کوئی بعید نہیں کہ آئندہ چند روز میں یہ خبریں پڑھنے کو ملیں،16روپے کی روٹی نہ دینے پر عوام نے تندور والے کی پٹائی کر دی۔گویا ہم نے ایک اور محاذ کھول دیا ہے۔پنجاب میں روٹی کی قیمت16روپے کی گئی تو خیبرپختونخوا میں 15روپے مقرر ہوئی۔پنجاب کے شہ دماغوں نے16روپے قیمت کیوں رکھی، جبکہ علم بھی ہے اب ایک روپے کا سکہ ہی دستیاب نہیں، 15 روپے رکھ دیتے تو آسانی ہوتی،خیر آسانی تو اس لئے بھی نہیں کہ اس قیمت کو نان بائی ایسوسی ایشن نے قبول ہی نہیں کیا،پہلی بار روٹی کی قیمت پر عملدرآمد کرانے کے لئے کریک ڈاؤن کیا گیا۔ایسوسی ایشن کے صدر کو بھی گرفتار کر لیاگیا،اسے کہتے ہیں زوال،،بات نان بائیوں پر آ کر رُک گئی ہے،حالانکہ مہنگائی کے خلاف آواز اٹھانے پر سیاسی جماعتیں، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور تاجروں کی یونینز کے نمائندے اگر احتجاج کرتے اور اُن کے خلاف کریک ڈاؤن ہوتا تو بات بھی بنتی۔ہائے یہ پیارا وطن۔78سال گذر گئے اب تک روٹی دال کے چکر سے نہیں نکل سکا۔ذوالفقار علی بھٹو کے دور کو گزرے نصف صدی ہونے کو ہے،انہوں نے پکی پکائی روٹی کے پلانٹ لگا کر سستی روٹی کی سکیم متعارف کرائی تھی، مسئلہ اُس وقت بھی غریبوں کی بھوک کا تھا اور آج بھی ہے،ملک ایٹمی ہے،مگر مسائلپیٹ کا دوزخ بھرنے کے ہیں۔بھوک بڑھتی ہے تو تخریب جنم لیتی ہے،اس وقت معاشرہ اسی طرف بڑھ رہا ہے۔جرائم کی شرح اتنی زیادہ ہے کہ کانوں کو ہاتھ لگائے بنا بات نہیں بنتی۔چند روپے چیز سستی ملنے کا کہیں اعلان ہو جائے تو خلق ِ خدا ایسے ٹوٹ پڑتی ہے جیسے جنم جنم کے ترسے ہوئے لوگ ہوتے ہیں۔ تبدیلی سرکار یعنی تحریک انصاف کی حکومت آئی تھی تو لنگر خانوں کی تکنیک استعمال کی گئی،مسئلہ اُس وقت بھی پیٹ کا ایندھن بھرنے کا تھا۔پی ڈی ایم کی حکومت بنی تو شہباز شریف نے پشاور جا کر یہ انقلابی اعلان کیا وہ سستا آٹا فراہم کریں گے چاہے انہیں اس کے لئے اپنے کپڑے ہی کیوں نہ بیچنے پڑے۔ ہائے ہائے یہ ہماری بے چارگی،سیاست روٹی آٹے سے آگے نہیں بڑھتی۔خوشحالی اور جمہوری آزادیوں کی بات تو ہم سے صدیوں کی مسافت پر کھڑی ہے ابھی تو ہم زرعی ملک ہونے کے باوجود اپنے ملک کے عوام کو سستا اناج تک فراہم نہیں کر سکے۔

