پاکستان اپنی تاریخ کے نازک ترین حالات کا سامنا کر رہا ہے ویسے شاید ہی کبھی ایسا وقت آیا ہو کہ ہم نازک صورتحال کا شکار نہ ہوئے ہوں،1979ءمیں جب اشتراکی افواج دریائے آمو پار کر کے افغانستان پر قابض ہوئیں تو ہمارا امتحان شروع ہو گیا۔ پھر نو سال بعد ہم ایک اور امتحان میں پڑ گئے،ہم کابل میں اپنے دوست افغان مجاہدین کی حکومت قائم نہیں کر سکے، اشتراکی حکمران ڈاکٹر نجیب اللہ کابل پر قابض رہا، پھر مجاہدین کی حکومت قائم ہوئی تو وہ آپس میں لڑنے لگے، ہم بھی فریق بن گئے،طالبان آئے اور چھا گئے وہ بھی ہمارے لئے ایک نیا امتحان ثابت ہوا۔نائن الیون ہوا وہ بھی ہمارے لئے امتحان بن گیا امریکی اتحادیوں کی جنگ میں ہمیں فرنٹ لائن سٹیٹ بننا پڑا،بیس اکیس سال تک امریکی افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف لڑتے رہے، دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ ہمارے گلے پڑ گئی، آج اِسی جنگ کے زیر اثر ہمارا ملک لہو لہو اور معاشرہ تار تار ہو چکا ہے، ہمارا انفراسٹرکچر تباہ اور سیاست پامال نظر آ رہی ہے،ہم معاشی اور سیاسی طور پر ایک تباہ حال ملک کا نقشہ پیش کر رہے ہیں۔

پی ٹی سی ایل نے لینڈ لائن اور براڈ بینڈ کنکشنز کے ٹیرف میں 10 فیصد تک اضافہ کردیا

یہ طے شدہ امر ہے کہ یہ ملک پاکستان سیاستدانوں نے ہی چلانا ہے پاکستان کے25کروڑ عوام اپنے نمائندوں کو اقتدار میں دیکھنا پسند کرتے ہیں کسی کو نواز شریف، آصف علی زرداری، عمران خان، فضل الرحمن، شہباز شریف،مریم نواز، بلاول بھٹو زرداری اور ایسے ہی سیاستدانوں کے چہرے پسند نہ بھی ہوں ان کی کارکردگی کیسی بھی رہی ہو،لیکن پاکستان کے عوام کی اکثریت اپنے منتخب نمائندوں کو ہی اقتدار میں دیکھنا چاہتی ہے ملک کو جب بھی ڈی ریل کیا گیا، واپسی اسی طرف ہوئی۔ڈکٹیٹر بھی سیاست دان ہی بن کر عوام پر حکمرانی کرتے رہے،انہوں نے اپنی کنگز پارٹی بنائیں، اپنے لاڈلے تخلیق کئے، حیران کن بات یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو،نواز شریف اور عمران خان جیسے پاپولر لیڈر پہلے سب لاڈلے تھے، ہماری اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوئے پھر یہ سب اصلی نمائندے بننے لگے تو ان سب کا حشر نشر کر دیا گیا، بھٹو کو پھانسی چڑھایا گیا،اس کی بیٹی قتل کر دی گئی،نواز شریف کو جلاوطنی اور معزولی کی سزائیں دی گئیں، عمران خان بھی اب ایسی ہی کیفیت سے گزر رہے ہیں۔

آسٹریلیا میں پاکستانی ٹیم فٹنس مسائل سے دوچار،سپنر نعمان علی بھی ٹیسٹ سیریز سے باہر

