طلسماتی شخصیت کے مالک تھے اور اپنے نام کی مناسبت سے عظمت کے حامل تھے۔ وہ ایک فرشتہ صفت انسان تھے۔ جن دوست احباب نے انہیں قریب سے دیکھا وہ جانتے ہیں کہ سیّدوقارعظیم کی سوچ میں ایمانداری، رواداری، وضع داری اثاثہ کے طور پر اُن کی شخصیت کا خاصہ تھیں۔ وہ باکمال اور بے مثال کردار کے حامل تھے۔ ادبی دنیا میں سیّدوقار عظیم بحیثیت انشاء پرداز، ادیب، نقاد، منتظم اور اُستاد کے طور پر جانے اور مانے جاتے ہیں۔

سیّد وقار عظیم اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں میری تاریخ پیدائش دسمبر 1910ء 1327ھ کی ہے لیکن سکول میں داخلے کے وقت جن صاحب نے میرا داخلہ کروایا انہوں نے دسمبر 1910ء کی بجائے اگست 1910ء لکھوا دی تو اس طرح اب صحیح ولادت کچھ بھی سہی لیکن دستاویزات میں 15 اگست 1910ء رہی اور اسی کو میں اب صحیح تاریخ ولادت سمجھتا ہوں۔ (”پدرم سلطان بود“ تحریر: اختروقار عظیم)

سندھ میں اربوں روپے کی سرکاری گندم چوری ہونے کا انکشاف

وقارعظیم الٰہ آباد کے اعلیٰ تعلیم یافتہ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اُن کا اصل وطن تونبیٹھ تھا جو کہ گنگو کے قریب ایک قصبہ تھا جبکہ اُن کے ننہال میرٹھ کے تھے۔ سیّدوقار عظیم کے والدِ محترم سیّدمقبول عظیم پولیس میں ملازمت کے باوجود شعر اور خاص طور پر نعت گوئی کی طرف راغب تھے۔ اُن کا تخلص ”عرش“ تھا۔ سیّدوقار عظیم کے نانا اور دو ماموں جان بھی شعر کہتے۔ وہ خوش قسمت تھے کہ اُنہیں بچپن ہی سے ادبی ماحول میسر آیا، اُن کے گھر میں اُردو فارسی کے مشہور شعراء کے دیوان کتب خانہ میں موجود تھے۔ ایسے ادبی اور تعلیمی ماحول میں اُنہوں نے تمام شعری مجموعوں سے خوب استفادہ کیا۔ سیّدوقار عظیم نے اپنے ابتدائی تعلیمی دور میں اپنی والدہ ماجدہ سے اُردو و دینیات اور کلام پاک کی تعلیم حاصل کی۔ سیّدوقار عظیم کی والدہ فارسی زبان بخوبی جانتی تھیں۔ اُنہوں نے فارسی کی پہلی کتاب بھی انہیں خود ہی پڑھائی۔ ان کے والد گو پولیس ڈیپارٹمنٹ میں تھے، مگر ان کی دوستی اپنی طبیعت کے مطابق کچھ شاعر دوستوں سے تھی وہ خود بیان یزدانی میرٹھی کے شاگرد بھی تھے۔ جعفر علی خان اثر جگت موہن، لال رواں، رضی بدایونی اور فرخ بنارسی ان کے بہت اچھے دوست اور اُس وقت کے مشہور شاعر بھی تھے۔ ان دوستوں کے علاوہ اُن کی دوستی ایک مست مجذوب دوست مادھولال مست سے بھی تھی۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (منگل) کا دن کیسا رہے گا؟

سیّدوقارعظیم صاحب کے گھر میں شعروادب کی محفلیں گرم رہتیں اور اس دوران تمام شعراء کے لیے پان یا کوئی اور چیز دینے کمرے میں آتے جاتے اور جیسے جیسے یہ بڑے ہوتے گئے اُن کے والد صاحب اُنہیں خود محفلوں میں لے جاتے۔ ان کے والدمحترم بچوں کی شخصیت کو سنوارنے اور تربیت کے لیے ایسی محفلوں کو بہت مفید سمجھتے تھے۔

سیّدوقار عظیم قلمطراز ہیں کہ اچھے شاعروں کے قریب جا کر اُن کی زندگی کے طور طریق دیکھ کر یہ خیال ہوا کہ اُن ہی کی سی زندگی بسر کرنی چاہیے شعر اس طرح سے گویا شخصیت کا ایک جزو بن گیا اور میں سمجھنے لگا کہ شعر حقیقت میں ہماری تہذیبی زندگی کی ایک خاص بنیاد ہے۔ اس سے الگ اور اس سے قطع نظر مذہب کا ایک تصور تھا جو گھر سے لیا تو مذہب اور شعر دو چیزیں ہیں جو زندگی میں ہر قدم پر ساتھ رہیں۔ سیّدوقار عظیم کو پرائمری کلاسز میں ہی فارسی اور اُردو کی تعلیم میں اُن کے اساتذہ نے ادب کا شوق پیدا کردیا تھا اور وہ شعر کہنے لگے تھے۔ اُن کا پہلا شعر جو اُنہوں نے دوست پر لکھا کچھ یوں ہے

پی ایس ایل فرنچائزکراچی کنگزنے نئے ہیڈکوچ کے نام کا اعلان کردیا

جان لیوا ہیں ناز حشمت کے

موت آتی ہے پر نہیں آتی

اسی طرح اُنہوں نے دوسرا شعر بھی اپنے دوست کی تصویر گم ہوجانے کے بعد کہا اور اُس وقت 1919ء اُن کے والد کا تبادلہ اناؤ میں ہوا تھا تو شعر ملاحظہ کیجیے:

