ڈیئرمجاہد صاحب!

سب سے پہلے تو میں یہ واضح کر دوں کہ عام طور پر ایسے کھلے خط کسی پبلک موضوع پر گلے شکوے کے لئے لکھے جاتے ہیں لیکن آپ جیسے قدیم مخلص دوست نے کبھی کوئی ایسا موقع نہیں دیا آپ روزنامہ ”جنگ“ جیسے معتبر اخبار میں اپنے کالموں میں گھمبیر قومی موضوعات پر اپنے مخصوص فلسفیانہ انداز میں سیر حاصل تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ (میں بھی کچھ عرصہ اس اخبار کا ایڈیٹر سپیشل جرنلزم اور کالم نگار رہا ہوں)۔ میں اپنے کالموں میں ایسے سیاسی موضوعات سے پرہیز کرتا ہوں جن سے کسی سیاسی جماعت کی حمایت یا مخالفت کا پہلو نکلتا ہو۔لیکن پاکستانی ہونے کی وجہ سے موجودہ سیاسی یا انتخابی فضاء میں بلاشک ان پر تبصرہ نہ کروں لیکن کچھ سوالات میرے ذہن میں بھی پیدا ہوتے ہیں جو میں کبھی کبھی آپ سے بھی شیئرکر لیتا ہوں۔

ہمیں کراچی میں امن قائم کرنے کی سزا مل رہی ہے: مصطفیٰ کمال

اگرچہ اس وقت میرے پاس سیاسی، آئینی، قانونی اور انتخابی سوالات کا جمگٹھا ہے جو میں ابھی تھوڑی دیر میں آپ کے سامنے لاؤں گا لیکن اس سے پہلے کچھ ذاتی باتیں بھی کرنی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اس خط کا سبب یہی ذاتی باتیں ہیں ورنہ صرف غیر ذاتی سوالات پوچھنے کے لئے مجھے Public Domain میں داخل ہونے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی۔ یہ دھیان مجھے کیوں آیا اس کی تفصیل سن لیجئے۔

ہوا یوں کہ پاکستان کی معمول کی سالانہ پانچ چھ ہفتوں کی وزٹ ختم کرکے میں 20دسمبر کو واپس امریکہ روانہ ہوا اور اس سے چند روز قبل دیرینہ یارِ غار خادم چودھری (ایڈیٹر ادارتی صفحہ روزنامہ ”پاکستان“)کی وساطت سے 16دسمبرکو لاہور پریس کلب میں میری کالموں کی کتاب ”میں بہت عظیم ہوں“ کی لانچنگ کا اہتمام ہوگیا۔میری اتنی عزت افزائی ہوئی کہ لاہور پریس کلب کے اس وقت کے صدر اعظم چودھری کی زیر نگرانی نہ صرف انتظامیہ نے تقریب کا انتظام کیا بلکہ اس کی میزبانی بھی کی۔ تقریب کے مہمان خصوصی محترم مجیب الرحمن شامی تھے جنہوں نے اپنے خطاب میں کچھ پرانی یادیں چھیڑ دیں جن میں آپ کا ایک حوالہ بھی تھا۔ اس طرح آپ کو خط لکھنے کی بنیاد فراہم ہو گئی۔

مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی آرٹیکل ون ایف کے خاتمے پر متفق

شامی صاحب نے امریکن سنٹر کا ذکر کرتے ہوئے میرے پاس باقاعدگی سے آنے والے تین دوستوں ڈاکٹر شفیق جالندھری،شعیب بن عزیز اور آپ کا نام لیا اور بتایا کہ ہم چاروں ایک طرح سے لازم و ملزوم تھے یہاں تک تو ٹھیک تھا۔ لیکن انہوں نے روایت سے ہٹ کر اچانک اپنی تقریر روک کر مجھ سے سوال کر دیا کہ آپ نے ان کو مدعو نہیں کیا۔ میں نے اس خلاف توقع سوال پر سٹپٹا کر کہہ دیا کہ انہیں بلایا گیا تھا لیکن وہ نہیں آئے۔ حالانکہ میں نے ایسا نہیں کیا تھا۔ سٹیج پر بیٹھ کر تفصیل سے بچنے کے لئے میں نے ایسا کہہ دیا تھا۔

