اقبال شناس‘ بلند اقبال، مصوراقبال…… محمد اسلم کمال
محمد اسلم سیالکوٹ شہر کے ایک قریبی گاؤں گوہد پور میں پیدا ہوئے۔ آپ ابھی پانچ برس کے تھے کہ آپ کے والد میاں محمد شفیع (جو ایک فیکٹری میں اکاؤنٹنٹ کے عہدے پر فائز تھے) انتقال کر گئے۔ والد کے انتقال کے بعد گھر میں موجود کتابوں کی الماری ننھے اسلم کی توجہ کی خاص مرکز بن گئی، ان کی عمر کتب بینی والی تو نہ تھی لیکن کتابوں کی ورق گردانی سے انہیں خاص طرح کا سکون ملتا تھا۔ والد کی وفات کے بعد ان کے بڑے بھائی عبدالعزیز نے باپ‘ مرشد‘ دوست اور استاد بن کر اپنے چار بھائیوں اور بہن کی پرورش کی۔ گاؤں کے پرائمری سکول میں زیرتعلیم اسلم کو دوسری جماعت میں علامہ اقبال کی نظم ”ساقی نامہ“ پوری طرح یاد تھی، اپنی افتاد طبع کے سبب انہیں شروع ہی سے مصوری پسند تھی‘ وہ پہلی جماعت میں اپنے کلاس فیلوز کو چڑیاں طوطے بنا کر دیتے تھے۔ اسلم کو ان کے بھائی عبدالعزیز نے جو پہلی کتاب دی وہ حفیظ جالندھری کی بچوں کے لئے نظمیں تھیں۔ چوتھی جماعت میں عبدالعزیز نے اپنے اور اسلم کے نام کے ساتھ کمال بطور تخلص لگایا۔ پرائمری کے بعد اسلم کمال کو اقبال میموریل ہائی سکول گوہد پور‘ مراد پور داخل کرادیا گیا۔ ڈرائنگ ماسٹر اسحاق قریشی،اسلم کمال کے آئیڈیل استاد تھے۔ان کی نگرانی میں وہ آٹھویں جماعت تک علاقہ میں بطور مصور مشہور ہو چکے تھے۔ ایک بار اسلم کمال نے الحمراء آرٹس کونسل میں شام کی کلاسز جوائن کیں تو دو ماہ بعد نسیم حفیظ قاضی صاحب نے ان کا سینئر آرٹسٹوں سے تعارف کرواتے ہوئے کہا ”تم ان کے ساتھ مل کر سکیچنگ کیا کرو۔ پھر اسلم کمال سے مخاطب ہوکر کہاہم آخر تک جو سکھاتے ہیں وہ تمہیں پہلے ہی سے آتا ہے۔“دنیا میں جہاں بھی علامہ اقبالؒ اور آرٹ کا تذکرہ ہو گا وہاں اسلم کمال کا نام ضرور آئے گا۔
........© Daily Pakistan (Urdu)
visit website