خلیفہ ہارون الرشید کے مصاحب ابو نواس نے ایک روز کہہ دیا ”کوئی غلطی یا گناہ سرزد ہو جائے تو ”عذر“ نہیں پیش کرنا چاہئے، معافی مانگ لیں یا خاموشی اختیار کر یں“۔

خلیفہ نے پوچھا، عذر کیوں نہ پیش کریں؟

ابو نواس نے عرض کیا ”العذر اقبح من الذنب“

”عذر گناہ بدتر از گناہ است“ (یعنی گناہ کا عذر پیش کرنا بعض اوقات گناہ سے بھی بدتر ہوتا ہے)

خلیفہ ہارون الرشید نے کہا ”اپنی بات ثابت کرو، ورنہ سزا کے لئے تیار رہنا“ ابو نواس نے خلیفہ کا فرمان سنا اور سر جھکا لیا، جھکے سر کے ساتھ عرض کیا ”امیر المومنین! کل تک کی مہلت، عنایت فرما دیجئے، عملی طور پر حکم کی تعمیل کر گزروں گا“۔

پاکستان کو بیلسٹک میزائلوں کے آلات فراہم کرنے کے الزام میں 4 کمپنیوں پر امریکی پابندیاں لگ گئیں

مہلت مل گئی ا ور جانے کی اجازت بھی، ابو نواس اِسی عالم میں سر جھکائے، مگر ہونٹوں پر مدھم مدھم مسکراہٹ سجائے، پچھلے قدموں چلتا ہوا رخصت ہو گیا۔

خلیفہ ہارون الرشید کی عادت تھی نمازِ فجر سے قبل بیدار ہوتا اور خلافت محل سے ملحقہ باغ میں چہل قدمی کرتا۔ حسب ِ معمول خلیفہ باغ میں چہل قدمی کر رہا تھا۔ صبح سویر کا وقت ہونے کے باعث ابھی قدرے اندھیرا تھا،ساتھ میں گھنٹے درختوں کے باعث بھی مل جگی سی چھائی تھی، تھوڑے فاصلے تک بھی صاف دیکھنا دشوار سا تھا خلیفہ چہل قدمی کرتے کرتے ایک بڑے پیڑ کے پاس سے گزرنے لگا تو اچانک ایک شخص نے خلیفہ کو بانہوں میں سمیٹ لیا اور اپنے سینے کے ساتھ بھینچنے لگا۔ خلیفہ، اس افتاد پر حیران و ششدر رہ گیا، غور سے دیکھا تو وہ کوئی اور نہیں، ابونواس تھا۔ غصے سے پوچھا ”یہ کیا حرکت تھی؟

ایران ، اسرائیل کشیدگی اور کئی سوالات

تمہیں جرأت کیسے ہوئی کہ ہمیں اِس طرح اپنی گرفت میں لو۔۔۔؟“

ابو نواس نے سر جھکا لیا اور کہا ”امیر المومنین! معاف کیجئے گا، مَیں آپ کو پہچان نہیں پایا، مَیں نے خیال کیا، ملکہ عالیہ چہل قدمی فرما رہی ہیں۔۔۔“ خلیفہ نے ابو نواس کی بات سْنی تو غیرت سے آگ بگولہ ہو گیا، معاملہ خلیفہ کے ادب و احترام سے کہیں بڑھ کر ”غیرت خلافت“ تک جا پہنچا تھا، بات صرف خلیفہ کو بے تکلفانہ بانہوں میں سمیٹنے اور سینے سے لگانے تک نہ رہی تھی،”ملکہ عالیہ“ کے بارے میں بْرے ارادے کے واضحانہ اظہار اور بدخواہشی تک پہنچ گئی تھی۔ خلیفہ ہارون الرشید نے غصے سے لال ہوتے ہوئے اور زیادہ جلالی لہجے میں پوچھا: ”کیا بکواس کر رہے ہو۔۔۔؟

