گورڈن کالج میں طاہر اکرام سے اوّلین ملاقات استادی شاگردی کے رنگ میں ہوئی تھی، لیکن اُنہی معنوں میں جیسے کالج، یونیورسٹی کے طلبہ متعلقہ شعبے کے ہر مدرس کو اپنا استاد سمجھتے ہیں۔ بے مثل انگریزی داں اور چوٹی کے اردو نظم گو آفتاب اقبال شمیم کوہ قاف یعنی پیکنگ یونیورسٹی سے دوبارہ واپس آ کر بی اے کو لازمی انگلش پڑھانے پر مامور ہوگئے۔ تاہم ٹائم ٹیبل کے تحت ولایت پلٹ نوجوان لیکچرر کے ساتھ اُن کی نثر اور پوئٹری اینڈ ڈرامہ کی باہمی تدریس ایک طرح کی ’چلیپائی ضرب‘ تھی۔ ہم دونوں اے اور بی سیکشن کے یکے بعد دیگرے دو دو پیریڈ لے کر نکلتے تو رُخ نیلے درختوں والے پروفیسرز مَیس کی جانب ہی ہوا کرتا۔ پیالی ختم ہونے پر اگلے طویل تر وقفے کی آس لیے آفتاب شمیم اور مَیں بالترتیب بی ایس سی اور انٹرمیڈیٹ پری میڈیکل کو پڑھانے چلے جاتے۔

پی سی بی کو میڈیا رائٹس فروخت کرنے سے روک دیاگیا

ایک دن آفتاب صاحب نے انکشاف کیا کہ دسمبر ٹیسٹ میں بی ایس سی کے طلبہ کو مضمون نویسی کے لیے جو موضوعات دیے اُن میں سے ایک پر بہت غیرمعمولی تحریر پڑھنے کو مِلی ہے۔ ”یہ لڑکا چند مہینے پہلے راولپنڈی ڈویژن کی سائیکل ریس میں فرسٹ آیا تھا۔ مَیں نے کہا ہے کہ آپ سے مِلے اور اپنا مضمون بھی دکھائے۔“ عنوان پوچھا تو فرمایا: ”اَین آور وِد مائی سیلف، ایک گھنٹہ اپنے ساتھ۔“ امتحانی پرچے کی ندرت ممتحن کی تخلیقی فِکر کا اظہار تھی۔ چند لمحوں میں جینز جیکٹ میں ملبوس چھوٹے قد کے ایک حرکتی سے نوجوان نے سلام کیا اور تحریر میرے آگے رکھ دی ۔ اپنے روبرو گزرا ہوا ایک گھنٹہ مرگلہ کی پہاڑی پر چڑھ کر شمالی سمت سے سکندر اعظم کی حملہ آور فوج کی منظر کشی سے شروع ہو ا تھا۔ خیال آیا کہ ایسا موضوع آفتاب صاحب ہی سوچ سکتے ہیں اور یہ جواب مضمون بھی ہر کوئی نہیں لکھ سکتا۔

خواجہ آصف کا عثمان ڈار کی والدہ کے الزام کی تحقیقات کا مطالبہ

سردیاں موسمِ بہار میں بدلیں تو ادب کے من موہنے استاد توصیف تبسم عارضہءقلب کے ہاتھوں طویل رخصت پر چلے گئے۔ ایک صبح پرنسپل ، ڈاکٹر عزیز محمود زیدی نے ہماری طالب علمی کے جگت وائس پرنسپل مطیع اللہ خاں کی موجودگی میں مجھے طلب کیا۔ کہنے لگے کہ توصیف صاحب ڈھائی ماہ کی چھٹی پر ہیں، اِس دوران اُن کی جگہ آپ ’بانگِ درا‘ کی پانچ نظمیں پڑھا دیں۔ مَیں ڈرا کہ بی اے کو اقبال کیونکر پڑھاﺅں گا جبکہ خود اپنی مبلغ اردو تعلیم بارہویں جماعت تک ہے۔ گھبرا کر پروفیسر مطیع اللہ کی طرف دیکھا جو فارسی کے استاد تھے: ”خاں صاحب کے ہوتے ہوئے مَیں یہ جسارت کیسے کر سکتا ہوں؟“ ”آپ شوق سے پڑھائیے، مجھے مطلق اعتراض نہیں۔“ اِس پر ڈاکٹر زیدی نے یہ کہہ رجسٹر میری طرف بڑھا دیا کہ ”لڑکے آپ ہی سے پڑھنا چاہتے ہیں۔“

