اسلام آباد میں بھی گلِ نشتر! اس پر مجھے حیرت ضرور ہوئی لیکن ایک خوشگوار احساس کے ساتھ ویسے بھی ساہیوال اور لاہور نے قدرت سے کیا اشٹام لکھوا رکھا ہے کہ سرخ پھولوں والا یہ درخت کسی اور شہر میں نہیں ہو سکتا۔ ہوا یوں کہ جب میں نے ایک دو روز پہلے گھر کے لاؤنج میں بڑی سکرین پر وہ ایپ کھولا جس میں سینکڑوں چینل لائیو دیکھے جا سکتے ہیں تو ان میں میری خوش قسمتی یا اتفاق سے ایک پاکستانی چینل پر میں نے یہ خوش کن منظر دیکھ لیا۔ چینل کا رپورٹر اسلام آباد کے ایک پارک میں موسم بہار میں گلِ نشتر کے درخت پر کھلے ہوئے سرخ پھولوں کا منظر دکھا رہا تھا۔ وہ وہاں موجود مختلف خواتین سے ان کا تبصرہ لے رہا تھا۔ سب کی سب ایک ہی بات کہہ رہی تھیں کہ اتنے اچھے موسم میں یہ سرخ پھول بہت اچھے لگ رہے ہیں۔ لیکن کسی نے ”گلِ نشتر“ کا لفظ استعمال نہیں کیا جو میری توقع کے عین مطابق تھا کیونکہ عام لوگوں نے ہو سکتا ہے یہ سرخ پھول دیکھے ہوں لیکن ان کا نام معروف نہیں ہے۔

اسلام آباد، ڈاکوؤں کیساتھ فائرنگ کے تبادلے میں ڈولفن اہلکار جاں بحق

گلِ نشتر کا ذکر سن کر مجھے خوشی تو ہوئی لیکن ساتھ میں کچھ شرمندگی بھی ہوئی کہ جب سے میں نے کالم نویسی شروع کی کئی عشروں پر محیط عرصے میں متعدد بار موسم بہار کے ایسے دنوں میں گلِ نشتر کے موضوع پر کالم لکھتا رہا ہوں اور اب کچھ زیادہ ہی وقفہ پڑ گیا تھا۔ یادوں کی بہت سی کھڑکیاں ایک ایک کر کے کھلتی گئیں اور یہ سلسلہ گورنمنٹ کالج ساہیوال میں جا کر رکا جہاں میں نے گلِ نشتر کو پہلی مرتبہ دیکھا تھا اور آج تک اس کے سحر میں مبتلا ہوں۔

ساہیوال ایک بہت ہی خوبصورت، پر سکون اور سرسبز شہر تھا جو شاید اب بھی ہو کہ کالج کے دنوں کے بعد پھر میرا وہاں جانا نہیں ہوا۔ لیکن اس سال گرمیوں میں معمول کے مطابق پاکستان گیا تو ساہیوال جانے کا بھی ارادہ ہے۔ اپنے عظیم الشان گورنمنٹ کالج کے علاوہ ساہیوال میڈیکل کالج کو دیکھنے کا سوچا ہے جس کی بہت تعریفیں سنی ہیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے ایک بات گورنمنٹ کالج ساہیوال کے بارے میں بتانا چاہتاہوں۔ اس کے بعد میں ایف سی کالج اور پھر پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس کے ہوسٹلوں میں رہا ہوں۔ یہ تمام پر کشش مقامات ہیں۔ گورنمنٹ کالج لاہور کی عمارت بھی بہت پر شکوہ ہے لیکن گورنمنٹ کالج ساہیوال جیسا خوبصورت کالج پاکستان کیا یہاں امریکہ میں بھی میں نے نہیں دیکھا۔ اگر یقین نہ ہو تو وزٹ کر کے دیکھ لیں۔

