سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا ہے ذوالفقار علی بھٹو کو فیئر ٹرائل کا موقع نہیں ملا، اِس ریفرنس میں پانچ سوالات اُٹھائے گئے تھے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بنچ نے ان کا تفصیلی جائزہ لیا اور متفقہ طور پر اِس رائے کا اظہار کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو فیئر ٹرائل سے محروم رکھا گیا۔چیف جسٹس نے صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کی رائے سناتے ہوئے کہا جج قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کے پابند ہیں،جب تک غلطیاں تسلیم نہ کی جائیں، اصلاح نہیں ہو سکتی۔ ابھی یہ واضح نہیں کہ بھٹو کیس کے فیصلے پر سپریم کورٹ نے کیا رائے دی ہے،اس کا اندازہ تفصیلی فیصلہ آنے پر ہو گا۔البتہ یہ تسلیم کر لیا گیا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو فیئر ٹرائل کا موقع نہیں دیا گیا۔پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنے ابتدائی ردعمل میں اس فیصلے کو تاریخی اور خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے45سال بعد تاریخ درست ہونے جا رہی ہے ہم تفصیلی فیصلے کا انتظار کریں گے۔بھٹو کیس پاکستانی عدلیہ پر ایک داغ ہے، جسے دھونا ضروری ہے تاکہ ایک بڑی غلطی کا ازالہ ہو سکے۔آج مجھے سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ بہت یاد آ رہے ہیں جو بہت پہلے ایک انٹرویو میں تسلیم کر چکے تھے کہ بھٹو کو پھانسی ایک غلط فیصلہ تھا اور یہ فیصلہ دباؤ پر دیا گیا تھا۔عموماً خیال یہ رہا کہ یہ فیصلہ اب تاریخ کا حصہ ہے،اس میں کسی تبدیلی یا اصلاح کی کوئی گنجائش نہیں۔44 سال تک اسے کسی نے نہیں چھیڑا تاہم یہ پھانس بن کر تاریخ کے گلے میں اٹکا رہا،چونکہ قانونی طور پر اسے اعلیٰ عدلیہ میں چیلنج بھی نہیں کیا جا سکتا تھا، کیونکہ اپیل یا نظرثانی کا وقت گزر چکا تھا اِس لئے باہمی سوچ بچار کے بعد2011ء میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے یہ راستہ اختیار کیا کہ صدارتی ریفرنس بھیج کر سپریم کورٹ سے اس کیس کے بارے میں رائے لی جائے۔

