قوموں کی تاریخ میں اچھے اور برے دونوں طرح کے دن ہوتے ہیں۔14اگست 1947ء ایک اچھا،خوبصورت، چمکدار، خوشگوار، مبارک دن تھا جب ہمیں قائداعظمؒ کی بے مثال قیادت کی بدولت غاصب، ظالم، قاتل اور قابض انگریز سے آزادی ملی، مگر اس آزادی کی خوشی زیادہ دن نہیں رہی پہلے قائداعظمؒ کو اللہ پاک نے بُلالیا اور پھر قائد ملت نوابزادہ لیاقت علی خان کو سازشیوں اور ملک دشمنوں نے قتل کر ڈالا۔ وہ مملکت خدا داد جو لاکھوں مہاجرین کے قتل عام سے سنبھلنے کی کوشش کر رہی تھی، ان بھاری بھرکم ”جنازوں“کے بوجھ تلے دب گئی ترقی کہاں سے ہونی تھی، انہی مشکل حالات میں نوزائیدہ ملک کا پہلا آئین نو سال کی محنتوں سے بنا اور 23مارچ 1956ء کو یہ نوزائیدہ مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان بن گئی یہ آئین چوتھے وزیراعظم چودھری محمد علی نے اپوزیشن جماعتوں سے مل کر بنایا تھا، مگر جمہوریت ”دشمنوں“ کو پسند نہیں آیا اور ”آمریت پسندوں“نے7اکتوبر 1958ء کو جمہوریت کو قتل کر کے مارشل لا لگا دیا۔(سیاہ دن گنتے جائیں)۔ سکندر مرزا نے جس جنرل ایوب خان کے لئے مارشل لا لگایا تھا اس نے سکندر مرزا کو اقتدار ہی نہیں ملک سے نکال باہر کیا، پھر جنرل ایوب خان نے8مارچ 1962ء کو اپنا آئین بنایا جسے ”ایوبی آمریتی آئین“ کہا جا سکتا ہے۔ اس آئین کو بھی ایوب خان کے بعد آنے والے آمر جنرل یحیی خان نے رخصت کر دیا (سیاہ دن گنتے جائیں۔ سرزمین پاکستان پھر بے آئین ہو گئی)۔ اقتدار کے اس سارے کھیل میں ہم مغربی پاکستانیوں نے جمہوریت پسند مشرقی پاکستانیوں سے وہ ”سلوک“کیا کہ انہوں نے انگریز کے بعد مغربی پاکستان کی ”غلامی کا طوق“اتار پھینکا۔ قائد کا پاکستان دولخت ہو گیا، مگر ”ہم نے“مشرقی پاکستان کے اپنے جمہوریت پسند بھائیوں سے سبق نہ سیکھا۔

چین میں 6.2شدت کا زلزلہ، متعدد عمارتیں ملبہ کا ڈھیر، 100سے زائد افراد ہلاک، متعدد لاپتہ

