ایم اے کرنے پر سیّدوقار عظیم کو جو وظیفہ ریسرچ ورک کے لیے دیا گیا۔ اُنہوں نے مقالہ ”اردو کی شاعری پر مقامی اثرات“ تحریر کیا۔ اس مقالہ کے بعد گو کہ اُن کی ڈاکٹریٹ کی اجازت مل گئی مگر اُن کی والدہ اور والد کی یکے بعد دیگرے انتقال کی وجہ سے وہ اِسے جاری نہ رکھ سکے۔ سیّدوقار عظیم نے ایم اے کرنے کے بعد علی گڑھ سے بی ٹی کا امتحان بھی امتیازی حیثیت سے پاس کیا اور پھر الٰہ آباد واپس چلے آئے جہاں وہ اُردو کے اُستاد مقرر ہوئے۔ ادب میں اُن کی دلچسپی ویسے ہی قائم رہی اور وہ تصنیف و تالیف میں کارہائے نمایاں سرانجام دیتے رہے۔ 1938ء میں اُنہوں نے جامعہ ملیہ میں پڑھانا شروع کردیا۔ یہاں سیّدوقار عظیم 1938ء سے 1942ء تک رہے اور اسی دوران اُن کی شادی 27دسمبر 1938ء عابدہ بیگم سے انجام پائی۔ پانچ برس جامعہ ملیہ میں اُنہوں نے بہت سی درسی اور اچھی کتابوں کے ترجمے بھی کیے جن میں قابلِ ذکر گاندھی جی کی سوانح عمری ”تلاشِ حق“ اور جواہر لال نہرو کی آٹوبائیوگرافی Glimpse of the world history کے بعض حصوں کے ترجمے سیّدوقار عظیم کے کیے ہوئے ہیں۔

یو اے ای میں پرائیویسی کی خلاف ورزی اور راز افشا کرنے پر کڑی سزاؤں کا اعلان

1935ء میں اُن کی دو کتابیں ”افسانہ نگاری“ اور ”ہمارے افسانے“ چھپ چکی تھیں۔ 1939ء میں دہلی میں جب تک رہے آل انڈیا ریڈیودہلی سے تازہ مطبوعات پر تبصرے کرنے کا فرض بھی ادا کرتے رہے۔ 1942ء سے 1946ء تک پولی ٹیکنیک کے نام سے تعلیم و دستکاری کا ادارہ قائم ہوا تو وہاں اُستاد مقرر ہوئے۔ یہاں آپ نے 1942ء سے 1946ء تک کام کیا۔ 1946ء میں پرچہ ”آج کل“ دہلی کے مدیر ہوکر جامعہ کو الوداع کہا یہاں آپ کو پولی ٹیکنیک کی تنخواہ سے تین گنا زیادہ رقم دی گئی۔ اس سارے عرصے میں مصروفیت کے باعث سیّدوقار عظیم ادبی مصروفیات سے کنارہ کش رہے تاہم اُن کا حلقہ ئ احباب وسیع ہو گیا، مگر مدیر کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے اُنہیں بہت سے ادیبوں، شاعروں کی صحبت حاصل ہوئی جن میں پطرس بخاری، حفیظ جالندھری، فیض احمدفیض، حمیداللہ خاں، حامد علی خان، کیپٹن عبدالواحد، تاثیر، مجیدملک، چراغ حسن حسرت، ممتاز حسن، اے ڈی اظہر، کرشن چندر، منٹو، میراجی جیسی قابل شخصیات کے نام شامل ہیں۔ جن دنوں وہ ”آج کل“جریدہ کے مدیر تھے اُنہی دنوں پارٹیشن ہوئی تو اُنہوں نے ہر چیز پاکستان کے نام پر قربان کی اور نئے جذبوں کے ساتھ ہندوستان کو خیرآباد کہہ کر پاکستان چلے آئے۔

غیرقانونی پاسپورٹ اور حساس ڈیٹا کی چوری روکنے کیلئے پیکا ایکٹ نافذ

پاکستان میں اُنہوں نے پہلے پہل کراچی میں سکونت اختیار کی اور حکومت پاکستان کے جریدے ”ماہِ نو“ کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ 1950ء میں انہیں پنجاب یونیورسٹی لاہور میں شعبہئ اردو میں بطور اُستاد لینے کی پیشکش ہوئی۔ سیّدوقار عظیم 2فروری 1950ء کو لاہور پہنچے اور یوں اُنہوں نے 1950ء سے 1970ء تک کا عرصہ درس و تدریس میں گزارا۔ اُنہوں نے رسالہ ”نقوش“ کی بھی اعزازی طور پر ادارت کی سیّدوقار عظیم لکھتے ہیں کہ میرے نزدیک ادیب کا سب سے بڑا کام یہ ہے کہ خود اپنی نظر سے زندگی کا قریب سے مشاہدہ کرے خود سوچنے کی عادت ڈالے پھر اگر اس کا کوئی نظریہ ہوگا جس کی جڑیں اس کے دل و دماغ میں پیوستہ ہوں تو وہ جو ادب پیدا کرے گا وہ مفید بھی ہوگا اور مؤثر بھی۔