جیکولین فرنینڈس کی رہائشی عمارت کی 17ویں منزل پر آگ لگ گئی

سپریم کورٹ نے اس صدارتی ریفرنس کا متعدد سماعتوں میں جائزہ لیا اور فیصلہ محفوظ کیا جسے کل سنا دیا گیا گویا سپریم کورٹ نے اپنی رائے دیتے ہوئے اس بنیادی حقیقت کو تسلیم کر لیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو اس کیس کی ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کی سطح پر سماعت کے دوران وہ حقوق نہیں دیئے گئے،جو کسی بھی ملزم کو حاصل ہوتے ہیں۔فیئر ٹرائل میں ملزم کو اپنی صفائی کا پورا موقع دیا جاتا ہے،اُس کے وکلاء کی اِس تک مکمل رسائی ہوتی ہے، ٹرائل کے دوران یکطرفہ کارروائی اور یکطرفہ فیصلوں سے گریز کیا جاتا ہے، فوجداری قوانین میں ہر چیز واضح۔ کسی شق سے انحراف نہیں کیا جا سکتا۔اُس زمانے کے اخبارات گواہ ہیں بھٹو کے خلاف کیس کو لاہور ہائیکورٹ میں کیسے سرعت سے چلایا گیا اُس وقت کے چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین پر بھٹو کے وکلاء کی طرف سے اعتراضات بھی ہوئے،مگر انہیں کبھی اہمیت نہیں دی گئی۔ جب لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تو اُس وقت بھی قانونی ماہرین کی رائے تھی بھٹو کو اعانت جرم کی جس دفعہ کے تحت سزائے موت سنائی گئی اُس میں اصل جرم کی انتہائی سزا سنائی ہی نہیں جا سکتی، اِس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ سات رکنی بنچ نے یہ اپیل سنی اور تین کے مقابلے میں چار ججوں نے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے بھٹو کی پھانسی کے حق میں اپیل نمٹا دی۔ بھٹو کیس میں کسی دباؤ کا اندازہ اِس امر سے بھی ہوتا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ میں یہ کیس پانچ ماہ چلا اور کئی فوجداری شقوں کو نظرانداز کرتے ہوئے مولوی مشتاق حسین نے مارچ1978ء میں بھٹو اور دیگر ملزمان کو پھانسی کا فیصلہ سنا دیا۔عموماً ایسے مقدمات میں اپیلیں سالہا سال چلتی ہیں،خاص طور پر سپریم کورٹ کی سطح پر قتل اور پھانسی کے خلاف اپیلوں کا فیصلہ آسانی سے نہیں ہوتا،مگر بھٹو کیس میں ایک عجلت نظر آئی۔ 1978ء میں لاہور ہائیکورٹ فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی، سات رکنی بنچ بنایا گیا، سماعت کا آغاز ہوا اور دس ماہ بعد فروری1979ء میں اس اپیل پر فیصلہ سنا دیا گیا۔ماہرین قانون بتاتے ہیں کہ جب سات رکنی بنچ میں تین کے مقابلے میں چار جج اپیل کے خلاف فیصلہ دیں تو عموماً انتہائی سزا کو عمر قید میں تبدیل کر دیا جاتا ہے، مگر ذوالفقار علی بھٹو کو یہ رعایت نہیں دی گئی اور سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا گیا،اس کے بعد بھی عجلت دکھائی اور صرف دو ماہ بعد جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کو راولپنڈی میں پھانسی دے دی۔یوں تاریخ کا ایک ایسا باب رقم ہو گیا،جس کی سیاہی آج بھی انصاف کا منہ چڑا رہی ہے، پیپلزپارٹی نے اسے جوڈیشنل مرڈر کا نام دیا۔ عوامی سطح پر بھی اس فیصلے کو پذیرائی نہ مل سکی۔ایک مقبول عوامی لیڈر کو جس طرح راستے سے ہٹایا گیا وہ کسی کو بھی ہضم نہیں ہو سکا۔آصف علی زرداری نے2011ء میں یہ ریفرنس دائر کیا اور اپیل کہ گیارہ رکنی بنچ اس کی سماعت کرے،اس ریفرنس پر چھ سماعتیں ہوئیں۔آخری سماعت نومبر 2012ء میں ہوئی جس کے بعد بنچ ٹوٹ گیا اور اُس کے بعد اس پر کارروائی بھی ٹھپ ہو گئی۔قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس بنے تو انہوں نے اس ریفرنس کی سماعت کا فیصلہ کیا،یوں اس تاریخی کیس پر سپریم کورٹ کی رائے سامنے آ گئی ہے اور اس حقیقت کو تسلیم کر لیا گیا ہے کہ بھٹو کو فیئر ٹرائل کا موقع نہیں دیا گیا۔

