جناب من اردو زبان کی تاریخ کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے یہ بہت پرانی نہیں ہے کہ اردو کی ابتدا بارہویں صدی کے بعد ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد سے ہوتی ہے اور اس کے پہلے شاعر امیر خسرو ہیں جن کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اس نئی زبان میں پہیلیاں کہ مکرنیاں اور دو ہے کہے اور اس وقت اس زبان کو ہندوی کہا جاتا تھا۔اردو کو غالب نے ریختہ کا نام دیا اور یہ کہا جاتا ہے کہ 1785ء میں غلام ہمدانی مصحفی نے سب سے پہلے اس پیاری زبان کو اردو کا نام دیا۔ اردو لفظ کے معانی جو کہ ترکی زبان کا لفظ ہے لشکر یا فوج کے ہیں چنانچہ مولوی محمد حسین آزاد اپنی مشہور کتاب آب حیات میں لکھتے ہیں کہ ”ترکی میں اردو بازار لشکر کو کہتے ہیں اردوئے شاہی اور دربار میں ملے جلے الفاظ زیادہ بولتے تھے وہاں کی بولی کا نام اردو ہو گیا۔ اسے فقط شاہجہان کا اقبال کہنا چاہئے کہ یہ زبان خاص و عام میں اسکے اردو کی طرف منسوب مشہور ہو گئی“ جناب من! مولوی محمد حسین آزاد نے یہ بھی نظریہ پیش کیا کہ اردو برج بھاشا سے نکلی ہے، مگر سید سلیمان ندوی اس کا آغاز سندھ سے قرار دیتے ہیں تو دوسری طرف نصیر الدین ہاشمی اردو زبان کا سراغ دکن میں لگاتے ہیں اور اس زبان کی ابتدا کو طلوع اسلام سے قبل قرار دیتے ہیں، مگر اس کے برعکس حافظ محمود اختر شیرانی اپنی تالیف کردہ کتاب”پنجاب میں اردو“ میں رقمطراز ہیں کہ ”مسلمانوں کی آمد کے ساتھ ہی عربی فارسی اور کچھ حد تک ترکی کے الفاظ مقامی بولیوں میں ضم ہونے لگے۔ اردو کی ابتدا پنجابی میں ہوئی ہے یا اس کی پیدائش دکن یاسندھ میں ہوئی، تاریخی لسانیات اور تقابلی لسانیات پر مبنی تحقیق کے لئے بہت کم لوگ کھڑے ہوئے ہیں۔ پانی کو تھامے ہوئے نظریات میں سے سب سے زیادہ قابل فہم وہ نظریہ قابل قبول ہے جو کہتا ہے کہ اردو گیارہویں اور بارہویں صدی عیسوی میں دہلی اور اس کے آس پاس بولی جانے والی کچھ بولیوں سے تیار ہوئی۔ان بولیوں میں برج بھاشا،میواتی، کھری بولی اور ہریانی شامل ہیں۔ دراصل اس وقت پنجاب دہلی تک پھیلا ہوا کرتا تھا جس کی وجہ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کی ابتدا پنجاب سے ہوئی تھی“۔گویا کہ حافظ محمود اختر شیرانی نے اردو زبان کی ابتدا کے بارے میں تمام نظریات کو نقش بر آب قرار دیا اور جزوی طور پر مولوی محمد حسین آزاد کے نظریہ سے اختلاف کر کے اردو زبان کی ماں پنجابی زبان کو قرار دیا اور اس کا تعلق دہلی سے قرار دے کر پنجاب کو دہلی سے ملا دیا،ایک بات اس ضمن میں قابل ِ غور ہے کہ ماہر لسانیات کی اکثریت اردو زبان کی ابتدا کو ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد سے جوڑتی ہے جو کہ بادی النظر میں درست نظر آتا ہے کہ یہ بھی حقیقت نفس الا مری ہے کہ اردو کی ترقی میں فارسی اور عربی کا بہت زیادہ اثر ہے کہ اردو فارسی کادودھ پی کر جوان ہوئی اور یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ انسان کی ابتدائی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ایک وقت انسان پر ایسا بھی تھا کہ تمام دنیا کے انسان ایک جگہ پر رہائش پذیر تھے اور اِس وقت ایک زبان بولتے تھے اور وہ زبان ما سواعربی زبان کے کوئی اور زبان نہ تھی۔بہرحال اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مغل بادشاہوں کے دربار میں اس پیاری زبان کی پرورش ہوئی کہ اسی سرپرستی کی بدولت ہی آج اردوزبان کا شمار دنیا کی بڑی زبانوں میں ہوتا ہے کہ ہندوستان کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر خود اردوزبان کے بہت اچھے شاعر تھے اور مغلیہ دربار سے وابستہ اردو کے شاعر مرز اسد اللہ خان غالب نے اردو زبان کو جو کہ مقفیٰ و مسجع الفاظ میں مقید تھی اس سے آزاد کیا اور اپنے خطوط میں سادہ الفاظ کو اختیار کیا جو کہ عوام میں مقبول ہوئے اور اسی مقبولیت کی وجہ سے مرزا غالب کو جدید اردو نثر کا بانی کہا جاتا ہے۔بہر حال کوئی بھی زبان سرکاری سرپرستی کے بغیر ترقی نہیں کر سکتی اور جہاں تک اردو زبان کا تعلق ہے تو اِس وقت اردو دنیا کی نویں بڑی زبان ہے اور اردو زبان کا حقیقی گھر بلاشبہ اس وقت پاکستان ہے، مگر انتہائی افسوس کیساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ اردو زبان کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 251 کے تحت 15 سال میں دفتری زبان بنانا تھا جو کہ نہ بن سکی اور بعدازاں 8 ستمبر 2015ء کو چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اردو زبان کو دفتری زبان کے طور پر رائج کرنے کا حکم دیا کہ ”آئین میں درج ہے کہ 15 سال کے اندر انگریزی کی جگہ اردو کو سرکاری اور دفتری زبان کے طور پر نافذ کیا جائے۔ وفاقی سطح پر مقابلے کے امتحانات میں قومی زبان استعمال کی جائے“،مگر بساآرزو کہ خاک شد ہ کے مصداق ابھی تک اردو زبان کو پاکستان میں جو اس کا حقیقی گھر ہے اس کا حق نہ مل سکا کہ اس قومی زبان کو دفتری زبان بنانے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہماری اشرافیہ اور اس کی بغل بچہ بیورو کریسی ہے کہ جس کے مہمل جذبات کا یہ شکار ہو چکی ہے،جو نہیں چاہتے کہ غریب کا بچہ اوپر آئے اور ان کی برابری کرسکے۔ بہر حال اردو زبان ایک میٹھی پیاری زبان ہے اور حالی کیا خوب کہتے ہیں کہ:

اداکار بننے سے پہلے ٹیکسی ڈرائیور تھا: رندیپ ہودا

شہد و شکر سے شیریں اردو زباں ہماری!!

ہوتی ہے جس کے بولے میٹھی زباں ہماری!!

QOSHE - شہد و شکر سے شیریں اردو زباں ہماری - کاشف درویش مندرانی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

شہد و شکر سے شیریں اردو زباں ہماری

10 0
17.04.2024

جناب من اردو زبان کی تاریخ کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے یہ بہت پرانی نہیں ہے کہ اردو کی ابتدا بارہویں صدی کے بعد ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد سے ہوتی ہے اور اس کے پہلے شاعر امیر خسرو ہیں جن کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اس نئی زبان میں پہیلیاں کہ مکرنیاں اور دو ہے کہے اور اس وقت اس زبان کو ہندوی کہا جاتا تھا۔اردو کو غالب نے ریختہ کا نام دیا اور یہ کہا جاتا ہے کہ 1785ء میں غلام ہمدانی مصحفی نے سب سے پہلے اس پیاری زبان کو اردو کا نام دیا۔ اردو لفظ کے معانی جو کہ ترکی زبان کا لفظ ہے لشکر یا فوج کے ہیں چنانچہ مولوی محمد حسین آزاد اپنی مشہور کتاب آب حیات میں لکھتے ہیں کہ ”ترکی میں اردو بازار لشکر کو کہتے ہیں اردوئے شاہی اور دربار میں ملے جلے الفاظ زیادہ بولتے تھے وہاں کی بولی کا نام اردو ہو گیا۔ اسے فقط شاہجہان کا اقبال کہنا چاہئے کہ یہ زبان خاص و عام میں اسکے اردو کی طرف منسوب مشہور ہو گئی“ جناب من! مولوی محمد حسین آزاد نے یہ بھی نظریہ پیش کیا کہ اردو برج بھاشا سے نکلی ہے، مگر سید سلیمان ندوی اس کا آغاز سندھ سے قرار دیتے ہیں تو دوسری طرف نصیر الدین ہاشمی اردو زبان کا سراغ دکن میں لگاتے ہیں اور اس زبان کی ابتدا کو طلوع اسلام سے قبل قرار........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play