پریس کلب میں الیکشن ہونے والے تھے اس لئے ہر کوئی اس میں مصروف تھا۔ مجھے تقریب کے بارے میں کسی نے بریف نہیں کیا۔مجھے کلب کے پرانے خلیفے اور میرے پرانے دوست علامہ صدیق اظہر نے بتایا کہ آپ کی تقریب کے لئے بڑے ہال کی بجائے جہاں عام تقریبات ہوتی ہیں کلب کا انتہائی خوبصورت کانفرنس روم مختص کیا گیا ہے جہاں محدود نشستیں ہیں۔ اس کے علاوہ کلب کی طرف سے پریس ریلیز جاری ہوگی اور مہمانوں کو بلانے کی ذمہ داری کلب انتظامیہ کی ہوگی صرف مقررین کو آپ نے خود مدعو کرنا ہے۔ اس لئے میں نے ان کے علاوہ کسی کو نہیں بلایا کیونکہ میں نے یہ سمجھا کہ چونکہ خاطر تواضع کے سارے اخراجات پریس کلب نے برداشت کرنے ہیں اس لئے مجھے اپنے اضافی مہمانوں کے ذریعے مزید اضافہ نہیں کرنا چاہیے۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (منگل) کا دن کیسا رہے گا؟

مہمانوں کو کلب والوں نے بلایا اور اس وجہ سے میں نے اپنے مزید ذاتی دوستوں کو نہیں بلایا۔ رات کو گھر پہنچا تو آپ کی گلے سے بھرپور فون کال آ گئی۔ آپ کا کہنا درست تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اظہر زمان کا لاہور میں کوئی فنکشن ہو اور اس میں انہیں بلایا نہ جائے۔ وہ کہنے لگے کہ ہمیں تو فنکشن کی خبر ہی نہیں تھی ورنہ ہم بغیر بلائے بھی آجاتے۔ مجھے پتہ ہے آپ نے جو ”ہم“ کہا اس میں ڈاکٹر شفیق جالندھری بھی شامل تھے۔ آپ کی کال کے تھوڑی دیر بعد ان کا بھی فون آ گیا اور انہوں نے بھی آپ کی طرح سخت گلہ کیا اور ان کو بھی میں نے وہی جواب دیا جو آپ کو دیا۔

بلوچستان کے شہر مچھ میں زور دار دھماکے کی اطلاعات

آپ اور شعیب بن عزیز جرنلزم ڈیپارٹمنٹ میں مجھ سے چند سال جونیئر تھے۔ البتہ شفیق جالندھری میرے Batch Felow اور جزوی کلاس فیلو تھے۔ شفیق صاحب اردو جرنلزم کے اور میں انگلش جرنلزم کا سٹوڈنٹ تھا البتہ ہمارے کچھ Subjectsمشترک تھے۔ ڈیپارٹمنٹ سے فارغ ہو کے بھی ان سے دوستی برقرار رہی۔ ان کا آپ اور شعیب بن عزیز سے بہت اچھا تعلق تھا جس کی وجہ سے آپ دونوں بھی میری دوستی کے دائرے میں داخل ہو گئے یا میں آپ کی دوستی کے دائرے میں داخل ہو گیا۔ میں جب امریکن سنٹر کے پریس سیکشن سے وابستہ ہوا تو وہاں ہماری مجلس میں آپ تینوں یعنی آپ، شفیق صاحب اور شعیب عموماً اکٹھے ہی پائے جاتے تھے جس کا شامی صاحب ذکر کررہے تھے۔ میرا مطلب یہ ہے کہ امریکن سنٹر میں میری جاب کے آغاز پر جرنلزم ڈیپارٹمنٹ میں بننے والی آپ تینوں سے دوستی اسی شدت سے جاری رہی۔ اگرچہ میڈیا کی فیلڈ میں بننے والے دوستوں سے محبت اور گپ شپ کا سلسلہ بھی امریکن سنٹر میں جاری رہا بلکہ زیادہ منظم صورت میں آگے بڑھا۔ ہارون رشید، اسد اللہ غالب، ضیاء شاہد، خوشنود علی خان اور مسرور کیفی جیسے دوست آپ کے گروپ کے ساتھ مل کر پریس لاؤنج کی رونق میں اضافہ کرتے۔

احسن اقبال نے لوگوں کو مریم نواز کے جلسے میں شرکت سے روکا، ناراض ن لیگی رہنما کا الزام

مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ پریس لاؤنج میں ضیاء شاہد نے اپنی شرارتی افتادِ طبع کے باعث ”مجلسِ ارباب مذمت“ تشکیل دینے کا آئیڈیا پیش کیا جس کے پہلے مہمان خصوصی کے طور پر اسد اللہ غالب نے اپنی ”قربانی“ پیش کی۔ اس کا ایک سیشن مکمل ہوا تو حاضرین نے اتفاق کیا کہ اسداللہ غالب پر ”لعن طعن“ بھیجنے کے لئے یہ ناکافی ہے۔ اسی طرح زندہ دل غالب کی تائید سے ایک اور سیشن کا اہتمام ہوا۔ غالب کی جتنی درگت بنی اسے صرف وہی برداشت کر سکتا تھا۔ اس کے بعد کسی کو ”مہمان خصوصی“ بننے کا حوصلہ نہ ہو سکا۔اس طرح پھکڑ بازی کی یہ مجلس بھی ٹوٹ گئی۔

