آج کل فلسطین میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ برننگ ایشو ہے جس میں دونوں اطراف لابنگ کر کے اپنے اپنے حمایتیوں کی وجہ سے مضبوط ہو رہے ہیں۔اسرائیل پر ایرانی حملے نے جہاں علاقائی اورعالمی قوتوں کو ورطہ حیرت میں ڈالا ہے،وہیں غزہ کے مسلمانوں کے چہرے پر مسکراہٹ اور ان کے زخموں پر مرحم رکھنے کا کام کیا ہے اور او آئی سی کے 57 ممالک پرمشتمل عالم اسلام کو بھی حوصلہ دیا ہے اور بلا شبہ آج ہر غیر ت مند مسلمان فخر کررہا ہے کہ دفاعی صلاحیت ایران نے حاصل کی اور ضرورت پڑنے پر اس کے استعمال سے گریز نہیں کیا۔اس حملے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر چلنے والے تبصرے بھی عوام کی اس واقعہ میں دلچسپی کا اظہارہے۔ بلا شبہ اسرائیل کی سرزمین پر ایران کا جواب 1979ء کے انقلاب اسلامی کے ثمرات میں سے ہے۔ میں ایران کے اسلامی انقلاب سے پہلے کے حالات کی طرف چند جملوں میں اشارہ کرکے آگے بڑھنا چاہتا ہوں کہ اس وقت کی ایرانی ریاست یعنی رضا شاہ پہلوی کی حکومت امریکہ کی کٹھ پتلی تھی۔شاہ ایران امریکی اشاروں پر حکومت کر رہا تھا اور خطے میں امریکی سرپرستی کی بنیاد پر علاقے کا تھانیدار بنا ہوا تھا۔لیکن انقلاب اسلامی کے بعد جب نظام سیاست کی تبدیلی کی بات شروع ہوئی تو انقلاب کے بانی آیت اللہ روح اللہ خمینی رحمتہ اللہ علیہ کے بارے میں ارد گردکے ممالک میں یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا گیا کہ یہ شیعہ انقلاب ہے۔جسے خطے کے دیگر ممالک میں بھی لانے کی کوشش کی جائے گی۔لیکن حالات نے یکسر اس سوچ کو بدل دیا۔ایران امت مسلمہ کے مسائل میں ہراول دستے کے طور پر موجود ہے۔

کالج انتظامیہ کی مبینہ ہراسانی سے تنگ آکر معذور ملازمہ نے خوکشی کرلی

انقلاب اسلامی کے رونما ہوتے ہی امریکی شہہ پر عراق نے خلیجی تنازع کی آڑ میں ایران پر جنگ مسلط کر دی۔جس میں امام خمینی کی قیادت میں ایرانی عوام نے بھرپور ساتھ دیا اور جانوں کی قربانی جس انداز سے دی اس کی آج کے دور میں نظیر کہیں نہیں ملتی۔یہ جنگ عربوں کے وسائل، امریکہ کی جنگی مہارت اور اسلحہ کے زورپر آٹھ سال تک جاری رکھی گئی۔ جب سازشی اور سامراجی قوتوں کو احساس ہو گیا کہ ہم جنگ سے اپنے اہداف حاصل نہیں کر سکیں گے تو وہی سامراجی قوتیں،جو اس وقت کی صدام حکومت کی سرپرستی کر رہی تھی،انہوں نے ایک نئے انداز سے افر اتفری اور بدامنی پھیلانے کے لیے ایرانی لوگوں کو اکسایا کہ ملک کے اندر امن و امان کا مسئلہ پیدا کیا جائے۔ ایرانی پارلیمنٹ کو دھماکے سے اڑا دیا گیا۔چیف جسٹس آیت اللہ محمد بہشتی کی شہادت کے تقریباً دو ماہ بعد ہی بریف کیس بم دھماکے میں صدر ممکت محمد علی رجائی اوروزیراعظم محمدجوادباہنر شہید کر دیے گئے۔ انقلاب مخالف قوتوں نے سامراجی ایجنٹوں کے ذریعے آج تک تخریب کاری اور بدامنی کے اس مذموم مشن کو جاری رکھا ہوا ہے۔

’فی الحال بیان نہیں دے سکتے‘، وائٹ ہاؤس کا ایران پرتازہ اسرائیلی حملے پر تبصرے سے گریز