کمسن بیٹیوں کو واشنگ مشین کے ٹب میں ڈبو کر ہلاک کرنے والے کو سزائے موت

اردو لٹریچر کی کلاس میں کُل بارہ طالب علم تھے۔ لہذا طے پایا کہ تدریسی بلاک کی بجائے پَونسن بی ہال کی بالائی منزل پر وہ میرے رہائشی کمر ے میں آ جایا کریں۔ پہلے دن کرسیاں کم پڑیں تو ہم سب بلا تکلف قالین پر بیٹھ گئے اور فیض احمد فیض کے ’فرشِ نومیدیءدیدار ‘ کی طرح بیٹھے ہی رہے ۔ 1928 ءمیں، بطور ٹی بوائے، کالج سے وابستہ ہونے والے چاچا زمان کا چائے خانہ اِسی فلور پر تھا۔ چنانچہ اقبال پر گفتگو ِچھڑتے ہی روم سروس کا تانتا بندھ جاتا اور میرے زورِ کلام میں اضافہ ہونے لگتا۔ دو دن گزرے تھے کہ تھرڈ ائیر سائنس کے طاہر اکرام بھی رضاکارانہ طور پر شریک ِ محفل ہو نے لگے جن کا نام پہلی ملاقات کے بعد مجھے اکرم طاہر یاد رہ گیا تھا۔ خیر ڈھارس بندھی کہ چلو، میری طرح ایک شاگرد تو ایسا ہے جس کا بنیادی مضمون اردو نہیں۔

پرویز الہٰی طبی معائنے کے بعد ہسپتال سے دوبارہ جیل منتقل

ایک روز لیکچر ختم ہونے پر سیڑھیاں اترتے ہوئے طاہر اکرام نے نام کی تصحیح کی اور آہستہ سے کہا کہ سر، کلاس کے بعد بھی کچھ و‘قت دیا کریں۔ ”کیا مطلب؟“ ”سر، سٹوڈنٹس کے ساتھ گفتگو کا مزہ نہیں آتا۔ آفتاب صاحب یا آپ ہوں تو بات بنتی ہے مگر وہ فیملی مَین ہیں، پڑھا کر گھر چلے جاتے ہیں۔“ میرا معمول یہ تھا کہ ہفتہ وار چھٹی اور بِیچ کا ایک آدھ دن والدین کے ساتھ واہ میں گزارتا جہاں ہمدمِ دیرینہ ساجد پیرزادہ کے بقول، آرڈننس کلب میں اوپننگ ، کلوزنگ ڈیوٹی ہماری ہی ہوتی۔ وگرنہ ہر شام کالج کے پروفیسرز مََیس میں عبدالکریم ہمدانی، نواب نقوی، افتخار ممدوٹ ، آصف ہمایوں اور مجھ سمیت قاضی عبید ، شاہدالدین اور بابر ہاشمی جیسے مرنجاں مرنج ہمکاروں کی وہ ہاہا کار مچی ہوتی کہ اللہ دے اور بندہ لے۔ اِس ہنگامہءیاراں میں طاہر اکرام یا کسی اَور طالب علم کے لیے گنجائش کیسے نکلتی؟

زائرین کا روضہ شریف ﷺ میں داخلہ سال میں ایک بار ہی ممکن ہوگا

دو باتیں البتہ ایسی تھیں جنہوں نے ہماری ملاقاتوں کے تسلسل کو آسان بنا دیا۔ ایک تو والد کے زیرِ اثر ، جو چار بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے، میری بے ساختہ دوستیوں کا جذبہ جس میں عمر کی قید نہ تھی ۔ ابا کے دوست ہمارے دوست ہوا کرتے جبکہ میرے اور زاہد کے احباب سے ابا کا تعلق بھی خوشگوار بے تکلفی کا رہا ۔ دوسرے ، گورڈن کالج میں اساتذہ کا میل جول صرف اپنے ہمکاروں تک نہیں تھا۔ چنانچہ کبھی اوپن یونیورسٹی سے آ کر قلعہ سوبھا سنگھ والے حامد ہاشمی مجھے پنجابی میں ” شہری بولی“ بولنے کا طعنہ دے رہے ہیں اور کبھی فوجی وردی میں چھُپا ہوا تخلیق کار نذیر احمد ظفر اپنی تازہ نظم کی کمپوزیشن سُنا رہا ہے۔ میرے کزن فاروق حسن ایسی ہی ایک سہ پہر کو آصف ہمایوں، بابر ہاشمی اور مجھے ایک نئے چائے خانے میں لے گئے۔ طاہر اکرام نے بھی کاواساکی کو کِک ماری اور ساتھ ہو لیے۔

خود شناسی سوسائٹی کا ایک مسئلہ ہے، دوسروں کی طرح اپنے آپ کو ڈھال لینا ہی اصل حل ہے، انٹرنیٹ کے باعث اب کافی آسانی ہو گئی ہے

پتا نہیں کیسی گھڑی تھی کہ راولپنڈی میں وزارتِ دفاع کی عمارت کے بالمقابل مری روڈ اور مارکیٹ روڈ کی درمیانی ڈھلان پر ’سنیک شیک‘ نامی یہ ریستوراں طاہر سمیت سبھی دوستوں کا ملجا و ماوہ بن گیا۔ اِسی پناہ گاہ میں ایک شام میری داہنی طرف فاروق حسن تھے اور عین سامنے طاہر کہ اچانک دروازہ کھُلا اور طاہر کے منہ سے نکلا ”اوئے آفتاب صاحب“۔ اُن کے ساتھ پروفیسر آصف ہمایوں داخل ہوئے اور پیچھے پیچھے طاﺅس بانہالی۔ آصف خلافِ معمول جوش میں تھے ۔ ”آج احمد شمیم کے ریفرنس میں آفتاب صاحب نے نظم سُنائی، کمال کر دیا ہے۔“ مَیں نے مزید چائے کافی کا آرڈر دیا ۔ آفتاب صاحب نے کہا:”یہ نظم شاہد ملک پڑھ کر سُنائے گا۔“ اور اے فورسائز کے سات خوشخط صفحات میری جانب سرکا دیے۔ ’شجرستانِ ہجر کا مسافر‘ سُننے کی دیر تھی کہ تصورِ حیات ہی بدل گیا مگر زیادہ وارفتگی طاہر پہ طاری ہوئی۔

نظم جو ’کبھی ہم خوبصورت تھے‘ والے احمد شمیم کی رحلت کے تناظر میں تھی، تین ماہ میں اتنی بار پڑھی کہ کئی طویل اقتباس آج بھی یاد ہیں۔ شجرستان ِ ہجر تھا اوپن یونیورسٹی کے پاس ایچ ایٹ قبرستان جہاں چالیس سال ہوئے ہم نے احمد شمیم کو سپردِ خاک کیا اور یہیں طاہر اکرام کو زیرِ زمیں ہوئے آج بارھواں دن ہے۔ احمد شمیم والی لافانی نظم کے ظہور کا احوال آفتاب صاحب نے آبپارہ کے کامران ریستوراں میں چائے پیتے ہوئے مجھے اور طاہر کو سُنایا تھا: ”ہم احمد شمیم کو چھو ڑ آئے ۔ پہلے تو یقین نہیں آتا تھا۔ پھر وہ ایک دن آیا ، جیسے آیا کرتا تھا۔ ہماری جو بات چیت ہوئی، وہی مَیں نے لکھِ دی۔ “ مُکھڑا دیکھیے:

