اللہ تعالیٰ کے لفظ کن کی ہر چیز محتاج ہوتی ہے، لیکن رب السموات والارض نے ویسے پوری کائنات کے نظام کو فطرت کے تابع کردیا ہے۔ بادل برسیں گے تو مردہ زمین زندہ ہو جائے گی۔ طرح طرح کی فصلیں اُگیں گی تو انسان مستفید ہو گا۔ جانوروں کو چارہ ملے گا دودھ اور گوشت کی فراوانی ہوگی دودھ سے پندرہ سو مزید چیزیں بن جائیں گی اِسی طرح گوشت کا استعمال کر کے اَن گنت ڈشیں تیار ہوں گی۔انسان، چرند اور پرند سب فائدہ اٹھائیں گے۔ پھر وہ جسمانی حاجت کے لئے فضلہ کریں گے اور یہ کھاد کا کام دے گا اوپر سے سرکار کی مداخلت کے سبب سونا یوریا مارکیٹ میں آجائے گا اور زمینیں سونا اُگلیں گی۔ یہ سونا بشکل فصلات ملوں تک پہنچے گا اور ملیں ریشم کے ڈھیر بننا شروع ہو جائیں گی اور پھر ریشم کا استعمال۔ تم اللہ کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ انسان ناشکرا ہے۔ جلد باز ہے، ظالم ہے اور شاید اسی لئے خسارے میں ہے۔ اللہ نے آنکھیں دی ہیں اور ہم سیرو فی الارض کے حکم پر عمل نہیں کرتے۔ ہاتھ اور پاؤں دیئے گئے ہیں اور ہم ہاتھ اور پاؤں نہیں مارتے، بلکہ پاؤں پہ پاوں رکھ کر حقہ پیئے جارہے ہیں۔ زبان رکھتے ہیں، لیکن زبان کا بلاوجہ استعمال کر کے اپنے ارد گرد آگ لگا دیتے ہیں۔ دماغ اتنی بڑی نعمت ہے کہ جس کا شکر ادا کرنا ممکن نہیں ہے اور ہم ہیں کہ اس کو استعمال کرنا بالکل ضروری نہیں سمجھتے۔ کتنی ہٹ دھرمی، نالائقی اور سستی ہے اتنا کچھ رکھنے کے باوجود روئے دھوئے جارہے ہیں۔روئیں دھوئیں ہمارے دشمن۔ ایک وقت تھا جب یہ بھی ایک بیانیہ تھا، لیکن اس وقت ہوش سے کام لیا جاتا تھا اور بہتر حکمت عملی سے معاملات کو بہتر انداز میں چلایا جاتا تھا اورانسان دنیا میں آنے کے مقصد سے پوری طرح آگاہ تھا پھر حالات نے کروٹ بدلی۔

تھائی لینڈ کا غیرملکی سیاحوں کیلئے ویزہ فری انٹری کا اعلان

انسان کی آنکھوں پر جہالت، تکبرونخوت، جبر و استبداد، رعونت، عجلت و جلد بازی اور حرص و طمع کی چربی چڑھ گئی اور اس کے سامنے ساری چیزیں دھندلا گئیں۔ صورت حال یکسر بدل گئی۔ انسان سوشل اینیمل تو تھا ہی اوپر سے نام نہاد سوشل بھی ہو گیا لہٰذا انسانیت حیوانیت کی شکل اختیار کر گئی۔ وقت گزرتا رہا۔ ہر سال ہیپی نیو ایئر کی صدائیں مبارک بادیں اور پارٹیاں کھانا پینا کھلا، بلکہ پینا تو بہت ہی کھلا اور انسان بالکل ہی کھل گیا۔ کھل کھلا کے کھیلنے لگا اور اس سارے کھیل میں بظاہر جیت بھی رہا تھا کاش کوئی بتائے اس کو کہ میاں اکثر اوقات جیت ہار میں بھی بدل جاتی ہے اور ہار میں مار خوب پڑتی ہے۔ انسان منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا اور بقول اقبال (کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں۔ ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں) تلاش کرنا پڑتا ہے۔ تلاش کے نتیجے میں سب سے پہلے اپنے آپ کو پایا جاتا ہے اور اپنے آپ کو پا کر ہی مقصود حیات پایا جاتا ہے۔ افسوس ہم واہیات میں اپنا زیادہ وقت گزار رہے ہیں اور اخلاقیات کا درس ہم نے مکمل طور پر بھلا دیا ہے۔ صبح کا بھولا شام کو گھر لوٹ آئے تو اس کو بھولا نہیں کہتے۔ اس کی ماں اس کا انتظار کررہی ہوتی ہے اور جس کی ماں جاگتی ہے وہ بچے لمبی تان کے سوتے ہیں۔ ماں اور بچوں کا تو ایسا تعلق ہوتا ہے کہ ماں تو مر کر بھی بچوں کی روحانی طور پر مدد کررہی ہوتی ہے۔ شاید اب ماں بھی اپنے بچوں سے مایوس ہوگئی ہے اور تھک کے سو گئی ہے یا پھر الٹی گنگا بہنا شروع ہو گئی ہے لگتا ہے لوگوں نے گنگا میں نہانا چھوڑ دیا ہے۔ ویسے تو ہم نے بہت کچھ چھوڑ دیا ہے۔ اسی لئے حالات نے بھی ہمیں بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

