بہاول نگر میں پیش آنے والا واقعہ کسی بھی لحاظ سے خوش گوار نہیں تھا۔ یقین مانیں اس پر بات کرنے کو بھی جی نہیں چاہ رہا کہ یہ ہمارے ہی ملک کے دو اداروں کا معاملہ ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں شاید کوئی بھی ادارہ ایسا نہیں جو اپنے آئینی اور قانونی پیرامیٹرز کے اندر رہ کر کام کر رہا ہو۔ ان اداروں میں کام کرنے والے افراد کی بھی یہی صورت حال ہے۔ آج شکوہ تو کیا جا رہا ہے کہ پولیس والوں کے ساتھ زیادتی ہوئی لیکن کوئی بتائے گا کہ پولیس والوں کا عام آدمی کے ساتھ رویہ اور طرز عمل کیا ہے؟ یہاں تک سننے میں آتا ہے کہ لوگ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو برداشت کر جاتے ہیں‘ لیکن پولیس کے پاس نہیں جاتے کہ انہیں رہی سہی ساکھ اور باقی ماندہ جمع پونجی سے بھی محروم ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ میں اس معاملے پر زیادہ بات نہیں کرتا صرف ایک سوال کا جواب دے دیں کہ اگر فوج مداخلت نہ کرتی تو پولیس والوں نے مذکورہ فیملی کے ساتھ کیا کچھ نہیں کر دینا تھا؟ ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ جس کسی کے ہاتھ میں بھی کچھ اختیارات آ جاتے ہیں وہ ان کو جائز و ناجائز ہر طرح سے استعمال کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا۔ ہمارا پولیس کا محکمہ اگر کرپشن کے حوالے سے پہلے نمبر پر آتا ہے تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔

وکیل کی غلطی کی وجہ سے ایک جوڑے کی غلطی سے طلاق ہو گئی

اس موضوع پر بس اتنا ہی اب آئیے بات کرتے ہیں بہار کے موسم کی جو اس وقت جوبن پر ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب ہر طرف ہریالی نظر آتی ہے اور پھول کھلتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا‘ بہار کا موسم بڑا خوش گوار‘ بڑا اطمینان بخش‘ بڑا خوب صورت‘ بڑا دل آویز اور جسم و روح کو سکون دینے والا ہوا کرتا تھا‘ لیکن اب نہ جانے کیا ہو گیا ہے کہ کہیں بھی کوئی اطمینان‘ کوئی سکون نظر نہیں آتا۔ ہر طرف نفسا نفسی ہے ہر طرف کچھ نہ کچھ حاصل کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ کچھ لوگ نوکریاں کرتے ہیں‘ کچھ کماتے ہیں‘جو کما نہیں سکتے وہ جرائم کا سہارا لیتے ہیں اور دوسروں سے ان کی جمع پونجی چھین لے جاتے ہیں۔ کراچی والوں کا تو اس حوالے سے بہت ہی بُرا حال ہے کہ وہاں روزانہ سٹریٹ کرائمز میں لوگ لٹتے ہیں‘ اور اگر لٹنے سے مزاحمت کرتے ہیں تو پھر مارے جاتے ہیں۔

پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان ٹی ٹوئنٹی سیریز کے کمنٹری پینل کے نام سامنے آگئے

