یہ اک شجر کہ جس پہ نا کانٹا نا پھول ہے
شہر کے وسط میں ایستادہ مضبوط اور گھنے درخت کو اکھاڑ کر شہر کے ایک کنارے گاڑ دیا گیا تھا۔ یہ اکھاڑ پچھاڑ نئی بات نہ تھی۔ درخت سے خالی ہونے والے گڑھے میں ایک دل کش مصنوعی درخت لگایا گیا تھا۔ جس کی سجاوٹ میں استعمال ہونے والی چیزوں کا ذکر تاریخ میں صرف " اندھا یقین " ہے۔ ایسی بہت سی نا پروردہ صورتوں میں مقام کی تبدیلی اصل درختوں کا مقدر ہوا کرتی ہے۔پتوں کو صرف درخت درکار تھا۔پتے شہد کی مکھیوں کی طرح درخت سے لپٹ جاتے۔اب بھی ایسا ہی ہوا۔درخت کی شاخیں کم زور لیکن گھنی تھیں۔ ان شاخوں کو پتوں نے کچھ اس طرح ڈھانپ رکھا تھا کہ درخت پر صرف پتے نظر آتے۔سبز، زرد،خشک چرمرائے ہوئے پتے، نئی کونپلوں سے جڑے ہلکے سبز پتے۔ جھریوں سے اٹا اٹ زردی مائل سبز پتے۔ ایسے پتے بھی تھے جن کی صرف رگیں نظر آتیں۔ شہد کے چھتے لگانے اور اتارنے والے ہاتھ کبھی نظر نہ آتے۔ دور و نزدیک سے شہر کے لوگ بلا ناغہ یہاں سے گزرتے اور ایک سرسری نظر درخت پر بھی ڈال لیتے۔ ایسی بجھی اور سرسری نظریں! جن سے درخت کے پتوں کو کوئی فرق نہ پڑتا۔ شہر میں ہر جلسہ اسی درخت کے سائے میں منعقد........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website