لاہور میں مفت کھانا نہ دینے پر پولیس اہلکاروں کا ہوٹل ملازم پر تشدد

ہر سال ہم عہد کرتے ہیں اور پھر وہ عہد بھول جاتے ہیں۔ ایک عہد ہم نے اپنے خالق سے بھی کیا تھا اور دنیا میں آکر وہ عہد ہم نے بھلا دیا ہے۔ خیر اس عہد کے بھولنے کے نتائج تو اس وقت برآمد ہوں گے جب ہمارے جسم کا انگ انگ اور لوں لوں ہمارے خلاف گواہی دے گا اور پھر دائیں اور بائیں والے طبقات بن جائیں گے۔ ایک طبقہ موج میں ہوگا اور دوسرا آگ میں ہو گا۔ کاش کوئی بتلائے ہم کو۔ قرآن تو ہم نے طاق میں رکھ دیا ہے اور ہم نے قوم کو ثوابوں کے چکر میں ڈال دیا ہے۔ اسی کشمکش میں شب وروز گزر رہے ہیں اور پھر ماہ و سال گزر جاتے ہیں۔ ہم رسمی طور پر باتیں بھی کرتے ہیں مذاکرے بھی کرواتے ہیں۔ کتابیں بھی لکھتے ہیں۔ تقریروں سے ماحول کو خوب گرماتے ہیں،چونکہ رسم اذاں ہے روح بلالی تو ہے نہیں لہذا کئے کرائے پر پانی پڑ رہا ہے۔ بھائی بھائی کا خون کررہا ہے اور بھائی ہی بہن کا حق غصب کررہا ہے۔ بیٹے نے بھلا دی ہے جو اسلاف سے میراث پائی تھی۔ انسان انسان کا ویری ہو چکا ہے وہ اپنے ذاتی مفاد اور اقتدار کے لئے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطین، کشمیر اور بوسنیا میں خون کی ندیاں بہائی جارہی ہیں اور وسعت پالیسی کے بھوت نے ممالک کو ممالک کے سامنے لا کھڑا کردیا ہے اور ایک دفعہ پھر ہیروشیما اور ناگا ساکی کی داستان دہرائی جاتی ہوئی نظر آرہی ہے اور سپر پاور کو اپنے اقتدار کے نشے میں کچھ نظر نہیں آرہا ہے۔ کشمیر آج بھی اقوام متحدہ کو پکار رہا ہے اور اقوام متحدہ بیانات کی حد تک مکمل طور پر زندہ و جاوید ہے۔استحصال کا جن بوتل سے نکل کر پوری طرح باہر آچکا ہے اور ہم سب کی استحصالی قوتوں کے خلاف لفظی جنگ جاری ہے، جبکہ لاتوں کے بھوت باتوں سے کب مانتے ہیں۔ ہر طرف مایوسی ہی مایوسی ہے۔ خوف و ہراس، بے بسی و بے حسی، ناکامی و نامرادی، چور شور مچارہا ہے اور سادھ بے سدھ پڑا ہے۔ اوپر والا فی الحال ساری صورتحال کا تفصیلی جائزہ لے رہا ہے۔ سب کے کان کن سننے کے منتظر ہیں۔ ہم کچھ ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں ہم چاہتے بہت کچھ ہیں لیکن کرنا کچھ نہیں چاہتے۔