انقلا ب اسلامی کی کامیابی کے بعدامام خمینی کی ایران میں آمد کے ساتھ ہی ماہ مقدس رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو عالمی یوم القدس منانے کے لیے مسلمانوں سے اپیل کی گئی جو آج تک مختلف ممالک میں عوامی سطح پر بھرپور طریقے سے جاری ہے لیکن حکومتی سطح پراس کا اظہار نہیں ہو سکا۔میں بلا خوف تردید یہ کہنا چاہتا ہوں کہ قدس کی آزادی کو ایرانی عوام نے عقیدے کے طور پر نظریہ بنا یا کہ قبلہ اول بیت المقدس کو صہیونی ریاست کے ہاتھوں سے آزاد کروانا ہے۔ فلسطین کی مزاحمتی تحریک حماس کے نوجوانوں نے 7۔اکتوبر 2023ء کو طوفان الاقصیٰ کے نام سے آپریشن کے ذریعے اسرائیل میں گھس کر اسرائیلی افسروں کو یرغمال بنایا اور کچھ کو قتل بھی کیا۔ اسرائیل کے لیے دنیا بھر میں یہ ہزیمت کا بالکل انوکھا انداز تھا جو حماس کی قیادت نے خفیہ حکمت عملی سے اختیار کیا۔ جواب میں اسرائیلی صیہونی ریاست نے حماس کے علاقوں کو فتح کرنے کے لیے اتنی بمباری کی اور اسلحہ استعمال کیا ہے کہ یہاں کوئی عمارت، گھر، ہسپتال،سکول محفوظ نہیں رہا اور اب تک33 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور 70 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ ایران نے صرف یوم القدس منایا ہی نہیں، القدس بریگیڈ بنا کر اس کی آزادی کی باقاعدہ تیار ی بھی کی۔ حماس غزہ کے اندرقابض اسرائیلی ریاست کے مظالم کا مقابلہ کررہی ہے تو لبنان سے حزب اللہ اسرائیل پر تابڑ توڑ حملے اور شام سے جولان کی پہاڑیوں پر بھی حملے ہوتے رہے ہیں۔جبکہ عراق کی المقاموۃ الاسلامیہ نے بھی اس جنگ میں بھرپور حصہ ڈالا۔ لیکن سب سے زیادہ قابل تعریف یمن کے حوثی نوجوانوں کی تنظیم ©”انصار اللہ“ ہے، جس کی بحیرہ احمر میں فاتحانہ کارروائیوں سے امریکہ برطانیہ یورپ اورنیٹو ممالک اتنے بوکھلا گئے ہیں کہ انہوں نے اپنے جہاز یمن کی حدود سے دور کر لئے ہیں۔جوابی طورپر برطانیہ امریکہ اوراتحادی ممالک نے یمن پر حملے کیے لیکن حوثی قیادت بڑی جراتمندی کے ساتھ ان کا مقابلہ اور جوابی حملے بھی کرتی رہی ہے۔

پاکستان کو بیلسٹک میزائلوں کے آلات فراہم کرنے کے الزام میں 4 کمپنیوں پر امریکی پابندیاں لگ گئیں

غزہ کی جنگ کے دوران ہی نجانے کیسے یکم اپریل کو نیتن یاہو کو ایران پر ڈائریکٹ حملہ کرنے کی ترکیب سوجھی اور دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر حملہ کر دیا جس میں القدس بریگیڈ کے اہم عسکری رہنما شہید ہوئے۔یہ مسلمہ بین الاقوامی قانون ہے کہ کسی ملک کے سفارت خانے کو نقصان نہیں پہنچایا جاتا۔ اس بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کے باوجود اسرائیل کی حمایتی قوتوں کے منہ سے ایک جملہ بھی اسرائیلی جارحیت کی مذمت میں نہیں نکلا۔ اس جارحیت کا رد عمل یقیناً ایران کو ہر حالت میں کرنا ہی تھا اور اس نے مکمل تیاری کے ساتھ 14 اپریل کو 300 ڈرونز کے ساتھ اسرائیل پر حملہ کردیا۔ ہمارے نقطہ نظر سے اسے کامیاب حملہ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ یہ اسرائیلی حدود کے اندر جا کر کیا گیاہے اور اس سے بہت سی دفاعی تنصیبات اور اسرائیلی معیشت کو نقصان پہنچا،لیکن ایک بات میں ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ جنگوں کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں کمزور بیمار لوگوں شفا خانوں تعلیمی اداروں پر کوئی حملہ نہیں کیا جاتا۔یہ بھی اصول ہے کہ جہاں سول آبادی کے متاثر ہونے کا خدشہ ہوتو پہلے سے اعلان کر دیا جاتا ہے کہ ہم اس ملک میں حملہ کریں گے۔ اس جگہ کا وقت اور تعین بھی کر دیا جاتا ہے۔ ایران کی اسلامی حکومت نے اسرائیل پر حملے سے پہلے اپنے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ اسرائیل کے اتحادی ممالک