مارشل لا کی وجہ سے دو لخت ہونے والی مملکت خدا داد سے جنم لینے والے نئے پاکستان میں 1973ء میں ایک متفقہ آئین کا نفاذ ہوا اور اس بار یہ آئین ایک منتخب پارلیمنٹ کے منتخب ممبران نے بنایا تھا، مگر بدقسمتی دیکھیں ”ہمیں“یہ نیا ”آئین والا پاکستان“ بھی قبول نہیں ہوا اور یہاں مزید دو بار”ہارڈ“مارشل لا کا تجربہ کیا جاچکا ہے اور ”سافٹ مارشل لا“تو کبھی ختم ہی نہیں ہوا(سیاہ دن گنتے جائیں)۔ اس نئے پاکستان میں ”ہم“نے ایک نیا تجربہ یہ بھی کیا کہ ہم نے جب ہارڈ مارشل لا لگایا تو آئین ”برقرار“ رکھا۔ باوردی تجربات کی بدولت16دسمبر کو پاکستان دولخت ہوا۔ یہ ایک منحوس دن تھا جو 52سال گزرنے کے باوجود بھلائے نہیں بھولتا اور ہر سال زخم تازہ کرنے 16 دسمبر آ جاتا ہے۔ یہ جمہوری دور میں آئے یا ”آمر یتی“ دور میں ایک سی تکلیف دیتا ہے۔ یہ وہ تکلیف اور دکھن ہے جو ختم نہیں ہو رہی، کیونکہ 71ء کے بعد کی ہماری غلطیوں نے جو دکھ اور زخم دیا ہے وہ بھی کم تکلیف دہ نہیں ہے اس میں سے بھی خون رستا رہتا ہے اور یہ خون اتنا ”معصوم“ ہے کہ اس کے بہانے والوں کے ہاتھ کیوں نہیں کانپے یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب 9سال میں نہیں مل سکا تھا، مگر گزشتہ کچھ دنوں میں یہ جواب بھی مل گیا (اس کا موضوع سے تعلق نہیں، مگر غزہ میں درندہ صفت یہودیوں کے ہاتھوں معصوم فلسطینی بچوں کے قتل عام سے جواب مل گیا)۔ 16دسمبر2014ء کو آرمی پبلک سکول میں جو ہوا اس دن تو آسمان کو بھی سیاہ ہو جانا چاہئے تھا۔دِلوں کی دھڑکنیں رُک جانی چاہئیں تھیں، مگر سب کھیل تماشے ویسے ہی جاری ہیں ”ہم“نے سبق نہیں سیکھا۔ سبق تو وہ سیکھتے ہیں جو کسی قانون، قاعدے، ضابطے، اخلاقیات کو مانتے ہیں۔

انٹربینک میں ڈالر مزید سستا ہو گیا

ہم تو کچھ سیکھنے سمجھنے کو تیار ہی نہیں ہیں۔ ہم نے آدھا ملک گنوایا، یعنی ایک بازو کٹوایا تو ”دانشوروں“نے ہمیں سمجھایا کہ وہ بازو ہم پر بوجھ تھا۔اس کا کٹ جانا ہی اچھا تھا اور ہم ”بھولے ناتھوں“نے دانشوروں کو سچا مان لیا، بھول گئے کہ بھائی کی موت بازو کٹ جانا کہلاتی ہے۔16دسمبر1971ء سیاہ نہیں ”کالا سیاہ“دن تھا۔ اس دن کا کالا سایہ آج بھی ہمارے اوپر منڈلاتا ہے، مگر اس دن سے سبق نہ سیکھنے سے ہماری زندگی میں ”کالے سیاہ دن“مسلسل آ رہے ہیں۔ 5جولائی 1977ء بھی سیاہ دن تھا اور 12 اکتوبر 1999ء بھی ایسا ہی سیاہ دن تھا،ان سیاہ دنوں نے بہت سے سیاہ دنوں کو جنم دیا، جس میں سے ایک سیاہ دن 16دسمبر 2014ء تھا۔ وہ سیاہ دن جب ”چھ سیاہ رخوں“ نے آرمی پبلک سکول پر حملہ کیا اور خون کی ہولی کھیلی۔ مجھے اس دن 1947ء میں ہندوؤ ں اور ان کے بھڑکائے اور بہکائے سکھوں کے ہاتھوں اپنے مسلمان بھائیوں، بہنوں، بچیوں کے ساتھ کیا گیا ”سلوک“یاد آ گیا وہ بھی اتنا ہی ”خونی“تھا،مگر آرمی پبلک سکول میں بچوں پر گولیاں برسانے اور چھرے چلانے والوں کو میں ”مسلمان“کیسے مان لوں۔ میرے ہاتھ اپنے تو کیا کبھی کسی دشمن کے بچے پر نہیں اُٹھ سکے۔ سمجھ نہیں آتا کوئی معصوم کلیوں کو کیسے مسل سکتا ہے۔16دسمبر کو گزرے 9سال ہو گئے آج بھی47گھروں میں مائیں،بہنیں اور باپ اپنے بچوں کو ڈھونڈھتے اور پھر ناکامی میں روتے ہیں، مگر سیاہ دن صرف یہی نہیں ہیں۔(یہ سیاہ دن تو روزانہ آتے ہیں چلو روزانہ نہیں ایک دو دن کے وقفے سے آتے ہیں)۔ آج بھی پاکستان کے کسی نہ کسی گوشے میں اچانک کہیں سے ”دشمن“نمودار ہوتے ہیں اور ہمارے ”جوانوں“ کو نشانہ بناتے ہیں۔ کہیں سڑک کنارے نصب بم پھٹتا ہے اور کبھی جوانوں کی بیرک سے بارود بھری گاڑی ٹکرا دی جاتی ہے۔ کبھی ہمارے کسی ہوائی اڈے پر حملہ ہو جاتا ہے۔ دشمن ہمارے جوانوں کے قومی پرچم میں لپٹے وجود ان کے چاہنے والوں کو مسلسل بھجوا رہا ہے۔ ہم منتظر ہیں کہ ”اس دشمن“کے خلاف کب ضربِ عضب شروع کیا جاتا ہے۔ عضب آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلوار تھی۔ ہمیں ایک بار پھر یہ تلوار اٹھانی پڑے گی تبھی سیاہ دنوں کی یہ طویل رات چھٹے گی۔