اسٹیبلشمنٹ سیاست دانوں کو نااہل اور کرپٹ سمجھتی ہے خود کو محب وطن تصور کرتی ہے، سول ملٹری تعلقات کبھی بھی ہموار نہیں رہے ، مارشل لاءآتے رہے ان کا خوش دلی سے استقبال بھی کیا جاتا رہا ۔نوابزادہ نصر اللہ خان جیسے بابائے جمہوریت ، نواز شریف دشمنی میں اس کا خیر مقدم بھی کرتے پائے گئے۔بے نظیر،جنرل اسلم بیگ کے ترانے بھی گاتی رہی ہیں،جنرل مشرف کے ساتھ خفیہ این آر او بھی کیا۔ نواز شریف جنرل ضیاءالحق کے مارشل لاءمیں منصہ شہود پر آئے پھر کبھی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اور کبھی مخالفت کے ذریعے اپنا قد کاٹھ بڑھا کر سیاست میں زندہ و جاوید رہے۔یہاں کسی کی سیاست کی تحسین اور کسی کی تنقیص مقصود نہیں ہے ،بلکہ بالفصل حالات و واقعات کا بیان ہے۔ پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی، نواز شریف ایک مسلمہ حقیقت ہیں کسی کو پسند ہو یا نہ ہو سیاست ایک بار پھر ہمارے مسائل کا حل قرار پا چکی ہے اور نواز شریف ممکنہ طور پر وزیراعظم کے طور پر منظر پر چھا جانے کی تیاریاں کر رہے ہیں وہ گزری عسکری قیادت کے رویوں کے شاکی ہیں نوحہ کناں ہیں۔عمران خان اس اسٹیبلشمنٹ کے خلاف باتیں کرتے پائے گئے ہیں،جو انہیں لے کر آئی تھی اس طرح نواز شریف اور عمران خان ایک ہی سوراخ کے ڈسے ہوئے ہیں،دونوں ان کے خلاف باتیں کرتے ہیں۔دوسری طرف سیاست میں دونوں ایک دوسرے کے دشمن بھی ہیں ویسے نواز شریف عمران خان کے خلاف ذاتی دشمنی کی حد تک نہیں پہنچے۔انہوں نے عمران خان کی مخالفت،سیاسی میدان میں کی ہے میاں صاحب عمران خان کا نام ہمیشہ ادب و احترام سے لیتے ہیں گوالمنڈی کا نواز شریف جس شرافت و نجابت کا مظاہرہ کرتا پایا گیا ہے عمران خان جیسا آکسفورڈ کا پڑھا لکھا ویسا رویہ ظاہر نہیں کر سکا تو سیاسی سرکلز میں یہ بات بھی گردش کرتی رہی ہے کہ جس طرح خان نے عامیانہ بلکہ سوقیانہ رویوں کا اظہار کیا ہے وہ جس بازاری انداز میں اپنے سیاسی و غیر سیاسی مخالفوں پر برستے رہے ہیں ان کی گونج آکسفورڈ تک جا پہنچی ہے اور انہوں نے سوچنا شروع کر دیا ہے کہ وہ عمران خان کو دی جانے والی ڈگری سے برا_¿ت کا اعلان کر دیں،کیونکہ خان صاحب نے ڈگری کے نام کی لاج نہیں رکھی،بلکہ اعلیٰ درجے کے ادارے کی مٹی پلید کر کے رکھ دی ہے۔

کراچی کے کینٹ اسٹیشن میں ٹرین سے بم برآمد کر کے ناکارہ بنا دیا گیا

بہرحال الیکشن اپنی طے کردہ رفتار اور ٹائم ٹیبل کے مطابق ہونے جا رہے ہیں دشمنانِ ملک و ملت اس عمل پر شک و شبہات کی گرد ڈالنے میں مصروف ہیں ویسے تو پاکستان کے خلاف”خلاءمیں جنگ“ یعنی سائبر وار ایک عرصے سے جاری ہے۔”پانچویں نسل کی جنگ“ جو خلاءیعنی سائبر میں لڑی جاتی ہے اور اسی ملک کے لوگ اپنے ہی ملک کے خلاف برسر پیکار کر دیئے جاتے ہیں۔ پاکستان کے خلاف ایک عرصے سے ایسا ہو رہا ہے، ریاست ناکام ہوتی نظر آ رہی ہے۔ معیشت کا بھٹہ بیٹھ چکا ہے سوچ سمجھ رکھنے والوں کو کسی نہ کسی حد تک یقین ہو چکا ہے کہ یہ ملک چلنے والا نہیں ہے۔سرمائے کے ساتھ ساتھ ذہانت کی ہجرت تیزی سے جاری ہے، کوئی قابل، پڑھا لکھا اور باصلاحیت نوجوان یہاں رکنا نہیں چاہتا۔ عام شہری اپنی روٹی روزی میں اِس قدر الجھا دیا گیا ہے کہ اسے کچھ اور سوچنے کی فرصت ہی نہیں ملتی ۔ بجلی، گیس کے بلوں کی تکلیف اپنی جگہ، ان کی دستیابی بھی ایک قومی مسئلہ بن چکا ہے۔ پٹرولیم کی قیمتیں بھی عوام کے لئے سوہانِ جسم و جاں بنی ہوئی ہیں، اشیائے صرف کی قیمتیں ناقابل بیان حد تک پہنچ چکی ہیں،قدرِ زر بھی انتہائی پست ہو چکی ہے۔ریاست کے شراکت دار ادارے اور شخصیات ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہیں، اختیارات کی جنگ جاری ہے۔آئین اور قانون کی سرعام پامالی ہو رہی ہے، ہر ایک کا اپنا بیانیہ ہے ہر ایک کے پاس اپنی دلیل ہے عوام مکمل طور پر کنفیوژ ہو چکے ہیں۔