مصطفی کمال کراچی کا امن خراب کرناچاہتے ہیں،مرتضیٰ وہاب

اس کے علاوہ مجھے امریکن سنٹر میں (ریگولر بنیاد پر) مہمان نوازی کا موقع فراہم کرنے والوں میں پروفیسر وارث میر، قدرت اللہ چودھری، ضیاء السلام انصاری، رشید صدیقی، مولوی سعید اظہر، مظفرمحمد علی، منو بھائی، امجد اسلام امجد، نجم سیٹھی، عارف نظامی، راحت کاظمی، فلمی صنعت کی اہم شخصیات کے علاوہ خصوصاً روزنامہ ”جنگ“ اور ”نوائے وقت“ کے سینئر ارکان شامل تھے۔ کبھی کبھار میری عزت افزائی کرنے والوں میں میر شکیل الرحمن اور محترم مجیب الرحمن شامی کے نام سرفہرست ہیں۔ وارث میر صاحب کبھی کبھار اپنے صاحبزادے حامدمیر کو ساتھ لے کر آتے جو عملی صحافت میں داخل ہونے کے بعد الگ بھی آکر ملتے رہے۔(جاری ہے)

QOSHE -       ڈاکٹر مجاہد منصوری کے نام ایک کھلا خط(1) - اظہر زمان
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

      ڈاکٹر مجاہد منصوری کے نام ایک کھلا خط(1)

17 0
30.01.2024

ڈیئرمجاہد صاحب!

سب سے پہلے تو میں یہ واضح کر دوں کہ عام طور پر ایسے کھلے خط کسی پبلک موضوع پر گلے شکوے کے لئے لکھے جاتے ہیں لیکن آپ جیسے قدیم مخلص دوست نے کبھی کوئی ایسا موقع نہیں دیا آپ روزنامہ ”جنگ“ جیسے معتبر اخبار میں اپنے کالموں میں گھمبیر قومی موضوعات پر اپنے مخصوص فلسفیانہ انداز میں سیر حاصل تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ (میں بھی کچھ عرصہ اس اخبار کا ایڈیٹر سپیشل جرنلزم اور کالم نگار رہا ہوں)۔ میں اپنے کالموں میں ایسے سیاسی موضوعات سے پرہیز کرتا ہوں جن سے کسی سیاسی جماعت کی حمایت یا مخالفت کا پہلو نکلتا ہو۔لیکن پاکستانی ہونے کی وجہ سے موجودہ سیاسی یا انتخابی فضاء میں بلاشک ان پر تبصرہ نہ کروں لیکن کچھ سوالات میرے ذہن میں بھی پیدا ہوتے ہیں جو میں کبھی کبھی آپ سے بھی شیئرکر لیتا ہوں۔

ہمیں کراچی میں امن قائم کرنے کی سزا مل رہی ہے: مصطفیٰ کمال

اگرچہ اس وقت میرے پاس سیاسی، آئینی، قانونی اور انتخابی سوالات کا جمگٹھا ہے جو میں ابھی تھوڑی دیر میں آپ کے سامنے لاؤں گا لیکن اس سے پہلے کچھ ذاتی باتیں بھی کرنی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اس خط کا سبب یہی ذاتی باتیں ہیں ورنہ صرف غیر ذاتی سوالات پوچھنے کے لئے مجھے Public Domain میں داخل ہونے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی۔ یہ دھیان مجھے کیوں آیا اس کی تفصیل سن لیجئے۔

ہوا یوں کہ پاکستان کی معمول کی سالانہ پانچ چھ ہفتوں کی وزٹ ختم کرکے میں 20دسمبر کو واپس امریکہ روانہ ہوا اور اس سے چند روز قبل دیرینہ یارِ غار خادم چودھری (ایڈیٹر ادارتی صفحہ روزنامہ ”پاکستان“)کی وساطت سے 16دسمبرکو لاہور پریس کلب میں میری کالموں کی کتاب ”میں بہت عظیم ہوں“ کی لانچنگ کا اہتمام ہوگیا۔میری اتنی عزت افزائی ہوئی کہ لاہور پریس کلب کے اس وقت کے صدر........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play