ہوتی ہے اناؤ میں، تصویر کی چوری

اسی لیے تصویر جاناں ہم نے کھنچوائی نہیں

وہ شروع ہی سے محنتی طالبعلم تھے اور اسی وجہ سے اُنہوں نے آٹھویں جماعت سے ہی وظیفہ لینا شروع کردیا تھا اور اپنے ادبی شوق کو پورا کرنے کے لیے ہر ماہ اپنے وظیفہ سے کتابیں خریدتے اور پڑھتے۔اُنہوں نے اپنا پہلا مضمون 1929ء میں اپنے سکول کے رسالہ ”آفتاب“ میں لکھا۔ اناؤ سے میٹرک کرنے کے بعد وہ لکھنؤ میں گورنمنٹ جوبلی انٹرمیڈیٹ کالج میں داخل ہوئے۔ وہاں اُنہیں اس وقت کے مشہور اساتذہ حامد اللہ افسر، علی عباس حسینی، اختر علی تاہری اور فارسی کے مولوی محمد حسین جیسے بلند مرتبت اساتذہ سے استعفادہ کرنے کا موقع ملا۔ ان کے اساتذہ کی صحبت میں رہ کر ہی اُنہوں نے اپنا پہلا افسانہ 1930ء میں ”پریم رس“ تحریر کیا۔ اس کے علاوہ اُنہوں نے افسانہ ”جو میں ایسا جانتی“ اور کئی افسانے لکھ ڈالے جو اُس وقت کے مشہور جریدوں مثلاً ساقی، نیرنگ خیال اور عالمگیر میں شائع ہوئے، مگر 1933ء میں جب اُنہوں نے الٰہ آباد یونیورسٹی میں ایم میں داخلہ لیا تو افسانہ ترک کردیا اور تنقید کی طرف توجہ دینا شروع کردی۔ یہاں اُنہوں نے رام نرائن لال ناشر کی دوکان پر ایف اے کے فارسی نصاب کی کتاب کے انگریزی ترجمے بھی کیے۔ والدصاحب کی ملازمت سے ریٹائر ہونے کی وجہ سے اُنہوں نے اپنے تعلیمی اخراجات بھی خود ہی اُٹھائے اور انتہائی محنت اور جانفشانی کے ساتھ اپنا مقام خود بنایا اور ساتھ ساتھ مختلف ادبی محفلوں میں شرکت بھی کرتے رہے اور مشہور ادبی جریدوں میں لکھتے بھی رہے۔ 1933ء، 1934 ء میں وہ نصابی کتابوں کے علاوہ ادب اور تنقید اور تعلیم پر بھی مضامین لکھنے لگے تھے۔ اپنی تعلیم کے دوران ہی وہ بہت سے مضامین کے تراجم بھی کرتے رہے۔ 1934ء میں سیّدوقار عظیم نے ایم اے کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ آپ کے تراجم اور درسی کتابیں اُس زمانے میں انڈین پریس اور الٰہ آباد کے رام نرائن لعل نے شائع کیں۔ (جاری ہے)

2023میں گوگل پر سب سے زیادہ کس بالی ووڈ سیلبرٹی کو سرچ کیا گیا؟ جانیے

QOSHE -          ممتاز علمی پروفیسر سیّدوقار عظیم         (1) - ڈاکٹر فوزیہ تبسم
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

         ممتاز علمی پروفیسر سیّدوقار عظیم         (1)

18 0
12.12.2023

طلسماتی شخصیت کے مالک تھے اور اپنے نام کی مناسبت سے عظمت کے حامل تھے۔ وہ ایک فرشتہ صفت انسان تھے۔ جن دوست احباب نے انہیں قریب سے دیکھا وہ جانتے ہیں کہ سیّدوقارعظیم کی سوچ میں ایمانداری، رواداری، وضع داری اثاثہ کے طور پر اُن کی شخصیت کا خاصہ تھیں۔ وہ باکمال اور بے مثال کردار کے حامل تھے۔ ادبی دنیا میں سیّدوقار عظیم بحیثیت انشاء پرداز، ادیب، نقاد، منتظم اور اُستاد کے طور پر جانے اور مانے جاتے ہیں۔

سیّد وقار عظیم اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں میری تاریخ پیدائش دسمبر 1910ء 1327ھ کی ہے لیکن سکول میں داخلے کے وقت جن صاحب نے میرا داخلہ کروایا انہوں نے دسمبر 1910ء کی بجائے اگست 1910ء لکھوا دی تو اس طرح اب صحیح ولادت کچھ بھی سہی لیکن دستاویزات میں 15 اگست 1910ء رہی اور اسی کو میں اب صحیح تاریخ ولادت سمجھتا ہوں۔ (”پدرم سلطان بود“ تحریر: اختروقار عظیم)

سندھ میں اربوں روپے کی سرکاری گندم چوری ہونے کا انکشاف

وقارعظیم الٰہ آباد کے اعلیٰ تعلیم یافتہ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اُن کا اصل وطن تونبیٹھ تھا جو کہ گنگو کے قریب ایک قصبہ تھا جبکہ اُن کے ننہال میرٹھ کے تھے۔ سیّدوقار عظیم کے والدِ محترم سیّدمقبول عظیم پولیس میں ملازمت کے باوجود شعر اور خاص طور پر نعت گوئی کی طرف راغب تھے۔ اُن کا تخلص ”عرش“ تھا۔ سیّدوقار عظیم کے نانا اور دو ماموں جان بھی شعر کہتے۔ وہ خوش قسمت تھے کہ اُنہیں بچپن ہی سے ادبی ماحول میسر........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play