اداکار بننے سے پہلے ٹیکسی ڈرائیور تھا: رندیپ ہودا

کل انقلابی سوچ کے مالک ایک دوست سے ملاقات ہوئی۔ وہ کہنے لگے جب حکمرانوں کے پاس ویژن نہیں ہوتا، ملک کے حقیقی مسائل حل کرنے کی منصوبہ بندی نہیں ہوتی تو کھوکھلے فیصلے کرتے ہیں۔تاکہ عوام کو دھوکہ دے سکیں کہ انہیں غریبوں کی بہت فکر ہے۔روٹی20 روپے کی مل رہی تھی تو لوگوں کا جیسے تیسے گزارا ہو رہا تھا۔ضرورت اس بات کی تھی انہیں عمومی طور پر معاشی ریلیف فراہم کیا جاتا، چونکہ بڑے فیصلے کرنے کی استعداد ہی نہیں اس لئے لیپا پوتی والے اقدامات کر کے ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔ہمیں عوام کی بہت فکر ہے، ایک طرف پٹرول اور بجلی کے نرخ بڑھا دیئے جاتے ہیں اور دوسری طرف وہ روٹی سستی کی جاتی ہے جس پر حکومت کا اختیار ہی نہیں۔اب یہ پیمانہ کون لے کر ہر تندور پر کھڑا ہو گا کہ روٹی کا وزن سو گرام ہے یا نہیں۔بیس گرام کم وزن کی روٹی دے کر اگر تندور والے عوام پر احسان کریں گے تو اُس کا عوام کو حقیقی فائدہ کیا ہو گا۔ایسے شعبدوں کی بجائے اگر یوٹیلٹی بلوں میں عوام کو ریلیف دیا جائے تو شاید اُن کی روٹی بھی اُن کے لئے سستی ہو جائے۔حرام ہے کبھی یہ سوچا جائے کہ حکومتی اخراجات میں کیسے بچت کرنی ہے،سادگی کو فروغ دے کر اربوں روپے کیسے بچانے ہیں۔ایک طرف آپ نان بائیوں کو مہنگا آٹا دیں،مہنگی گیس فراہم کریں اور دوسری طرف انہی سے یہ توقع بھی رکھیں کہ وہ روٹی سستی کر دیں۔کچھ بوجھ تو طبقہئ اشرافیہ کو بھی اٹھانا چاہئے جو فائیو سٹار ہوٹل میں کھانا کھاتا ہے تو اُسے اِس بات کا علم ہی نہیں ہوتا۔اُس نے ایک چپاتی کی کیا قیمت ادا کی ہے،بعض ہوٹلوں میں یہی بیس روپے والی روٹی100روپے میں ملتی ہے اور اُس کی ادائیگی بھی فخر سے ہنسی خوشی کر دی جاتی ہے۔کبھی دنیا کا کوئی ملک اِس قسم کے اقدامات سے غربت کو شکست نہیں دے سکا۔ان سے غربت میں اضافہ ہوتا ہے،کمی آ ہی نہیں سکتی۔اربوں روپے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام پر کئی برسوں سے صرف ہو رہے ہیں اس پروگرام نے بھکاریوں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے،اُن میں کمی نہیں لائی جا سکی۔بنگلہ دیش نے ایسے احمقانہ بلکہ کرپشن کے در کھولنے والے منصوبوں کی بجائے خاص طور پر اپنی خواتین کو ہنر مند بنا کے روز گار فراہم کرنے کی پالیسی اپنائی۔آج یہی مین پاور بنگلہ دیش کے لئے زرمبادلہ کمانے کا سب سے بڑا ذریعہ بنی ہوئی ہے وہاں نہ سستا آٹا فراہم کرنے کی سکیمیں بنانی پڑتی ہیں اور نہ ہی دو چار روپے روٹی سستی کرنے جیسے ڈرامے کئے ہیں،آپ ایک ہی سرکل میں گھومتے رہیں گے تو منزل کیسے ملے گی؟

