آج پنجاب میں حکومتی رٹ برقرار بلکہ بحال کرنے کے لئے حکومت کو جو دو سب سے اہم مسائل درپیش ہیں،ان میں سے پہلاسولہ روپے کی روٹی بیچنے کے اعلان پر عمل کرانا اور دوسرا امن و امان کی بحالی اور بہتری ہے،مہنگائی اور لا اینڈ آرڈر،ایسے مسائل ہیں جو گڈ گورننس کی بہتری میں سب سے زیادہ رکاوٹ ہیں۔ بہاولنگر واقعہ کے بعد، کیا وقت نہیں آ گیا ہے کہ حکومت کو اس کا وقتی حل نکالنے کی بجائے مجسٹریسی کی بحالی جیسے آزمودہ حل کی جانب جانا چاہئے،انسانی معاشروں میں بنائے گئے قواعد و ضوابط کو وقت اور حالات کے مطابق بدلنا ضروری ہو تو اس میں دیر نہیں کرنا چاہئے،پولیس آرڈر دو ہزار دو میں اگر ترمیم کی ضرورت ہے اور اگر مجسٹریسی ماضی میں مہنگائی اور امن و امان کے لئے اچھا کام کر رہی تھی تو اس کی بحالی میں کیا قباحت ہے؟

وکیل کی غلطی کی وجہ سے ایک جوڑے کی غلطی سے طلاق ہو گئی

ایک با اختیار مجسٹریسی نظام کی غیر فعالیت کی وجہ سے آج ذخیرہ اندوزوں، تجاوزات اور مہنگائی مافیا کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے اورانتظامیہ بھی امن وامان کے قیام اورپرائس کنٹرول کے علاوہ اشیاء صرف کی بلا تعطل فراہمی میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے، انگریزدور میں ہندوستان کے طول و ارض پر انتظامی کنٹرول کے لئے ایسے سسٹم کی ضرورت محسوس کی گئی تھی،جس کی روشنی میں کمشنری اور ایگزیکٹیو مجسٹریسی نظام رائج کیا گیا، اس نظام میں بہت سی خامیاں ضرور ہوں گی لیکن عشروں کی آزمائش نے اسے آزمودہ نظام بنادیا،ارضِ خدادادِ پاکستان میں بھی یہ نظام عشروں تک قائم رہا، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے پاس خاصے اختیارات ہوا کرتے تھے،یوں ضلع کی سطح پر حکومتی رٹ کے نفاذ کا موثرنظام موجود تھا،اس نظام کے تحت انتظامیہ اور عدلیہ میں بھی تال میل موجود تھا،ڈپٹی کمشنر انتظامی مجسٹریٹس کے سربراہ کے طور پرپولیس اور انتظامی معاملات کی نگرانی کرتے،اس نظام کے تحت فوری اور نچلی سطح پرانصاف کی فراہمی کا ایک منظم نظام فعال تھا،سیشن جج اگر چہ ضلعی عدلیہ کاسربراہ ہوتا تھا مگر ضلعی انتظامیہ سے بھی رابطہ مسلسل رکھتا تھا، ڈپٹی کمشنر ضلع کا انتظامی سربراہ ہونے کی حیثیت سے انتظامی کے ساتھ عدالتی اختیارات کا بھی حامل تھا،اس نظام کے تحت ضلع اور تحصیل کی سطح پر انتظامی اور عدالتی نظام چلایا جا رہا تھا۔

پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان ٹی ٹوئنٹی سیریز کے کمنٹری پینل کے نام سامنے آگئے

