ملک میں الیکشن کی بساط بچھ چکی ہے اور سیاسی جماعتیں اپنے اپنے منشور کے ساتھ عوام میں ہیں۔ ہر چند کہ اس الیکشن میں پہلے جیسی گہما گہمی اور بڑے جلسوں کی ایک مکمل کھیپ تسلسل سے تو کہیں بھی دکھائی نہیں دی لیکن اس کے لیے اب میڈیا کو ہی زیادہ موثر انداز سے استعمال کیا جا رہا ہے جس میں سوشل میڈیا سب سے نمایاں ہے۔ سیاسی جماعتوں کے منشور میں کہیں بھی حالات کی سنگینی کاذکر اور اس کو درست سمت تک لانے کے لئے کوئی جامع پلان نہیں بلکہ بس خواب ہیں جو ہم دیکھتے اور دکھاتے چلے جا رہے ہیں۔اس الیکشن کمپین کا سب سے اہم اور مزے کا پہلو سولہ ماہ حکومت کا سٹیٹس انجوائے کرنے والی حلیف جماعتوں کا آمنے سامنے ہونا ہے جس پر نئی نسل حیرتوں میں ڈوبی ہے۔ پی ڈی ایم کی حکومت میں ایک طرف کہا جا رہا تھا کہ ایسا وزیر اعظم ہی عوام کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتا ہے اور دوسری طرف کہا جا رہا تھا کہ اگر مشترکہ حکومت بنانے کی ضرورت پیش آئی تو اسی وزیر خارجہ کو دوبارہ ذمہ داری سونپی جائے گی۔ لیکن ”ذرا سی دیر میں کیا ہو گیا زمانے کو “ کے مصداق ”ہوتا ہے شب و روز تماشہ مرے آگے“ والی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ سابق نوجوان وزیر خارجہ کی توپوں سے ٹھیک ٹھاک گولے برس رہے ہیں جس سے وہ کسی متوقع ملنے والی پذیرائی سے محرومی پر دل برداشتہ دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا پڑاؤ لاہور میں ایک حلقے میں بھی ہے جس پر وہ پھبتی کس رہے ہیں کہ دوسری طرف سے کوئی لاڑکانہ میں کھڑا ہو کر دکھائے۔ یہ صورت حال دلچسپ بھی ہے اور مضحکہ خیز بھی جس سے ایک چیز تو بہر حال واضح ہے کہ پارٹی کوئی بھی ہو سیاستدان کوئی بھی ہو لیکن باہمی مفادات ایک ایسا پوائنٹ ہے جس پر ایک ہونے میں دیر نہیں لگاتے اور جب یہ ختم ہوتے ہیں تو پھر وہی کھیل دوبارہ وہیں سے شروع کر دیاجاتا ہے جہاں سے ختم ہوتاہے۔ایک میڈیا پروگرام میں سابق وزیر خارجہ سے سوال پوچھا گیا کہ آپ جو باتیں اور وعدے عوام سے کر رہے ہیں ہر کوئی یہ جانتا ہے کہ یہ کسی طور ممکن نہیں ہیں جس پر انہوں نے جواب دیا کہ خواب تو دیکھا اور دکھایا جا سکتا ہے۔یعنی ہم 72سالوں سے خواب ہی دیکھتے چلے آ رہے ہیں جن کی تعبیر کی کوئی صورت دور دور تک دکھائی نہیں دے رہی۔ہمارا خواب تو یہ بھی ہے کہ اگر جمہوریت عوام کی طاقت سے بننے والی حکومت کو کہتے ہیں جو ان کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے تو یہ واقعی کچھ سچ بھی ہو جائے۔جو لوگ اس نظام کے تحت عوام کے نمائندوں کے طور پر سامنے آتے ہیں وہ ہی سب سے بڑا جھوٹا خواب ہے جو یہ قوم دیکھتی آرہی ہے۔ہمارا خواب تو یہ بھی ہے کہ سیاسی جماعتیں کام کی بنیاد پر ورکروں کو آگے لائیں اور وراثت کے علاوہ بھی ایسے لوگ سامنے آئیں جو حقیقی قیادت کا حق ادا کر سکیں۔

ہنی مون کے دوران ہی دولہا کا انتقال ، دلہن کی بھی حالت غیر، ہسپتا ل منتقل، وجہ ایسی کہ آپ کو بھی دکھ ہوگا