آسٹریلیا میں مسئلہ بیٹنگ کا نہیں، بولنگ کا ہے: اظہر علی

سیّدوقار عظیم ایک معتبر اُستاد تھے اُن کے عمیق مطالعہ کی وجہ سے اُنہیں درس و تدریس پر مکمل دسترس حاصل رہی۔ یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے نہایت قابل شاگرد پیدا کیے اور ایسے شاگردوں کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے ادب کی دنیا میں بہت نام بھی کمایا۔ سیّدوقار عظیم اپنے شاگردوں کی صرف تعلیمی معاملات میں ہی رہنمائی نہ کرتے بلکہ اُن کی پریشانیوں میں برابر کے شریک ہوتے اور جہاں اُنہیں کسی مشورے کی ضرورت ہوتی تو وہ اُن کے گھر جا کر اُن کے فیصلے کر آتے ایسے اُستاد بہت کم کم ہی نظر آتے ہیں جو اپنے شاگردوں سے اس قدر محبت اور شفقت فرماتے ہوں۔ وہ ایک وضع دار انسان تو تھے ہی مگر اُن کے مزاج میں نفاست، باتوں میں حلاوت، طبیعت میں انکساری اور نفس میں شرافت پائی جاتی تھی۔ سید وقار عظیم اُردو کے واحد نقاد ہیں جنہوں نے ساری توجہ قدیم و جدید فکشن پر صرف کی۔ وہ کم سے کم لفظوں میں اپنی بات انتہائی صفائی اور وضاحت سے کرتے تھے۔ اُنہوں نے افسانہ، داستان فکشن میں اپنا ایک منفرد انداز اپنایا اور اُردو افسانہ اور فکشن کو باوقار اور سنجیدہ صنف ادب بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ سیّدوقار عظیم کی تحریریں اُن کی شخصیت کا پرتو ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ ایک مخلص، کھرے، سچے، خوش اخلاق اور کمٹمنٹ کے انسان تھے۔ اُن کے لہجے میں اظہار کا خلوص تھا جو اُن کی پوری شخصیت کو تہذیبی شخصیت میں ڈھال دیتا تھا۔ اس تہذیبی رچاؤ اور نفاست کی وجہ سے اُنہیں نہ صرف اپنے شاگردوں بلکہ پورے ایوانِ ادب میں یکساں پذیرائی حاصل رہی اور رہے گی۔ اُنہوں نے 17نومبر 1976ء کو لاہور میں وفات پائی اُنہیں ہم سب سے بچھڑے 47 برسوں کا عرصہ گزر چکا مگر اُن کا علمی و ادبی سرمایہ آج بھی ہمارے ساتھ ہے جو آنے والی نسلوں کی بھی علم و ادب میں آبیاری کرتا رہے گا۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (منگل) کا دن کیسا رہے گا؟

QOSHE -          ممتاز علمی پروفیسر سیّدوقار عظیم         (1) - ڈاکٹر فوزیہ تبسم
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

         ممتاز علمی پروفیسر سیّدوقار عظیم         (1)

10 0
19.12.2023

ایم اے کرنے پر سیّدوقار عظیم کو جو وظیفہ ریسرچ ورک کے لیے دیا گیا۔ اُنہوں نے مقالہ ”اردو کی شاعری پر مقامی اثرات“ تحریر کیا۔ اس مقالہ کے بعد گو کہ اُن کی ڈاکٹریٹ کی اجازت مل گئی مگر اُن کی والدہ اور والد کی یکے بعد دیگرے انتقال کی وجہ سے وہ اِسے جاری نہ رکھ سکے۔ سیّدوقار عظیم نے ایم اے کرنے کے بعد علی گڑھ سے بی ٹی کا امتحان بھی امتیازی حیثیت سے پاس کیا اور پھر الٰہ آباد واپس چلے آئے جہاں وہ اُردو کے اُستاد مقرر ہوئے۔ ادب میں اُن کی دلچسپی ویسے ہی قائم رہی اور وہ تصنیف و تالیف میں کارہائے نمایاں سرانجام دیتے رہے۔ 1938ء میں اُنہوں نے جامعہ ملیہ میں پڑھانا شروع کردیا۔ یہاں سیّدوقار عظیم 1938ء سے 1942ء تک رہے اور اسی دوران اُن کی شادی 27دسمبر 1938ء عابدہ بیگم سے انجام پائی۔ پانچ برس جامعہ ملیہ میں اُنہوں نے بہت سی درسی اور اچھی کتابوں کے ترجمے بھی کیے جن میں قابلِ ذکر گاندھی جی کی سوانح عمری ”تلاشِ حق“ اور جواہر لال نہرو کی آٹوبائیوگرافی Glimpse of the world history کے بعض حصوں کے ترجمے سیّدوقار عظیم کے کیے ہوئے ہیں۔

یو اے ای میں پرائیویسی کی خلاف ورزی اور راز افشا کرنے پر کڑی سزاؤں کا اعلان

1935ء میں اُن کی دو کتابیں ”افسانہ نگاری“ اور ”ہمارے افسانے“ چھپ چکی تھیں۔ 1939ء میں........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play