ترکیہ نے اسرائیل کو سنگین نتائج سے خبردار کردیا

سپریم کورٹ نے اس ریفرنس پر اپنی رائے ایک ایسے موقع پر دی ہے جب ملک میں ایک بڑے سیاسی لیڈر عمران خان کے وکلاء کی طرف سے کہا جا رہا ہے انہیں فیئر ٹرائل کا موقع نہیں دیا جا رہا۔ سائفر کیس میں جس طرح سماعت ہوئی اور عمران خان کے وکلاء کی بجائے سرکاری وکلاء نے اُن کی طرف سے پیروی کی اور پھر جس طرح عجلت میں کیس کا فیصلہ سنایا گیا۔اُس نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے کیا یہ ضروری ہے تاریخ کے کوڑا دان میں آج کی ضرورتوں کو پھینک دیا جائے اور45 سال گزرنے کا انتظار کیا جائے۔ سیاستدانوں کو بھی یہ سوچنا چاہئے وہ اپنے وقتی فائدے کے لئے اصولوں پر سودے بازی کیوں کرتے ہیں۔اس بات پر خوش کیوں ہوتے ہیں کہ مخالف کو سزا مل رہی ہے۔یہ کیوں نہیں دیکھتے، سزا دیتے ہوئے قانون کے تقاضے پورے کئے جا رہے ہیں یا نہیں۔نواز شریف کو سزائیں ہوئی تھیں تو پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف والے خوش تھے،اب عمران خان کو سزا ہوئی ہے تو مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی ان سزاؤں کو جائز قرار دیتی ہیں۔سزائیں جرم کے مطابق ملنی چاہئیں، مگر اُس سے پہلے فیئر ٹرائل کو یقینی بنانا ضروری ہے۔یہ ذمہ داری بنیادی طور پراعلیٰ عدلیہ کی ہے آج اگر انصاف کا قتل ہوتا ہے تو45سال بعد اُس کے ازالے کا کوئی فائدہ نہیں۔

پاکستان سپر لیگ ہر سال پہلے سے بہتر ہورہی ہے: ویون رچرڈز

QOSHE -         45 سال بعد - نسیم شاہد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

        45 سال بعد

14 0
07.03.2024

سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا ہے ذوالفقار علی بھٹو کو فیئر ٹرائل کا موقع نہیں ملا، اِس ریفرنس میں پانچ سوالات اُٹھائے گئے تھے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بنچ نے ان کا تفصیلی جائزہ لیا اور متفقہ طور پر اِس رائے کا اظہار کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو فیئر ٹرائل سے محروم رکھا گیا۔چیف جسٹس نے صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کی رائے سناتے ہوئے کہا جج قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کے پابند ہیں،جب تک غلطیاں تسلیم نہ کی جائیں، اصلاح نہیں ہو سکتی۔ ابھی یہ واضح نہیں کہ بھٹو کیس کے فیصلے پر سپریم کورٹ نے کیا رائے دی ہے،اس کا اندازہ تفصیلی فیصلہ آنے پر ہو گا۔البتہ یہ تسلیم کر لیا گیا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو فیئر ٹرائل کا موقع نہیں دیا گیا۔پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنے ابتدائی ردعمل میں اس فیصلے کو تاریخی اور خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے45سال بعد تاریخ درست ہونے جا رہی ہے ہم تفصیلی فیصلے کا انتظار کریں گے۔بھٹو کیس پاکستانی عدلیہ پر ایک داغ ہے، جسے دھونا ضروری ہے تاکہ ایک بڑی غلطی کا ازالہ ہو سکے۔آج مجھے سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ بہت یاد آ رہے ہیں جو بہت پہلے ایک انٹرویو میں تسلیم کر چکے تھے کہ بھٹو کو پھانسی ایک غلط فیصلہ تھا اور یہ فیصلہ دباؤ پر دیا گیا تھا۔عموماً خیال یہ رہا کہ یہ فیصلہ اب تاریخ کا حصہ ہے،اس میں کسی تبدیلی یا اصلاح کی کوئی گنجائش نہیں۔44 سال تک اسے کسی نے نہیں چھیڑا تاہم یہ پھانس بن کر تاریخ کے گلے میں اٹکا رہا،چونکہ قانونی طور پر اسے اعلیٰ عدلیہ میں چیلنج بھی نہیں کیا جا سکتا تھا، کیونکہ اپیل یا نظرثانی کا........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play