ایران ، اسرائیل کشیدگی اور کئی سوالات

ًامریکہ برطانیہ کو بھی آگاہ کر دیاتھا کہ ہم حملہ کریں گے تو انہوں نے اپنے باشندوں کو جو اسرائیل میں رہ رہے تھے محفوظ مقامات پر پہنچا دیا، جس کی وجہ سے ایران نے اسرائیل کو حماس کی آبادی کی طرح کھنڈر کیا اورنہ ہی ہسپتالوں سکولوں مارکیٹوں دکانوں پر حملے کیے، ہاں دفاعی تنصیبات پر حملے کیے جو ایرانی دعوے کے مطابق 50 فیصد تک کامیاب رہے۔ ایران اسرائیل کشیدگی پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں بھی اسرائیل کو ہزیمت ہی اٹھانا پڑی ہے۔ جبکہ اب امریکہ سمیت صیہونی ریاست کے تمام سرپرست اسے دوبارہ ایران پر حملہ نہ کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔

اصفہان کی سیٹلائٹ تصاویر سے نقصان واضح نہیں: امریکہ

میں عالمی برادری سے اپیل کرنا چاہتا ہوں کہ اسرائیل اور اس کی حواری سامراجی قوتیں ہوش کے ناخن لیں۔ ایران کے رد عمل کے جواب میں مزید کوئی کارروائی نہ کریں۔اگر پہلے والی حماقت دہرائی گئی تو اس کا ازالہ اور نقصان ناقابل برداشت ہو سکتا ہے۔

QOSHE -   اسرائیل پرایرانی حملے کے اثرات - سید منیر حسین گیلانی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

  اسرائیل پرایرانی حملے کے اثرات

24 0
20.04.2024

آج کل فلسطین میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ برننگ ایشو ہے جس میں دونوں اطراف لابنگ کر کے اپنے اپنے حمایتیوں کی وجہ سے مضبوط ہو رہے ہیں۔اسرائیل پر ایرانی حملے نے جہاں علاقائی اورعالمی قوتوں کو ورطہ حیرت میں ڈالا ہے،وہیں غزہ کے مسلمانوں کے چہرے پر مسکراہٹ اور ان کے زخموں پر مرحم رکھنے کا کام کیا ہے اور او آئی سی کے 57 ممالک پرمشتمل عالم اسلام کو بھی حوصلہ دیا ہے اور بلا شبہ آج ہر غیر ت مند مسلمان فخر کررہا ہے کہ دفاعی صلاحیت ایران نے حاصل کی اور ضرورت پڑنے پر اس کے استعمال سے گریز نہیں کیا۔اس حملے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر چلنے والے تبصرے بھی عوام کی اس واقعہ میں دلچسپی کا اظہارہے۔ بلا شبہ اسرائیل کی سرزمین پر ایران کا جواب 1979ء کے انقلاب اسلامی کے ثمرات میں سے ہے۔ میں ایران کے اسلامی انقلاب سے پہلے کے حالات کی طرف چند جملوں میں اشارہ کرکے آگے بڑھنا چاہتا ہوں کہ اس وقت کی ایرانی ریاست یعنی رضا شاہ پہلوی کی حکومت امریکہ کی کٹھ پتلی تھی۔شاہ ایران امریکی اشاروں پر حکومت کر رہا تھا اور خطے میں امریکی سرپرستی کی بنیاد پر علاقے کا تھانیدار بنا ہوا تھا۔لیکن انقلاب اسلامی کے بعد جب نظام سیاست کی تبدیلی کی بات شروع ہوئی تو انقلاب کے بانی آیت اللہ روح اللہ خمینی رحمتہ اللہ علیہ کے بارے میں ارد گردکے ممالک میں یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا گیا کہ یہ شیعہ انقلاب ہے۔جسے خطے کے دیگر ممالک میں بھی لانے کی کوشش کی جائے گی۔لیکن حالات نے یکسر اس سوچ کو بدل دیا۔ایران امت مسلمہ کے مسائل میں ہراول دستے کے طور پر موجود ہے۔

کالج انتظامیہ کی مبینہ ہراسانی سے تنگ آکر معذور ملازمہ نے خوکشی کرلی

انقلاب اسلامی کے رونما ہوتے ہی امریکی شہہ پر عراق نے خلیجی تنازع کی آڑ میں ایران پر جنگ مسلط کر دی۔جس میں امام خمینی کی قیادت میں ایرانی عوام نے بھرپور........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play