سندھ کا گورنر کون ہوگا ؟ متوقع نام سامنے آگیا

کبھی کبھی تو یہ بات سچ لگتی ہے کہ ہماری سیاسی اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ یہ چاہتی ہی نہیں کہ ملک میں خوشحالی آئے۔وہ اپنی سیاست کو غربت کے دائرے ہی میں مقید رکھنا چاہتی ہے۔یہ ایسا فارمولا ہے جو ہر دور میں اپنایا گیا اور کامیاب رہا ہے۔کوئی ایک انتخاب ایسا بتا دیں جب الیکشن مہم اس روٹی دال کے دائرے سے آگے بڑھی ہو۔بڑے بڑے لیڈر آئے،مگر اس سوچ سے آگے نہیں بڑھ سکے، کسی نے آٹا سستا کرنے کا نعرہ لگایا اور کوئی روٹی کپڑا مکان کے چکر میں پھنسا رہا۔ذرا سوچئے اگر اِس ملک سے غربت کی سیاست ختم ہو جائے تو پھر کون سی سیاست چلے گی۔کیا کوئی دوسرا ایشو بھی ہماری سیاست کے پاس ہے؟ ایک ایسی موروثی سیاست جس میں دو خاندانوں نے کئی کئی بار اقتدار کے مزے لئے ہوں اور اب اُن کی نئی نسل بھی اقتدار کی وادی میں قدم رکھ چکی ہو۔ غربت نہ ہو تو کیسے چل سکتی ہے اس لئے غریبوں کو اِس ملک میں غریب ہی رہنا ہے۔یہ پتھر پر لکیر ہے اُن کا مقدر یہی ہے وہ آٹے دال کے چکر میں پڑے رہیں۔ کبھی سستا آٹا لینے کے لئے ٹرکوں کے پیچھے دوڑیں اور کبھی چند سو روپے امداد کے لئے بھکاریوں کی طرح قطاروں میں کھڑے ہوں۔اُن کے لئے اس نظام میں تبدیلی کی کوئی گنجائش ہے اور نہ ہی اس نظام کے پروردہ یہ چاہتے ہیں کوئی تبدیلی آئے،اسی استحصالی سیاسی نظام میں عوام کے لئے سب سے بڑی خوشخبری یہی ہے کہ انہیں روٹی سستی ملنے لگے جبکہ حقیقت یہ ہے یہ خواب بھی شرمندہئ تعبیر نہیں ہوتا۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کا الیکشن کمیشن اور سکروٹنی کمیٹی تحلیل

QOSHE -   غربت کی سیاست - نسیم شاہد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

  غربت کی سیاست

13 0
17.04.2024

کوئی بعید نہیں کہ آئندہ چند روز میں یہ خبریں پڑھنے کو ملیں،16روپے کی روٹی نہ دینے پر عوام نے تندور والے کی پٹائی کر دی۔گویا ہم نے ایک اور محاذ کھول دیا ہے۔پنجاب میں روٹی کی قیمت16روپے کی گئی تو خیبرپختونخوا میں 15روپے مقرر ہوئی۔پنجاب کے شہ دماغوں نے16روپے قیمت کیوں رکھی، جبکہ علم بھی ہے اب ایک روپے کا سکہ ہی دستیاب نہیں، 15 روپے رکھ دیتے تو آسانی ہوتی،خیر آسانی تو اس لئے بھی نہیں کہ اس قیمت کو نان بائی ایسوسی ایشن نے قبول ہی نہیں کیا،پہلی بار روٹی کی قیمت پر عملدرآمد کرانے کے لئے کریک ڈاؤن کیا گیا۔ایسوسی ایشن کے صدر کو بھی گرفتار کر لیاگیا،اسے کہتے ہیں زوال،،بات نان بائیوں پر آ کر رُک گئی ہے،حالانکہ مہنگائی کے خلاف آواز اٹھانے پر سیاسی جماعتیں، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور تاجروں کی یونینز کے نمائندے اگر احتجاج کرتے اور اُن کے خلاف کریک ڈاؤن ہوتا تو بات بھی بنتی۔ہائے یہ پیارا وطن۔78سال گذر گئے اب تک روٹی دال کے چکر سے نہیں نکل سکا۔ذوالفقار علی بھٹو کے دور کو گزرے نصف صدی ہونے کو ہے،انہوں نے پکی پکائی روٹی کے پلانٹ لگا کر سستی روٹی کی سکیم متعارف کرائی تھی، مسئلہ اُس وقت بھی غریبوں کی بھوک کا تھا اور آج بھی ہے،ملک ایٹمی ہے،مگر مسائلپیٹ کا دوزخ بھرنے کے ہیں۔بھوک بڑھتی ہے تو تخریب جنم لیتی ہے،اس وقت معاشرہ اسی طرف بڑھ رہا ہے۔جرائم کی شرح اتنی زیادہ ہے کہ کانوں کو ہاتھ لگائے بنا بات نہیں بنتی۔چند روپے چیز سستی ملنے کا کہیں اعلان ہو جائے تو خلق ِ خدا ایسے ٹوٹ پڑتی ہے جیسے جنم جنم کے ترسے ہوئے لوگ ہوتے ہیں۔ تبدیلی........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play