وزیراعظم کی سعودی ولی عہد سے ملاقات، مختلف شعبوں میں تعاون مزید بڑھانے پر اتفاق

اس کالج کے بیرونی دو گیٹوں میں سے ایک ہوسٹل کی طرف جاتا ہے جو ایک کلومیٹر کے قریب سیدھی سڑک کے آخری سرے پر واقع تھا جہاں میں رہتا تھا اور راستے میں پرنسپل اور پروفیسروں کی کوٹھیاں آتی تھیں۔ ہوسٹل میں جب بہار کا پہلا موسم آتا تو اس سڑک کے کنارے گلِ نشتر کے درختوں کی طویل قطاریں سرخ پھولوں سے بھر جاتیں۔ یہ دلفریب نظارہ بیان سے باہر ہے۔ ایف ایس سی پری میڈیکل میں باٹنی یا علم نباتات بھی ہم پڑھتے تھے لیکن اس درخت کا نام کم از کم مجھے اس وقت معلوم نہیں تھا۔ پھر ایف سی کالج لاہور میں بی ایس سی کے لئے جب نیوٹن ہال میں رہائش اختیار کی تو شام کو سیر کرتے وقت وہاں پھر اس سرخ پھولوں والے درخت سے واسطہ پڑتا رہا۔ میں نے اس درخت کے حوالے سے ”سرخ پھول“ کے نام سے ایک افسانہ لکھا جو کالج میگزین میں چھپا تھا۔ مجھے اس درخت کا نام تب بھی معلوم نہیں تھا۔ اس لئے افسانے میں بھی یہ ذکر کیا کہ اس بے ڈھنگے پتوں اور نوکیلے کانٹوں والے سرخ پھولوں والے درخت کا نام نہ معلوم ہونے کا اعتراف افسانے کے کردار نے بھی کیا۔

ججز خط کے معاملے پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت آج سپریم کورٹ ہو گی

تاہم میں اب بتا سکتا ہوں کہ گلِ نشتر نامی اس درخت کے سرخ پھول نباتات کی زبان میں ”پھول“ نہیں بلکہ ”گلداری“ (Inflorescence) ہے مطلب یہ کہ نظر آنے والا ایک پھول در اصل نشتر نما لمبے سرخ پھولوں کا کلسٹریا گچھا ہوتا ہے۔ لاہور میں ایف سی کالج کے علاوہ میں نے اسے بعد میں نیو کیمپس کی نہر کے کناروں اور ایچی سن کالج کی پچھلی سڑک پر بھی دیکھا ہے۔

گورنمنٹ کالج ساہیوال کے ہوسٹل میں فرسٹ ایئر کا پورا سال گلِ نشتر کی رفاقت میں گزرا کہ اس درخت پر لگے اور اس کے دامن میں بکھرے سرخ پھولوں سے گزر کر کلاس میں جانا ہوتا تھا۔ لیکن روز روز کا ساتھ اس وقت ٹوٹ گیا جب سیکنڈ ایئر میں میں مجبوراً شہر میں واقع مشہور میاں عبدالحق کی کوٹھی میں منتقل ہو گیا۔ میں اپنے کالم ”باجی مسعودہ کا تھپڑ“ میں ذکر کر چکا ہوں کہ جب میری ماں جیسی پھوپھی زاد بڑی بہن باجی مسعودہ اپنے گاؤں برج جیوے خاں سے اس کوٹھی میں اپنے خاوند میاں نذیر احمد کے ساتھ تقریباً ایک سال کا عرصہ گزارنے کے لئے ساہیوال آئیں تو وہ مجھے ہوسٹل سے فارغ کروا کر اس کوٹھی میں لے آئے۔ تب میں اس کوٹھی سے کالج پڑھنے تو جاتا تھا کہ لیکن گلِ نشتر والی سڑک کی طرف جانے کی فرصت نہیں ملتی تھی۔ البتہ ہم سب ویک اینڈ میں شام کے وقت اس کالج میں سیر کے لئے آتے تو گلِ نشتر والی سڑک پر بھی گھوم لیتے تھے۔ کالج کی عمارت کمال کی پرشکوہ تھی ا ور اندر اتنے خوبصورت چھوٹے چھوٹے گارڈن تھے۔ ایک زمین کی سطح سے پانچ چھ فٹ نیچے باغیچہ بنا ہوا تھا جسے (Sunken Garden) کہتے تھے جہاں اترنے کے لئے سیڑھیاں استعمال کرنی پڑتی تھیں۔