رہنما تحریک انصاف اعظم سواتی نے نواز شریف کے مقابلے پر الیکشن لڑنے کا اعلان کردیا

ایسی مایوس کن اور مسموم فضاءمیں الیکشن2024ءقوم کے لئے اُمید کی کرن ثابت ہو سکتے ہیں، مایوس اور مغموم عوام اپنی من پسند قیادت کے ساتھ مل کر ملک کی تعمیر و ترقی میں عازمِ سفر ہو سکتے ہیں۔ملک و قوم کو جہاں تک پہنچا دیا گیا ہے وہاں سے واپس لانے کے لئے سیاسی قیادت مثبت رول پلے کر سکتی ہے، عوام کو فعال اور متحرک کرنے اور انہیں ملکی تعمیر و ترقی میں شریک ِ سفر بنانے میں حقیقی سیاسی عمل کی بحالی ضروری ہے الیکشن 2024ءاِس حوالے سے نقطہ آغاز ثابت ہو سکتا ہے۔

QOSHE -    الیکشن2024ءہو لینے دیں! - مصطفی کمال پاشا
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

   الیکشن2024ءہو لینے دیں!

17 0
23.12.2023

پاکستان اپنی تاریخ کے نازک ترین حالات کا سامنا کر رہا ہے ویسے شاید ہی کبھی ایسا وقت آیا ہو کہ ہم نازک صورتحال کا شکار نہ ہوئے ہوں،1979ءمیں جب اشتراکی افواج دریائے آمو پار کر کے افغانستان پر قابض ہوئیں تو ہمارا امتحان شروع ہو گیا۔ پھر نو سال بعد ہم ایک اور امتحان میں پڑ گئے،ہم کابل میں اپنے دوست افغان مجاہدین کی حکومت قائم نہیں کر سکے، اشتراکی حکمران ڈاکٹر نجیب اللہ کابل پر قابض رہا، پھر مجاہدین کی حکومت قائم ہوئی تو وہ آپس میں لڑنے لگے، ہم بھی فریق بن گئے،طالبان آئے اور چھا گئے وہ بھی ہمارے لئے ایک نیا امتحان ثابت ہوا۔نائن الیون ہوا وہ بھی ہمارے لئے امتحان بن گیا امریکی اتحادیوں کی جنگ میں ہمیں فرنٹ لائن سٹیٹ بننا پڑا،بیس اکیس سال تک امریکی افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف لڑتے رہے، دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ ہمارے گلے پڑ گئی، آج اِسی جنگ کے زیر اثر ہمارا ملک لہو لہو اور معاشرہ تار تار ہو چکا ہے، ہمارا انفراسٹرکچر تباہ اور سیاست پامال نظر آ رہی ہے،ہم معاشی اور سیاسی طور پر ایک تباہ حال ملک کا نقشہ پیش کر رہے ہیں۔

پی ٹی سی ایل نے لینڈ لائن اور براڈ بینڈ کنکشنز کے ٹیرف میں 10 فیصد تک اضافہ کردیا

یہ طے شدہ امر ہے کہ یہ ملک پاکستان سیاستدانوں نے ہی چلانا ہے پاکستان کے25کروڑ عوام اپنے نمائندوں کو اقتدار میں دیکھنا پسند کرتے ہیں کسی کو نواز شریف، آصف علی زرداری، عمران خان، فضل الرحمن، شہباز شریف،مریم نواز، بلاول بھٹو زرداری اور ایسے ہی سیاستدانوں کے چہرے پسند نہ بھی ہوں ان کی کارکردگی کیسی بھی رہی ہو،لیکن پاکستان کے عوام کی اکثریت اپنے منتخب نمائندوں کو ہی اقتدار میں دیکھنا چاہتی ہے........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play