اصفہان کی سیٹلائٹ تصاویر سے نقصان واضح نہیں: امریکہ

ابونواس نے پْرسکون انداز میں سر جھکائے جھکائے، عرض کیا ”حضور! ناراض نہ ہوں، مَیں نے ثابت کر دیا ہے کہ

”عذر گناہ بد تر از گناہ است“

اسی طرح کا ایک ”حوالہ“، بہت پہلے، صاحب ِ طرز اور معروف کالم نگار جنابِ عطاء الحق قاسمی نے بھی اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ ”ایک صاحب کو غسل کرتے ہوئے محسوس ہوا کہ کوئی غسل خانے میں جھانک رہا ہے،اْس نے فوراً دروازہ کھولا تو دیکھا، ان کا گھریلو ملازم تھا،اْسے مارا پیٹا اور پوچھا، یہ کیا حرکت تھی، کہ مجھے نہاتے ہوئے، یوں دیکھ رہے تھے۔۔۔؟

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (ہفتے) کا دن کیسا رہے گا؟

اْس نے کپکپاتے ہوئے،”عذر“ پیش کیا،

”صاحب! معاف کر دیں،مَیں نے سمجھا بیگم صاحب نہا رہی ہیں“۔

”عذر گناہ“ کے بدتر ہونے کے یہ واقعات مجھے یوں یاد آئے کہ ایک پارٹی نے ایک ایسے لیڈر کو اپنا صدارتی امید وار بنا لیا کہ جس پر ان کے مہا لیڈر پھبتیاں کسا کرتے، دوپٹہ اوڑھ کر نقلیں اتارا اور غیر محب وطن قرار دیا کرتے تھے، کسی نے پارٹی رہنماؤں سے پوچھا، ”آپ لوگوں کو یہی امیدوار ملے تھے، آپ کی پارٹی میں کوئی اور نہیں تو جواب دیا یہ بڑے محب وطن اور بااصول لیڈر ہیں، اس وقت انہی جیسے لیڈروں کی ضرورت ہے“۔

مانیٹری پالیسی اجلاس: 8 ممبران نے شرح سود برقرار رکھنے کیلئے ووٹ دیدیا

صدارتی الیکشن کو قبول بھی نہ کیا، ووٹ بھی ڈالے،ووٹوں کے حصول کی خاطر،سخت ترین مخالفوں کے پاس بھی گئے، جب شکست ملی تو رزلٹ مسترد کر دیا جبکہ جس کو امیدوار بنایا تھا انہوں نے کھلے دِل اور کھلے الفاظ میں شکست بھی قبول کی اور صدارتی الیکشن کی تعریف بھی کر دی۔ اس کے بعد مذکورہ پارٹی والے مخالفانہ توجیہات پیش کرتے اور عجب عجب فلسفے بیان کرتے رہے ہیں اور اب حکومت مخالف تحریک چلانے کے لئے انہی سیاستدان کو اپوزیشن الائنس کا چیئرمین بھی بنا لیا ہے۔ ایک بزرگ فرمانے لگے ”رب نہ ڈانگیں لڑ دا، پٹھی دیندا مت“

تالاب میں ڈوب کر 2 بچے جاں بحق

ان کا فرمانا، پنجابی کے مشہور محاورے ہی کی ایک الگ شکل ہے کہ ”رب لٹھ نئیں مار دا، مت مار دا اے“۔

