شہر کے وسط میں ایستادہ مضبوط اور گھنے درخت کو اکھاڑ کر شہر کے ایک کنارے گاڑ دیا گیا تھا۔ یہ اکھاڑ پچھاڑ نئی بات نہ تھی۔ درخت سے خالی ہونے والے گڑھے میں ایک دل کش مصنوعی درخت لگایا گیا تھا۔ جس کی سجاوٹ میں استعمال ہونے والی چیزوں کا ذکر تاریخ میں صرف " اندھا یقین " ہے۔ ایسی بہت سی نا پروردہ صورتوں میں مقام کی تبدیلی اصل درختوں کا مقدر ہوا کرتی ہے۔پتوں کو صرف درخت درکار تھا۔پتے شہد کی مکھیوں کی طرح درخت سے لپٹ جاتے۔اب بھی ایسا ہی ہوا۔درخت کی شاخیں کم زور لیکن گھنی تھیں۔ ان شاخوں کو پتوں نے کچھ اس طرح ڈھانپ رکھا تھا کہ درخت پر صرف پتے نظر آتے۔سبز، زرد،خشک چرمرائے ہوئے پتے، نئی کونپلوں سے جڑے ہلکے سبز پتے۔ جھریوں سے اٹا اٹ زردی مائل سبز پتے۔ ایسے پتے بھی تھے جن کی صرف رگیں نظر آتیں۔ شہد کے چھتے لگانے اور اتارنے والے ہاتھ کبھی نظر نہ آتے۔ دور و نزدیک سے شہر کے لوگ بلا ناغہ یہاں سے گزرتے اور ایک سرسری نظر درخت پر بھی ڈال لیتے۔ ایسی بجھی اور سرسری نظریں! جن سے درخت کے پتوں کو کوئی فرق نہ پڑتا۔ شہر میں ہر جلسہ اسی درخت کے سائے میں منعقد کیا جاتا۔ درخت کے پتوں کو اس سے بھی کوئی غرض نہ تھی اور نہ ہی شہر کے لوگوں کو پتوں سے کوئی دل چسپی تھی۔ ان جلسوں میں پتوں کی شرکت ریاضی کے کمپیوٹرائزڈ فارمولوں کی طرح طے شدہ تھی۔ شدید اور بے ہنگم ہلڑ بازی میں درخت کے پتے روندے جاتے لیکن شاخوں کی کم زوری چھپی رہتی۔ یہ پتے ان کم زور شاخوں کو ڈھانپنے پر ہی مامور تھے۔کوئی بھی موسم ان پر بار نہ گزرتا۔بہ زبان خامشی وہ پکارتے کہ انھیں صرف پرورش لوح و قلم کرنے کی اجازت ہے اور وہ زندگی بھر یہی کرتے رہیں گے۔دل پہ گزرنے والے معاملات بتانے کا کبھی موقع ہی نہ آتا۔نہ ہی سنگدل محبوب کو معاملات دل سے کوئی غرض تھی۔محبوب "دل اپنا اور پریت پرائی" کا قائل تھا اور ہر موسم میں بار بار اس کا اعادہ کرتا۔ پتوں کی حالت زار سے بے نیاز محبوب بھی تو اپنے دل کے ہاتھوں مجبور تھا۔ بند قبا کی طرح یہ معاملات جب جب کھلتے۔ بہت سوں کے ایمان ڈگمگا جاتے اور بہت سے ایمان جھولی میں ڈالے دل و جان وارنے پر تیار رہتے لیکن ان سب کو پاٹھ پڑھانے پر مامور چوغہ بردار انھیں یقین دلاتے کہ جام جم کی مارکیٹ کریش کر گئی ہے اور جام سفال ہی جام جم سے بہتر ہے جو بازار سے بے قیمت خریدا جا سکتا ہے۔" خریدنے " پر خصوصی زور دیا جاتا اور حلق سے آواز نکالی جاتی۔ اور خلقت جمود کے نئے کپڑے پہن کر "دوڑو زمانا چال قیامت کی چل گیا " کا نعرہ لگاتی عالم قیام میں ہی دنیا کا سفر طے کر آتی۔ پتوں کے حلق سے ہر شے اگلوانا " اگلوں " کو بھی خوب آتا تھا۔یہ فن چوغہ برداروں تک بