بچپن سے سنتے آئے ہیں سمجھدار انسان ایک سوراخ سے بار بار نہیں ڈسا جاتا۔ مگر نجانے کیا وجہ ہے کہ ہم (پاکستانی) بار بار "انتخابی سوراخ " سے نہ صرف ڈسے جاتے ہیں بلکہ اس " غیر جمہوری زہر " کے اتنے عادی ہوگئے ہیں کہ یہ زہر ہم پر اثر نہیں کرتا۔"طاقتوروں "کی حمایت سے غیر جمہوری یعنی " چور راستے "سے آنے والے سال دھڑلے سے 24 کروڑ عوام کا خون چوستے ہیں اور یہ بے بس مجبور عوام چور راستوں سے آنیوالوں کا کچھ نہیں بگاڑ پاتے۔ دس دن پہلے 12 ویں عام انتخابات کا ڈول ڈالا گیا تو 75 سال سے ظلم و ستم کا شکار بے بس عوام نے تمام تر خوف کی فضا کے باوجود ووٹ ڈالا اور پھر مصلے پر بیٹھ گئے۔ مگر بقول شاعر " کچھ نہ دوا نے کام کیا "۔ ہوا وہی جو 75 سال سے ہوتا آیا ہے اور1977میں بھی ہوا جو اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے ۔ مگر کرنے والے بھول گئے کہ 1977 میں " کچھ اور " بھی ہوا تھا۔ 7 مارچ 1977 کو دو سو نشستوں میں سے 155 جناب بھٹو کی پارٹی نے حاصل کی تھیں اور 9 جماعتی اتحاد کے حصے میں 36 اور مسلم لیگ (قیوم) کے حصے میں صرف ایک نشست آئی تھی۔ اعتی اتحاد نے نتائج قبول کرنے سے انکار کیا اور احتجاج کیلئے سڑکوں پر آگئے۔ ان حالات میں چیف الیکشن کمشنر جسٹس سجاد احمد جان نے بی بی سی اور نوائے وقت کو انٹرویو دیا جس نے پی پی پی پر قیامت ڈھا دی۔ ان کا کہنا تھا کہ "یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی سجی سجائی دوکان لوٹ کر لے جائے۔

افغانستان میں مٹی کا تودہ گرنے کا افسوسناک واقعہ، 25 افراد جاں بحق

ان کا کہنا تھا کہ صورتحال نازک ہے، تقریبا تمام وزرا کے خلاف دھاندلی کے الزامات ہیں۔ وسیع پیمانے پر دھاندلی کرکے ملک و قوم کے مفادات کو نقصان پہنچایا گیا۔ ممکن ہو تو تمام نشستوں کے انتخاب پر عدالتی نظر ثانی کی جائے۔ پھر سڑکوں پر جو دھمال ڈالی گئی اس کی تلخ یادیں آج بھی تازہ ہیں۔ لاشیں گریں اور پھر "لائن کٹ گئی "۔ جنرل ضیا الحق کو حکومت کا تختہ الٹنے کا موقع مل گیا۔ ملک پر مارشل لا کی " سیاہ رات " چھاگئی، صحافیوں تک کو قلم اٹھانے کی سزا میں کوڑے پڑے اور قلعہ کی کول کوٹھری میں پھینک دیا گیا۔ ظلم کی سیاہ رات گیارہ سال جاری رہی۔ یہ نہ سمجھیں ڈرا رہا ہوں۔ اللہ نہ کرے آج پھر کوئی طویل سیاہ رات ہمارا مقدر بنے، مگر کیا کروں ڈر لگتا ہے کیونکہ 77 کے کھلاڑی آج بھی میدان میں ہیں۔ احتجاج کرنے والے پیر پگارو، مولانا مفتی محمود، مولانا شاہ احمد نورانی اور عبدالولی خان کے فرزندان 8 فروری کے " متاثرین " میں ہیں اور احتجاج کر رہے ہیں۔ محمود اچکزئی تب بھی ناراض تھے اور آج بھی ہیں۔ جماعت اسلامی تب بھی مظاہرین میں سب سے آگے تھی اور اب تو غصہ اتنا ہے کہ امیر جماعت اسلامی نے امارت سے استعفی دے دیا۔ جناب اصغر خان اور بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان کے فرزند کہیں نہیں۔ بحیثیت جماعت سب سے کامیاب ہونے کی دعویدار جماعت مسلم لیگ ن کے تاحیات قائد میاں نواز شریف کے والد مرحوم میاں محمد شریف اس وقت احتجاج کرنے والی جماعت مسلم لیگ (پگارو) کا حصہ تھے۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ کسی " سرخ آندھی " کی آمد آمد ہے اور جھکڑ چلنے والے ہیں۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (منگل) کا دن کیسا رہے گا؟

مگر ایک سچ یہ بھی ہے کہ 1977 میں انتخابی نتائج میں گڑبڑ کا ذمے دار سی ایس پی یعنی ڈپٹی کمشنر گروپ تھا۔ آج بھی عدلیہ کی بجائے انتظامیہ یعنی " ڈپٹی کمشنر گروپ" کو الیکشن کی ذمے داری سونپی گئی، ان "حکمرانوں " نے آج پھر عوام کو 47 سال پہلے والے حالات میں پہنچا دیا ہے، اس "تگڈم "کا سامنا اکیسویں صدی میں پیدا ہونیوالی " نئی نسل "سے ہے جو ہر مشکل کا حل سوشل میڈیا میں ڈھونڈتی ہے۔ اس نئی نسل پر " کاٹھی ڈالنے " کی غلطی کی جا رہی ہے۔1977 میں "نو ستاروں " نے مدرسے کے بچوں کے ذریعے بھٹو مرحوم کیلئے زمین اتنی " گرم "کر دی تھی کہ پیر جلنے لگے اور زمین ٹھنڈی کرنے کے "بہانے "جنرل ضیا الحق نے مارشل لا لگا دیا۔ آج اور 1977 میں ایک بہت بڑا فرق یہ ہے کہ اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس سجاد احمد جان نے انتخابی دھاندلی کا ذمہ دار بھٹو حکومت کو ٹھہرایا تھا جبکہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر ریٹائر جج نہیں، حکمران "تگڈم "کو سمجھنا چاہیے آج پاکستان مشکل حالات میں ہے۔ ہمارے "مسلمان بھائی ممالک "کی ترجیح پاکستان نہیں مودی کا بھارت ہے۔ وہ خطہ جسے میرے پیارے نبی نے بتوں سے پاک کیا تھا آج وہاں مودی سٹیٹ آف دی آرٹ مندر کا افتتاح کر رہا ہے۔ ہم تیزی سے دوست گنوا رہے ہیں۔ ہم بھول گئے ہیں کمزور اور غریب رشتہ دار کو کوئی نہیں پہچانتا۔ آج ضرورت تھی کہ کہ ہم اپنی ذات کی بجائے ملک کا سوچتے۔ مگر بدقسمتی سے آج بھی پہلی ترجیح ملک وقوم نہیں ہے۔ اگر عقل کے ناخن نہ لئے گئے تو پھر کیا ہوگا یہ سوچ کر ڈر لگتا ہے۔ اقتدار، طاقت، قوت، دولت کی بھوک ختم ہونے میں نہیں آرہی۔"تحریک نظام مصطفی" کے انداز کی تحریک کی تیاریاں جاری ہیں، اس سے پہلے کہ اکیسویں صدی کی نئی نسل " زمین گرم " کر دے، پانی کا چھڑکا شروع کر دینا چاہیے۔ شہنشاہ نوشیرواں کے پاس سمجھدار وزیر بزرجمہر موجود تھا۔ کاش آج کے فیصلہ سازوں میں بھی کوئی بزرجمہر ہو جو صائب مشورہ دے دے۔

ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے درمیان مذاکرات کا پانچواں دور بھی بے نتیجہ ختم

QOSHE -         1977ء سے 2024 ء۔۔ کچھ نہیں بدلا۔۔ - سید شعیب الدین احمد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

        1977ء سے 2024 ء۔۔ کچھ نہیں بدلا۔۔

14 1
20.02.2024

بچپن سے سنتے آئے ہیں سمجھدار انسان ایک سوراخ سے بار بار نہیں ڈسا جاتا۔ مگر نجانے کیا وجہ ہے کہ ہم (پاکستانی) بار بار "انتخابی سوراخ " سے نہ صرف ڈسے جاتے ہیں بلکہ اس " غیر جمہوری زہر " کے اتنے عادی ہوگئے ہیں کہ یہ زہر ہم پر اثر نہیں کرتا۔"طاقتوروں "کی حمایت سے غیر جمہوری یعنی " چور راستے "سے آنے والے سال دھڑلے سے 24 کروڑ عوام کا خون چوستے ہیں اور یہ بے بس مجبور عوام چور راستوں سے آنیوالوں کا کچھ نہیں بگاڑ پاتے۔ دس دن پہلے 12 ویں عام انتخابات کا ڈول ڈالا گیا تو 75 سال سے ظلم و ستم کا شکار بے بس عوام نے تمام تر خوف کی فضا کے باوجود ووٹ ڈالا اور پھر مصلے پر بیٹھ گئے۔ مگر بقول شاعر " کچھ نہ دوا نے کام کیا "۔ ہوا وہی جو 75 سال سے ہوتا آیا ہے اور1977میں بھی ہوا جو اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے ۔ مگر کرنے والے بھول گئے کہ 1977 میں " کچھ اور " بھی ہوا تھا۔ 7 مارچ 1977 کو دو سو نشستوں میں سے 155 جناب بھٹو کی پارٹی نے حاصل کی تھیں اور 9 جماعتی اتحاد کے حصے میں 36 اور مسلم لیگ (قیوم) کے حصے میں صرف ایک نشست آئی تھی۔ اعتی اتحاد نے نتائج قبول کرنے سے انکار کیا اور احتجاج کیلئے سڑکوں پر آگئے۔ ان حالات میں چیف الیکشن کمشنر جسٹس سجاد احمد جان نے بی بی سی اور نوائے وقت کو انٹرویو دیا جس نے پی پی پی پر قیامت ڈھا دی۔........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play