امریکا: گرفتاری سے بچنے کیلئے مطلوب ملزم کی پولیس پر فائرنگ، 3 افسران ہلاک، 5 زخمی

اس کے علاوہ ایک ”روز گارڈن“ تھا جہاں ہر رنگ کے گلاب کے پھول لگے ہوئے تھے۔ میاں نذیرا حمد اور باجی مسعودہ نچلی سطح کے باغیچے میں سیر کرتے اور میں اس دوران قینچی سے لے کر گلاب کے پھول کاٹ کر جیب میں ڈالتا رہتا اور پھر باجی گھر جا کر ان کا گلدستہ بنا لیتیں۔اگر اس وقت گلِ نشتر کا موسم ہوتا تو اس کی ٹہنیاں بھی کانٹوں سے بچ کر احتیاط سے کاٹ لیتا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ میں آج تک گلِ نشتر کی سرخ رنگ نشتر زنی اور نوکیلے کانٹوں کی چبھن کا نشانہ بن رہا ہوں۔ یہ نشتر زنی اور چبھن میرے لئے درد کی بجائے راحت کا سبب بن چکی ہے۔

معروف بالی وڈ اداکارہ تاپسی پنو نے اپنی کامیابی کی وجہ بتا دی

QOSHE -    اسلام آباد میں بھی گلِ نشتر! - اظہر زمان
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

   اسلام آباد میں بھی گلِ نشتر!

23 0
30.04.2024

اسلام آباد میں بھی گلِ نشتر! اس پر مجھے حیرت ضرور ہوئی لیکن ایک خوشگوار احساس کے ساتھ ویسے بھی ساہیوال اور لاہور نے قدرت سے کیا اشٹام لکھوا رکھا ہے کہ سرخ پھولوں والا یہ درخت کسی اور شہر میں نہیں ہو سکتا۔ ہوا یوں کہ جب میں نے ایک دو روز پہلے گھر کے لاؤنج میں بڑی سکرین پر وہ ایپ کھولا جس میں سینکڑوں چینل لائیو دیکھے جا سکتے ہیں تو ان میں میری خوش قسمتی یا اتفاق سے ایک پاکستانی چینل پر میں نے یہ خوش کن منظر دیکھ لیا۔ چینل کا رپورٹر اسلام آباد کے ایک پارک میں موسم بہار میں گلِ نشتر کے درخت پر کھلے ہوئے سرخ پھولوں کا منظر دکھا رہا تھا۔ وہ وہاں موجود مختلف خواتین سے ان کا تبصرہ لے رہا تھا۔ سب کی سب ایک ہی بات کہہ رہی تھیں کہ اتنے اچھے موسم میں یہ سرخ پھول بہت اچھے لگ رہے ہیں۔ لیکن کسی نے ”گلِ نشتر“ کا لفظ استعمال نہیں کیا جو میری توقع کے عین مطابق تھا کیونکہ عام لوگوں نے ہو سکتا ہے یہ سرخ پھول دیکھے ہوں لیکن ان کا نام معروف نہیں ہے۔

اسلام آباد، ڈاکوؤں کیساتھ فائرنگ کے تبادلے میں ڈولفن اہلکار جاں بحق

گلِ نشتر کا ذکر سن کر مجھے خوشی تو ہوئی لیکن ساتھ میں کچھ شرمندگی بھی ہوئی کہ جب سے میں نے کالم نویسی شروع کی کئی عشروں پر محیط عرصے میں متعدد بار موسم بہار کے ایسے دنوں میں گلِ نشتر کے موضوع پر کالم لکھتا رہا ہوں اور اب کچھ زیادہ ہی وقفہ پڑ گیا تھا۔ یادوں کی بہت سی کھڑکیاں ایک ایک کر کے کھلتی گئیں اور یہ سلسلہ گورنمنٹ کالج ساہیوال میں جا کر رکا جہاں میں نے........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play