لاہور اور دوسرے شہروں کی حالت بھی مختلف نہیں ہے۔ مسائل ہیں‘ مہنگائی ہے‘ بے روزگاری ہے‘ توانائی کے ذرائع کی کمی ہے جس کے اثرات عوام کی زندگیوں پر مرتب ہو رہے ہیں۔ حکومت پنجاب کی طرف سے روٹی سولہ روپے کی کر دی گئی ہے لیکن کوئی باہر نکل کر یہ بھی تو دیکھے کہ تنوروں پر روٹی واقعی 16 روپے کی کہیں مل رہی ہے یا نہیں۔ گزشتہ روز سابق وزیراعظم نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز اپنی رہائش گاہ کے قریب ایک تنور پر گئے تاکہ پتا چلا سکیں کہ روٹی حکومت کے حکم کے مطابق واقعی 16 روپے میں مل رہی یا نہیں۔ یہ ایک اچھی کوشش تھی لیکن یہ صرف ایک کوشش تھی۔ ایسی کوشش ہر سطح پر نظر آنی چاہیے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کو اپنی پوری ٹیم کو متحرک کرنا چاہیے کہ وہ اسی طرح مارکیٹوں کا جائزہ لیتی رہے۔ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ صاحب بہادر اپنے سجے سجائے‘ ایئر کنڈیشنڈ دفتروں میں بیٹھ جائیں اور اس بات کا انتظار کریں کہ انہیں کہیں سے کوئی شکایت موصول ہو تو وہ اس کے ازالے کے لیے کچھ تھوڑا بہت ہاتھ پیر ہلائیں۔ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے تو باہر نکلنا پڑے گا‘ بازاروں میں پھرنا پڑے گا۔ یہ دیکھنا پڑے گا کہ کون سی چیزیں کون سے بھاؤ لوگوں کو فروخت کی جا رہی ہیں۔

اقراء عزیز کے پھر سے ماں بننے کی افواہوں پر یاسر حسین پھٹ پڑے، بیان سامنے آگیا

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے برسر اقتدار آتے ہی مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے کوئی ٹیم بنانے کی بات کی تھی‘ اس کا کیا بنا؟ شاید کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ کہا یہ جاتا ہے کہ مہنگائی کی وجہ بین الاقوامی سطح پر پھیلنے والا مالی بحران اور افراط زر ہے۔ چلیں جو چیزیں باہر سے آتی ہیں ان کے بارے میں تو مان لیا جائے کہ ان کی قیمتیں زیادہ ہو سکتی ہیں‘ لیکن جو چیزیں یہاں پر اس ملک میں پیدا ہو رہی ہیں‘ ان کی مہنگائی کے پیچھے کیا وجوہات ہیں؟ کیوں ایک عرصہ سے لوگ 100 روپے والی چیز 130 روپے میں خرید رہے ہیں۔ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کی باتیں مریم نواز صاحبہ سے پہلے کے حکمران بھی کرتے رہے ہیں‘ لیکن انہوں نے عملی طور پر کچھ بھی نہیں کیا‘ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مہنگائی کا گھوڑا بے لگام ہوتا جا رہا ہے۔ مریم نواز اگر خود کو دوسروں سے مختلف اور کامیاب حکمران ثابت کرنا چاہتی ہیں تو انہیں سب سے پہلے مہنگائی کو کنٹرول کرنے پر توجہ دینا ہو گی‘ لیکن مہنگائی کیسے کنٹرول ہو جبکہ ان عوامل پر ہی قابو نہ پایا جائے جن کی وجہ سے چیزوں کی قیمتیں بڑھتی ہیں۔

