۔

برطانوی بادشاہ چارلس سوئم موڈی مرض میں مبتلا ہوگئے

قیدی نمبر 804، ان کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی اور قیدی کی اہلیہ کو سزائیں سنانے کا سلسلہ جاری ہے، مگر حیرانی تو یہ ہے کہ یہ سزائیں قیدی کے ووٹروں میں ”خوف“ پیدا کرنے کی بجائے ”جوش“ پیدا کر رہی ہیں۔ ریاست 76 برسوں میں اتنی سمجھدار تو ہو چکی ہے کہ ہر دفعہ نیا تجربہ کرتی ہے، مگر 2022ء سے لے کر 2024ء کے دوران کئے جانے والے ”تجربات“ کا نتیجہ کیا نکلے گا یہ شاید بزرجمہروں کی سمجھ میں بھی نہیں آرہا (بظاہر لگ تو ایسا ہی رہا ہے)۔ سزاؤں کا تو مقصد ہی خوف پیدا کرنا ہوتا ہے تاکہ ”رعایا“ کو ان راہوں سے دور رکھا جائے جہاں ریاست کے خیال میں رعایا کو جانے سے اجتناب کرنا چاہئے، مگر حالت یہ ہے کہ ریاست کی چھتری تلے ”بارش، دھوپ اور دیگر آفات“ سے محفوظ کئے جانیوالے ابھی بھی مطمئن نہیں ہیں۔ اب تو جلسوں میں معاملہ ”التجاؤں“ تک آپہنچا ہے۔ ویسے موروثی سیاست کا ایک اور فائدہ بھی اس دفعہ دیکھنے میں آیا ہے کہ اعلیٰ قیادت کو سٹیج پر ”بی اور سی گریڈ“ کی قیادت کو مائیک سونپنے اور ان کی بیجا فرمائشوں کو سننے سے نجات مل گئی ہے۔اب ماشاء اللہ بڑے میاں صاحب، چھوٹے میاں صاحب، ان سے چھوٹے میاں صاحب اور بی بی صاحبہ کی موجودگی میں ”چار بڑے“ مقرر تو گھر میں سے ہی ہیں، بہرحال یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ اب ”دعاؤں“ کا مرحلہ آپہنچا ہے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر جلوہ افروز ہونے والوں کو ”دنیاوی خداؤں“ کے بعد اب جائے نماز پر سجدے کرنا یقینا یاد آرہا ہوگا۔ قیدی اور اس کے کھلاڑیوں کا تو پہلے ہی دعاؤں پر زور ہے۔ دیکھتے ہیں 8 فروری سے پہلے مزید سزائیں سنائی جاتی ہیں یا 31 سال ہی کافی ہوں گے۔ قیدی کے مطابق وہ ڈیل مسترد کرچکا ہے، اب عوام کس سے ڈیل کریگی؟ یہ 9 فروری کی صبح تک سامنے آجائے گا۔

جماعت اسلامی نے الیکشن کے حوالے سے نیا ترانہ جاری کر دیا

QOSHE -           سزائیں اور 8 فروری۔۔۔! - سید شعیب الدین احمد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

          سزائیں اور 8 فروری۔۔۔!

13 0
06.02.2024

پاکستان کی 76 سالہ تاریخ کا ایک اہم مرحلہ آن پہنچا۔ ایک ایسا دن جب ”پاکستانی جمہوریت“ کا امتحان ہوگا۔ وہ ملک جو توپ، تلوار، بندوق سے مسلح جدوجہد کی بجائے ووٹ کے عمل سے دنیا کے نقشے پر اُبھرا، وہاں آج 76سال کے بعد بھی جمہوریت ایک ایسے ”کمرہئ امتحان“ میں ہے جہاں 12 کروڑ 70 لاکھ ووٹر اپنے مستقبل کے حکمرانوں کو چنیں گے، مگر حکمرانوں کو چننے کے لئے وہ جن نمائندوں کو ووٹ ڈال کر اپنی نمائندگی کا اختیار سونپیں گے ان کے بارے آج اکیسویں صدی میں بھی انہیں یہ ”شک“ ہے کہ ان کا نمائندہ کہیں ابتدائی ”72 گھنٹوں“ میں ہی ان سے ”ہاتھ“ نہ کردے۔ یہ شک ان کے دل میں ”ریاست“ کے فیصلوں اور ٹی وی سکرین پر بیٹھ کر سیاسی جماعتوں کی ”نمک حلالی“ کرنے والے ”اینکروں اور تجزیہ نگاروں“ نے ڈالا ہے۔ بچپن میں کسی سے سنا تھا کہ شک کا بیج بونا مشکل کام نہیں، صرف بیج بونے والے کا چہرہ ”معصومانہ“ ہونا چاہئے تاکہ دھوکہ دینے اور دلوں میں وسوسے پیدا کرنے میں آسانی ہو۔ پاکستان کے معصوم عوام جن کو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ”ریاست اور حکمرانوں“ نے تعلیم اور سکول سے دور رکھا، ہر چند سال بعد ”معصوم چہروں“ کے بنائے جال میں اس طرح پھنس جاتے ہیں کہ اسے آنکھوں کے سامنے موجود سچ دکھائی نہیں دیتا اور اسے وہی سچ لگتا ہے جو ”ریاست“ کے نام پر اسے بیچا جاتا ہے۔ بیچا جانے والا سودا ”کھرا ہے یا کھوٹا“ اس کی شناخت پڑھے لکھے ”سمجھدار“ لوگوں کے لئے بھی مشکل کام ہے، چہ جائیکہ وہ ملک جہاں پونے تین کروڑ بچہ سکول نہ جا رہا ہو، اس کے ”حال اور مستقبل“ کا ووٹ کی پرچی کے صحیح استعمال کرنے والوں........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play