سابقہ گلوکارہ رابی پیرزادہ نے خاموشی سے شادی کرلی

ان حالات میں ایک سال اور گزر گیا ہے۔ اب بھی اس امر کی ضرورت ہے کہ انسان ہوش کے ناخن لے۔ سوچے کہ وہ دنیا میں کیوں بھیجا گیا تھا اور کیا وہ اس لحاظ سے اپنا کردار ادا کررہا ہے یا پھر وقت گزار کر جیسے آیا تھا ویسے ہی چلا جائیگا۔ بہر حال اس نے ایک نہ ایک دن تو جانا ہے اور اگلے معاملات ٹھیک کرنے کے لئے اس کو یہاں کے معاملات درست کرنا ہوں گے۔ جیسا بوو گے ویسا کاٹو گے۔ گہرے سوچ بچار کی ضرورت ہے اور اپنے ہم جنسوں کو سوچنے پر مجبور کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے خود سوچا جائے اور پھر اس کے حساب سے ماڈل پیش کیا جائے تب جا کے کسی دوسرے کو سوچنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ آج 2024ء کا سال شروع ہو چکا ہے۔ پوری دنیا کو بذریعہ نیٹ غور سے دیکھنے کی ضرورت ہے اور پھر اس حساب سے ایک لائحہ عمل ترتیب دینے کی ضرورت ہے تب جا کر ماڈل 2024ء پیش کیا جا سکتا ہے۔ بصورت دیگر تاریخ پر تاریخ پھر ماہ و سال اور پھر ہر سال ہیپی نیو ایئر۔

فلم 'انیمل' کے اداکارنے خودکشی کرنیوالی لڑکی کو بچالیا

٭٭٭٭٭

QOSHE -          ماڈل 2024ء - شفقت اللہ مشتاق
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

         ماڈل 2024ء

9 0
08.01.2024

اللہ تعالیٰ کے لفظ کن کی ہر چیز محتاج ہوتی ہے، لیکن رب السموات والارض نے ویسے پوری کائنات کے نظام کو فطرت کے تابع کردیا ہے۔ بادل برسیں گے تو مردہ زمین زندہ ہو جائے گی۔ طرح طرح کی فصلیں اُگیں گی تو انسان مستفید ہو گا۔ جانوروں کو چارہ ملے گا دودھ اور گوشت کی فراوانی ہوگی دودھ سے پندرہ سو مزید چیزیں بن جائیں گی اِسی طرح گوشت کا استعمال کر کے اَن گنت ڈشیں تیار ہوں گی۔انسان، چرند اور پرند سب فائدہ اٹھائیں گے۔ پھر وہ جسمانی حاجت کے لئے فضلہ کریں گے اور یہ کھاد کا کام دے گا اوپر سے سرکار کی مداخلت کے سبب سونا یوریا مارکیٹ میں آجائے گا اور زمینیں سونا اُگلیں گی۔ یہ سونا بشکل فصلات ملوں تک پہنچے گا اور ملیں ریشم کے ڈھیر بننا شروع ہو جائیں گی اور پھر ریشم کا استعمال۔ تم اللہ کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ انسان ناشکرا ہے۔ جلد باز ہے، ظالم ہے اور شاید اسی لئے خسارے میں ہے۔ اللہ نے آنکھیں دی ہیں اور ہم سیرو فی الارض کے حکم پر عمل نہیں کرتے۔ ہاتھ اور پاؤں دیئے گئے ہیں اور ہم ہاتھ اور پاؤں نہیں مارتے، بلکہ پاؤں پہ پاوں رکھ کر حقہ پیئے جارہے ہیں۔ زبان رکھتے ہیں، لیکن زبان کا بلاوجہ استعمال کر کے اپنے ارد گرد آگ لگا دیتے ہیں۔ دماغ اتنی بڑی نعمت ہے کہ جس کا شکر ادا کرنا ممکن نہیں ہے اور ہم ہیں کہ اس کو استعمال کرنا بالکل ضروری نہیں سمجھتے۔ کتنی ہٹ دھرمی، نالائقی اور سستی ہے اتنا کچھ رکھنے کے باوجود روئے دھوئے جارہے ہیں۔روئیں دھوئیں ہمارے دشمن۔ ایک وقت تھا جب یہ بھی ایک بیانیہ تھا، لیکن اس وقت ہوش سے کام لیا جاتا تھا اور بہتر حکمت عملی سے معاملات کو بہتر انداز میں چلایا جاتا تھا اورانسان دنیا میں آنے کے مقصد سے پوری........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play