جنرل پرویز مشرف نے ضلعی حکومتوں کا نظام اپنایا جس کے بعد کمشنری اور مجسٹریسی کے آزمودہ کار نظام کی بساط عملی طور پرلپیٹ دی گئی،نئے نظام کے تحت ڈپٹی کمشنر کے تمام عدالتی اختیارات صلب کر لئے گئے جس کیساتھ مجسٹریسی نظام انجام کو پہنچا، نئے نظام کے تحت نچلی سطح پر انتظامی امور دن بدن بگڑتے چلے گئے،بد انتظامی نے سر اٹھایا،لاقانونیت پھیلی،قبضہ مافیا بے لگام ہوائی منافع خور اور گراں فروش من مانی کرنے لگے،پولیس نظام جو پہلے ہی ابتری کا شکار تھا، وہ مجسٹریسی سے آزاد ہوکرمزید زبوں حالی سے دوچار ہو گیا، وقت نے ثابت کیا کہ مجسٹریسی نظام بہت فائدہ مند تھا اس سے عوام کو بہت فائدہ ہورہا تھامہنگائی کے جن کو بھی قابو کرنے کے لئے یہ نظام سود مند تھا،اشیاء کی قیمتوں کو مانیٹر کرنے کے لئے مجسٹریٹ متعین تھے جن کو سزا دینے کے عدالتی اختیارات حاصل تھے،جو اس بات پر نظر رکھتے تھے کہ مارکیٹ میں کس چیز کی کمی ہے اور کیوں ہے، قیمت میں کس حدتک اضافہ ہو رہا ہے اشیاء کی کوالٹی کیسی ہے،اس صورتحال سے حکومت کو آگاہ کیا جاتا اور فوری احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے نتیجے میں حالات معمول پر آ جاتے تھے، لیکن اب یہ اقدامات قصہ پارینہ بن کر رہ گئے ہیں اور جس کا جو جی چاہے نرخ وصول کر رہا ہے، کچھ سال قبل وفاقی کابینہ کی جانب سے منظوری کے بعد پنجاب اور خیبرپختونخوا حکومت نے صوبے میں 17سال بعد مجسٹریسی نظام کی بحالی کا فیصلہ کیا اور مجسٹریسی نظام کی بحالی کے لئے اقدامات شروع کر دیئے،مگر مجسٹریسی نظام،عدالتی اختیارات نہ ہونے کی باعث امن و امان کی صورتحال، مہنگائی پر قابو پانے کے حوالے سے صوبائی حکومت کو مشکلات پیش آ رہی تھیں،پنجاب میں بھی پولیس کو ڈپٹی کمشنر کی دسترس سے آزاد کر دیا گیا،نتیجے میں امن و امان کی صورتحال مزید خراب ہو گئی،عدالتی اختیارات کے خاتمہ کے بعد ڈپٹی کمشنر اور مجسٹریٹس سے سزا دینے کا اختیار بھی سلب ہو گیا،اب جس کا جو جی چاہتا ہے کر رہا ہے،کوئی پوچھنے والا نہیں،نچلی سطح پر حکومتی رٹ نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔

اقراء عزیز کے پھر سے ماں بننے کی افواہوں پر یاسر حسین پھٹ پڑے، بیان سامنے آگیا

مجسٹریسی سسٹم کے بارے پولیس کی طرف سے ہمیشہ مزاحمت سامنے آئی اور اس مقصد کے لئے پولیس نے اپنے ذرائع استعمال کئے جس کی وجہ سے اس نظام کو واپس لانے کے لئے آج تک نظام میں ترمیم لانے کا حتمی فیصلہ نہیں ہو سکا تا ہم چاروں صوبوں کی جانب سے سسٹم کی بحالی پر اتفاق کے بعد قانون سازی میں انتظامی مجسٹریٹس کو امن وامان اور پرائس کنٹرول کے حوالے سے اختیارات تفویض کئے جانے کا عندیہ دیاگیا۔اس نظام کی بحالی کی مخالفت بھی سامنے آئی، جس کے بعد اس نظام کی پوری روح کے ساتھ بحالی کی امید دکھائی نہیں دیتی اگر ایسا ہوتا ہے تویہ بہت بڑی بدقسمتی ہوگی موجودہ حالات میں کہ جب ایک مرتبہ پھر بدامنی کاجن بوتل سے نکلنے کی کوشش میں ہے، جبکہ مہنگائی کاجن قابو سے باہر ہے پھر سے اسی آزمود ہ نظام کی بحالی کے لئے صدائیں بلند ہو رہی ہیں جو انگریز نے ہندوستان آنے کے بعدنافذ کرکے کم و بیش ایک صدی تک کامیابی سے چلاکردکھایا اور،اس سسٹم میں ڈپٹی کمشنر اورڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کا عہدہ درحقیقت سیفٹی والووکی حیثیت رکھتا تھا آج بھی اگر ایگزیکٹیو مجسٹریسی کا نظام بحال کیاجائے تو صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔

قرض کیلئے ایک خاتون اپنے ”مردہ انکل“ کی لاش سمیت بینک پہنچ گئی

یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ صرف قیمتیں چیک کرنے سے کچھ نہیں ہوگا گورننس کنٹرول کرنے کے لئے مجسٹریسی رول انتہائی ضروری ہے جو موقع پر فوری سزا دے کر حکومتی رٹ کو بحال کریں،کچھ حلقے مجسٹریٹس کے اختیارات پرمعترض رہتے تھے لیکن یہ لوگ کیوں یہ بھول جاتے ہیں اگر مجسٹریٹس کے پاس عدالتی اختیارات تھے تو آئین اورقانون کے مطابق ہی تھے مجسٹیریل سسٹم کی بدولت اوورسائٹ کا نظام موجود تھا جب یہ نظام ختم ہوا تو گورننس خراب ہوتی چلی گئی مجسٹریٹ عدالتوں میں بیٹھ کر فیصلے کرنے کے ساتھ ساتھ انتظامی معاملات میں بھی اہم کردار ادا کیا کرتے تھے امن وامان کا مسئلہ جب پیدا ہوتا تو مجسٹریٹ پولیس کے ساتھ ساتھ رہتا اور پولیس اس کی ہدایات پر عملدرآمد کی پابند ہوا کرتی تھی وہ ایک پورا ضلعی نظام تھا ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ہوتے تھے پھر سی آر پی سی کے تحت تھانہ مجسٹریٹ تھے یہ افسران عدالتی اختیارات کے معاملہ میں ہائی کورٹ کو جواب دہ تھے، جبکہ انتظامی اختیارات کے معاملہ میں ڈپٹی کمشنر کے سامنے پابند تھے ڈپٹی کمشنر پھر بھی ان سے پوچھ گچھ کر سکتا تھاآپ کے تھانے کی حدود میں بدامنی کیوں ہے؟ گویا ایک مکمل نظام تھا جو پاکستان جیسے ملک کے لئے ایک نعمت اور ضرورت تھی۔آج عدلیہ، پولیس اور ضلعی انتظامیہ چوں چوں کا مربہ بن چکی ہے،ہمیں اپنی اپنی سروس بچانے کی بجائے ملکی نظام کو بچانے کے لئے کچھ کرنا ہوگا ورنہ حالات مزید خراب ہوں گے۔

پشاور پریس کلب نے خیبرپختونخوا حکومت کی تقریبات کی کوریج کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا

QOSHE - پنجاب میں حکومتی رٹ؟ - محسن گواریہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

پنجاب میں حکومتی رٹ؟

9 0
18.04.2024

آج پنجاب میں حکومتی رٹ برقرار بلکہ بحال کرنے کے لئے حکومت کو جو دو سب سے اہم مسائل درپیش ہیں،ان میں سے پہلاسولہ روپے کی روٹی بیچنے کے اعلان پر عمل کرانا اور دوسرا امن و امان کی بحالی اور بہتری ہے،مہنگائی اور لا اینڈ آرڈر،ایسے مسائل ہیں جو گڈ گورننس کی بہتری میں سب سے زیادہ رکاوٹ ہیں۔ بہاولنگر واقعہ کے بعد، کیا وقت نہیں آ گیا ہے کہ حکومت کو اس کا وقتی حل نکالنے کی بجائے مجسٹریسی کی بحالی جیسے آزمودہ حل کی جانب جانا چاہئے،انسانی معاشروں میں بنائے گئے قواعد و ضوابط کو وقت اور حالات کے مطابق بدلنا ضروری ہو تو اس میں دیر نہیں کرنا چاہئے،پولیس آرڈر دو ہزار دو میں اگر ترمیم کی ضرورت ہے اور اگر مجسٹریسی ماضی میں مہنگائی اور امن و امان کے لئے اچھا کام کر رہی تھی تو اس کی بحالی میں کیا قباحت ہے؟

وکیل کی غلطی کی وجہ سے ایک جوڑے کی غلطی سے طلاق ہو گئی

ایک با اختیار مجسٹریسی نظام کی غیر فعالیت کی وجہ سے آج ذخیرہ اندوزوں، تجاوزات اور مہنگائی مافیا کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے اورانتظامیہ بھی امن وامان کے قیام اورپرائس کنٹرول کے علاوہ اشیاء صرف کی بلا تعطل فراہمی میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے، انگریزدور میں ہندوستان کے طول و ارض پر انتظامی کنٹرول کے لئے ایسے سسٹم کی ضرورت محسوس کی گئی تھی،جس کی روشنی میں کمشنری اور ایگزیکٹیو مجسٹریسی نظام رائج کیا گیا، اس نظام میں بہت سی خامیاں ضرور ہوں گی لیکن عشروں کی آزمائش نے اسے آزمودہ نظام بنادیا،ارضِ خدادادِ پاکستان میں بھی یہ نظام عشروں تک قائم رہا، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے پاس خاصے اختیارات ہوا کرتے تھے،یوں ضلع کی سطح پر حکومتی رٹ کے نفاذ کا موثرنظام موجود تھا،اس نظام کے تحت انتظامیہ اور عدلیہ میں بھی تال میل موجود تھا،ڈپٹی کمشنر انتظامی مجسٹریٹس کے سربراہ کے طور پرپولیس اور........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play