جب سہ پہر کی ڈھلوانوں سے روشنیاں بہہ جاتی تھیں

جب انگشت ستارے کی تھرّانے لگتی تھی شام کے بربط پر

اُ س د م جانے کون صدا دیتا تھا ’آﺅ

بجھتے رنگوں کے یہ تحفے

آﺅ، اپنے کل کے خوابوں کی قیمت میں لیتے جاﺅ‘

خوابوں کی قیمت بتانے کے لیے طاہر اکرام بھی شاید کسی دن آ جائے۔ نہ آیا تو اُس کی بیک اسٹیج کہانی مَیں سُنا دوں گا۔ (جاری ہے)

QOSHE -     حیرتوں کی تازہ منزل کا اشارہ (2)  - شاہد ملک
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

    حیرتوں کی تازہ منزل کا اشارہ (2) 

9 7
24.12.2023

گورڈن کالج میں طاہر اکرام سے اوّلین ملاقات استادی شاگردی کے رنگ میں ہوئی تھی، لیکن اُنہی معنوں میں جیسے کالج، یونیورسٹی کے طلبہ متعلقہ شعبے کے ہر مدرس کو اپنا استاد سمجھتے ہیں۔ بے مثل انگریزی داں اور چوٹی کے اردو نظم گو آفتاب اقبال شمیم کوہ قاف یعنی پیکنگ یونیورسٹی سے دوبارہ واپس آ کر بی اے کو لازمی انگلش پڑھانے پر مامور ہوگئے۔ تاہم ٹائم ٹیبل کے تحت ولایت پلٹ نوجوان لیکچرر کے ساتھ اُن کی نثر اور پوئٹری اینڈ ڈرامہ کی باہمی تدریس ایک طرح کی ’چلیپائی ضرب‘ تھی۔ ہم دونوں اے اور بی سیکشن کے یکے بعد دیگرے دو دو پیریڈ لے کر نکلتے تو رُخ نیلے درختوں والے پروفیسرز مَیس کی جانب ہی ہوا کرتا۔ پیالی ختم ہونے پر اگلے طویل تر وقفے کی آس لیے آفتاب شمیم اور مَیں بالترتیب بی ایس سی اور انٹرمیڈیٹ پری میڈیکل کو پڑھانے چلے جاتے۔

پی سی بی کو میڈیا رائٹس فروخت کرنے سے روک دیاگیا

ایک دن آفتاب صاحب نے انکشاف کیا کہ دسمبر ٹیسٹ میں بی ایس سی کے طلبہ کو مضمون نویسی کے لیے جو موضوعات دیے اُن میں سے ایک پر بہت غیرمعمولی تحریر پڑھنے کو مِلی ہے۔ ”یہ لڑکا چند مہینے پہلے راولپنڈی ڈویژن کی سائیکل ریس میں فرسٹ آیا تھا۔ مَیں نے کہا ہے کہ آپ سے مِلے اور اپنا مضمون بھی دکھائے۔“ عنوان پوچھا تو فرمایا: ”اَین آور وِد مائی سیلف، ایک گھنٹہ اپنے ساتھ۔“ امتحانی پرچے کی ندرت ممتحن کی تخلیقی فِکر کا اظہار تھی۔ چند لمحوں میں جینز جیکٹ میں ملبوس چھوٹے قد کے ایک حرکتی سے نوجوان نے سلام کیا اور تحریر میرے آگے رکھ دی ۔ اپنے روبرو گزرا ہوا ایک گھنٹہ مرگلہ کی پہاڑی پر چڑھ کر شمالی سمت سے سکندر اعظم کی حملہ آور فوج کی منظر کشی سے شروع ہو ا تھا۔ خیال آیا کہ ایسا موضوع آفتاب صاحب ہی سوچ سکتے ہیں اور یہ جواب مضمون بھی ہر کوئی نہیں لکھ سکتا۔

خواجہ آصف کا عثمان ڈار کی والدہ کے الزام کی تحقیقات کا مطالبہ

سردیاں موسمِ بہار میں بدلیں........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play