آرمی چیف کی کمانڈر یو ایس سینٹرل کمانڈ سے ملاقات، اہم امور پر تبادلہ خیال

QOSHE -       یوم سیاہ۔۔۔16 دسمبر  - سید شعیب الدین احمد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

      یوم سیاہ۔۔۔16 دسمبر 

13 0
19.12.2023

قوموں کی تاریخ میں اچھے اور برے دونوں طرح کے دن ہوتے ہیں۔14اگست 1947ء ایک اچھا،خوبصورت، چمکدار، خوشگوار، مبارک دن تھا جب ہمیں قائداعظمؒ کی بے مثال قیادت کی بدولت غاصب، ظالم، قاتل اور قابض انگریز سے آزادی ملی، مگر اس آزادی کی خوشی زیادہ دن نہیں رہی پہلے قائداعظمؒ کو اللہ پاک نے بُلالیا اور پھر قائد ملت نوابزادہ لیاقت علی خان کو سازشیوں اور ملک دشمنوں نے قتل کر ڈالا۔ وہ مملکت خدا داد جو لاکھوں مہاجرین کے قتل عام سے سنبھلنے کی کوشش کر رہی تھی، ان بھاری بھرکم ”جنازوں“کے بوجھ تلے دب گئی ترقی کہاں سے ہونی تھی، انہی مشکل حالات میں نوزائیدہ ملک کا پہلا آئین نو سال کی محنتوں سے بنا اور 23مارچ 1956ء کو یہ نوزائیدہ مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان بن گئی یہ آئین چوتھے وزیراعظم چودھری محمد علی نے اپوزیشن جماعتوں سے مل کر بنایا تھا، مگر جمہوریت ”دشمنوں“ کو پسند نہیں آیا اور ”آمریت پسندوں“نے7اکتوبر 1958ء کو جمہوریت کو قتل کر کے مارشل لا لگا دیا۔(سیاہ دن گنتے جائیں)۔ سکندر مرزا نے جس جنرل ایوب خان کے لئے مارشل لا لگایا تھا اس نے سکندر مرزا کو اقتدار ہی نہیں ملک سے نکال باہر کیا، پھر جنرل ایوب خان نے8مارچ 1962ء کو اپنا آئین بنایا جسے ”ایوبی آمریتی آئین“ کہا جا سکتا ہے۔ اس آئین کو بھی ایوب خان کے بعد آنے والے آمر جنرل یحیی خان نے رخصت کر دیا (سیاہ دن گنتے جائیں۔ سرزمین پاکستان پھر بے آئین ہو گئی)۔ اقتدار کے اس سارے کھیل میں ہم مغربی........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play