قرض کیلئے ایک خاتون اپنے ”مردہ انکل“ کی لاش سمیت بینک پہنچ گئی

اپنے کالموں میں یہ بات کئی بار دہرا چکا ہوں کہ گیس‘ بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہر اضافہ ان اشیا کی پیداواری لاگت میں اضافے کا باعث بنتا ہے‘ جن کی تیاری یا ترسیل کے کسی بھی مرحلے میں توانائی کے ان ذرائع کا استعمال ہوتا ہے‘ یعنی آپ صرف ایک چیز پٹرول کی قیمت بڑھا دیں تو کرائے بھی بڑھ جائیں گے‘ عام آدمی‘ جس کے پاس نجی ٹرانسپورٹ ہے‘ کے اخراجات بھی بڑھ جائیں گے‘ ایک فیکٹری میں اگر برتن تیار ہوتے ہیں تو ان برتنوں کی قیمتیں بڑھ جائیں گی‘ سبزیوں اور پھلوں کی قیمتیں بڑھ جائیں گی کیونکہ کھیتوں سے منڈیوں اور منڈیوں سے دکانوں تک اجناس‘ سبزیوں اور پھلوں کی ترسیل کے لیے بہرحال پٹرولیم مصنوعات سے چلنے گاڑیاں استعمال ہوتی ہیں۔ بجلی کی قیمت بڑھائی جائے گی تو کارخانے اور فیکٹریاں اپنی چیزوں کی قیمتیں بڑھا دیں گے کیونکہ ان چیزوں کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہو چکا ہو گا۔ اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہونے کے باوجود گزشتہ رات حکومت نے ایک بار پھر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے‘ یعنی عوام کے کندھوں پر مہنگائی کی بوجھ کو بڑھا دیا ہے۔ میرے خیال میں ڈائریکٹ ٹیکس لگا کر ریونیو اکٹھا کرنا کوئی کمال نہیں ہے۔ اس کے بجائے اگر مختلف شعبوں کی پیداوار میں اضافہ کیا جائے اور پیداوار پر ٹیکس لگایا جائے تو ترقی کہ رفتار بڑھ سکتی ہے۔ لیکن ایسا نہیں کیا جاتا۔ براہ راست ٹیکسوں پر ہی زور دیا جا رہا ہے اور جب تک یہ زور دیا جاتا رہے گا‘ ظاہر ہے عوام کے ہاتھ میں کچھ نہیں آنے والا۔ انہیں 100 روپے والی چیز 130 روپے کی خریدنا ہی پڑے گی۔ ذکر بہار کا ہو رہا تھا‘ بات کہیں اور چلی گئی۔ چلیں بہار کی رنگینیوں پر پھر کبھی بات کر لیں گے۔

پشاور پریس کلب نے خیبرپختونخوا حکومت کی تقریبات کی کوریج کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا

QOSHE - مہنگائی میں ایک اور اضافہ - محمد معاذ قریشی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

مہنگائی میں ایک اور اضافہ

18 0
18.04.2024

بہاول نگر میں پیش آنے والا واقعہ کسی بھی لحاظ سے خوش گوار نہیں تھا۔ یقین مانیں اس پر بات کرنے کو بھی جی نہیں چاہ رہا کہ یہ ہمارے ہی ملک کے دو اداروں کا معاملہ ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں شاید کوئی بھی ادارہ ایسا نہیں جو اپنے آئینی اور قانونی پیرامیٹرز کے اندر رہ کر کام کر رہا ہو۔ ان اداروں میں کام کرنے والے افراد کی بھی یہی صورت حال ہے۔ آج شکوہ تو کیا جا رہا ہے کہ پولیس والوں کے ساتھ زیادتی ہوئی لیکن کوئی بتائے گا کہ پولیس والوں کا عام آدمی کے ساتھ رویہ اور طرز عمل کیا ہے؟ یہاں تک سننے میں آتا ہے کہ لوگ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو برداشت کر جاتے ہیں‘ لیکن پولیس کے پاس نہیں جاتے کہ انہیں رہی سہی ساکھ اور باقی ماندہ جمع پونجی سے بھی محروم ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ میں اس معاملے پر زیادہ بات نہیں کرتا صرف ایک سوال کا جواب دے دیں کہ اگر فوج مداخلت نہ کرتی تو پولیس والوں نے مذکورہ فیملی کے ساتھ کیا کچھ نہیں کر دینا تھا؟ ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ جس کسی کے ہاتھ میں بھی کچھ اختیارات آ جاتے ہیں وہ ان کو جائز و ناجائز ہر طرح سے استعمال کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا۔ ہمارا پولیس کا محکمہ اگر کرپشن کے حوالے سے پہلے نمبر پر آتا ہے تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔

وکیل کی غلطی کی وجہ سے ایک جوڑے کی غلطی سے طلاق ہو گئی

اس موضوع پر بس اتنا ہی اب آئیے بات کرتے ہیں بہار کے موسم کی جو اس وقت جوبن پر ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب ہر طرف ہریالی نظر آتی ہے اور پھول کھلتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا‘ بہار کا موسم بڑا خوش گوار‘ بڑا اطمینان بخش‘ بڑا خوب صورت‘ بڑا دل آویز اور جسم و روح کو سکون دینے والا ہوا کرتا........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play