سیاست وراثت کا ہی دوسرا نام ہے جسے ہم نے ذہنی طور پر بھی قبول کر لیا ہے۔خواب دکھانے والوں کو کوئی یہ بھی بتائے کہ ہم تو یہ خواب بھی دیکھتے ہیں کہ پارٹی فنڈ کے نام پر عوام کے حقیقی نمائندوں کا راستہ مسدود کرنے کے عمل کو ختم کر دیا جائے جس کے سبب کوئی ذی شعور اور ذی فہم اس راستے پر قدم ہی نہیں رکھ سکتا۔ہمارا خواب تو دینی جماعتوں کے حوالے سے بھی کبھی پورا نہیں ہو پایا۔ جو دین کے نام پر نمائندگی کر رہی ہیں ان کے پیش نظر کچھ اور مقاصد ہیں اور وہ انہی کے حصول کے لیے الیکشن میں اترتی ہیں اور سنجیدہ فکر اور صاحب علم دینی قیادت اس نظام اور ماحول کے سبب کبھی ابھرنے ہی نہیں دی گئی۔یہ ملک جس خواب کی تعبیر کے لیے حاصل کیا گیا تھا اسے دیکھنے کو تو نسلوں کی آنکھیں ترس گئی ہیں۔ ہمارا خواب تو یہ بھی ہے کوئی ایسی حکومت بھی آئے جو ایسا نظام وضع کر دے کہ ہمارے بچوں کو حصول علم اور معاش کے لیے اپنے پیاروں سے دور نہ جانا پڑے جبکہ آج بھی ایک طرف سے آواز آ رہی تھی کہ ہم آپ کے بچوں کو تعلیم دے کر باہر کے ملکوں میں بھجوائیں گے تا کہ وہ ڈالر کما کر پاکستان بھیج سکیں جس سے ملک بھی خوشحال ہو آپ کے گھرانے بھی۔ ایک تقریر میں یہ خواب یہ دکھایا جا رہا تھا کہ ہم سڑکو ں اور ہسپتالوں کا جال بچھا دیں گے جبکہ ہمارا خواب یہ ہے کہ یہاں روز سڑکیں بننے اور ٹوٹنے کا سبب بننے والوں کو کٹہرے میں لایا جائے اور لوگوں کو ایسا ماحول اور خوراک میسر آئے جو انہیں بیماریوں سے بچا سکیں کہ انہیں ہسپتال جانا ہی نہ پڑے۔یہاں ظالم کو سزا ملنا بھی ہمارا خواب ہے، یہاں غریب کا حق مارنے والوں کو روکنا بھی ہمارا خواب ہے، یہاں ایک جیسی تعلیم بھی ہمارا خواب ہے، یہاں امیر کو امیر تر اور غریب کو غریب تر بنانے والے عوامل کا سد باب بھی ہمارا خواب ہے، یہاں انصاف کی تیز ترین اور شفاف فراہمی بھی ہمارا خواب ہے، یہاں مردہ ہو جانے والی معیشت کے مراعات یافتگان اور پروٹوکول زدہ طبقے کا راستہ روکنا بھی ہمارا خواب ہے، صاحبان علم و فن کی توقیر بھی ہمارا خواب ہے، اہل افراد کی بے توقیری کو روکنا بھی ہمارا خواب ہے، وہ قرض جو ہم نے لیا بھی نہیں اور نہ ہی ہم نے خرچ کیا اس کا سبب بننے والوں اور اس ملک کو اس دلدل میں پھنسانے والوں کا حقیقی احتساب بھی ہمارا خواب ہے۔ہمیں ہسپتالوں کی کثرت نہیں صحت مند رکھنے والا ماحول اور خوراک کی فراہمی درکار ہے، ہمیں مفت تعلیم کی نہیں یکساں نظام تعلیم کی ضرورت ہے، ہمیں بجلی کے مفت یونٹ نہیں بجلی کا ایک ریٹ درکار ہے۔ خوابوں کی ایک طویل فہرست ہے دیکھئے الیکشن 2024ء کے بعد ہمارے خوابوں کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔!

مسجد کے پیش امام کو انتخابی ضابطہ اخلاق کی پابندی کا نوٹس جاری کردیا گیا

QOSHE -         الیکشن 2024ء اور ہمارے خواب - سرور حسین
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

        الیکشن 2024ء اور ہمارے خواب

11 0
03.02.2024

ملک میں الیکشن کی بساط بچھ چکی ہے اور سیاسی جماعتیں اپنے اپنے منشور کے ساتھ عوام میں ہیں۔ ہر چند کہ اس الیکشن میں پہلے جیسی گہما گہمی اور بڑے جلسوں کی ایک مکمل کھیپ تسلسل سے تو کہیں بھی دکھائی نہیں دی لیکن اس کے لیے اب میڈیا کو ہی زیادہ موثر انداز سے استعمال کیا جا رہا ہے جس میں سوشل میڈیا سب سے نمایاں ہے۔ سیاسی جماعتوں کے منشور میں کہیں بھی حالات کی سنگینی کاذکر اور اس کو درست سمت تک لانے کے لئے کوئی جامع پلان نہیں بلکہ بس خواب ہیں جو ہم دیکھتے اور دکھاتے چلے جا رہے ہیں۔اس الیکشن کمپین کا سب سے اہم اور مزے کا پہلو سولہ ماہ حکومت کا سٹیٹس انجوائے کرنے والی حلیف جماعتوں کا آمنے سامنے ہونا ہے جس پر نئی نسل حیرتوں میں ڈوبی ہے۔ پی ڈی ایم کی حکومت میں ایک طرف کہا جا رہا تھا کہ ایسا وزیر اعظم ہی عوام کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتا ہے اور دوسری طرف کہا جا رہا تھا کہ اگر مشترکہ حکومت بنانے کی ضرورت پیش آئی تو اسی وزیر خارجہ کو دوبارہ ذمہ داری سونپی جائے گی۔ لیکن ”ذرا سی دیر میں کیا ہو گیا زمانے کو “ کے مصداق ”ہوتا ہے شب و روز تماشہ مرے آگے“ والی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ سابق نوجوان وزیر خارجہ کی توپوں سے ٹھیک ٹھاک گولے برس رہے ہیں جس سے وہ کسی متوقع ملنے والی پذیرائی سے محرومی پر دل برداشتہ دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا پڑاؤ لاہور میں ایک حلقے میں بھی ہے جس........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play