کہہ مکرنیوں اور ”عذرِ گناہ“ کی تازہ ترین مثال، اس پارٹی کے بنائے اپوزیشن اتحاد کے لئے احتجاجی جلسہ (پشین) میں کی گئی، پارٹی رہنما افضل مروت کی تقریر کی صورت سامنے آئی ہے۔ جناب مروت، اس وقت اپنی پارٹی کے ”مقبول تر“ لیڈر سمجھے جاتے ہیں اور یہ مقبولیت ”وڑجانے“ اور ”تْن کے رکھ“ جیسے غلیظ اور فحش کلمات کی ”پارٹی پسندیدگی“ کے باعث ہے۔ انہوں نے پشین کے جلسہ میں مولانا فضل الرحمٰن کے بارے میں اپنے پارٹی سربراہ کے طعنہ ”ڈیزل“ کے لقب کو نئے سرے سے رواج دینے کی ”ناروا“ کوشش کر ڈالی ہے۔ ملکی انتخابات کے بعد پارٹی کے اعلیٰ سطحی وفد نے مولانا کے حضور حاضر ہو کر پہلے رویہ کی ”عملی و لفظی“ معذرت کی اور آئندہ ”زیر قیادت“ چلنے کا عندیہ دیا تھا، پھر بھی پشین جلسہ میں پارٹی رہنما افضل مروت کی تقریر کے دوران ”ڈیزل ڈیزل“ کے پُر زور نعرے لگنے لگے، جس پر افضل مروت صاحب نے خاص انداز میں مسکراتے ہوئے کہا ”ڈیزل کے نعرے نہ لگاؤ، ہماری اْن سے بات چل رہی ہے…… …… (یعنی روکنے سے پہلے خود بھی ناروا لقب دھرا دیا اور بات نہ ماننے پر ناروا لقب کی تشہیر و اشاعت کا عندیہ بھی دے دیا۔)

ہائے……! کیا سادگی ہے؟ کیا عذرِ گناہ ہے؟ کیا ممانعت ہے؟ اور کیا اندازِ ممانعت ہے؟

QOSHE - تمہی کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے؟ - رانا شفیق پسروری
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

تمہی کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے؟

11 0
20.04.2024

خلیفہ ہارون الرشید کے مصاحب ابو نواس نے ایک روز کہہ دیا ”کوئی غلطی یا گناہ سرزد ہو جائے تو ”عذر“ نہیں پیش کرنا چاہئے، معافی مانگ لیں یا خاموشی اختیار کر یں“۔

خلیفہ نے پوچھا، عذر کیوں نہ پیش کریں؟

ابو نواس نے عرض کیا ”العذر اقبح من الذنب“

”عذر گناہ بدتر از گناہ است“ (یعنی گناہ کا عذر پیش کرنا بعض اوقات گناہ سے بھی بدتر ہوتا ہے)

خلیفہ ہارون الرشید نے کہا ”اپنی بات ثابت کرو، ورنہ سزا کے لئے تیار رہنا“ ابو نواس نے خلیفہ کا فرمان سنا اور سر جھکا لیا، جھکے سر کے ساتھ عرض کیا ”امیر المومنین! کل تک کی مہلت، عنایت فرما دیجئے، عملی طور پر حکم کی تعمیل کر گزروں گا“۔

پاکستان کو بیلسٹک میزائلوں کے آلات فراہم کرنے کے الزام میں 4 کمپنیوں پر امریکی پابندیاں لگ گئیں

مہلت مل گئی ا ور جانے کی اجازت بھی، ابو نواس اِسی عالم میں سر جھکائے، مگر ہونٹوں پر مدھم مدھم مسکراہٹ سجائے، پچھلے قدموں چلتا ہوا رخصت ہو گیا۔

خلیفہ ہارون الرشید کی عادت تھی نمازِ فجر سے قبل بیدار ہوتا اور خلافت محل سے ملحقہ باغ میں چہل قدمی کرتا۔ حسب ِ معمول خلیفہ باغ میں چہل قدمی کر رہا تھا۔ صبح سویر کا وقت ہونے کے باعث ابھی قدرے اندھیرا تھا،ساتھ میں گھنٹے درختوں کے باعث بھی مل جگی سی چھائی تھی، تھوڑے فاصلے تک بھی صاف دیکھنا دشوار سا تھا خلیفہ چہل قدمی کرتے کرتے ایک بڑے پیڑ کے پاس سے گزرنے لگا تو اچانک ایک شخص نے خلیفہ کو بانہوں میں سمیٹ لیا........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play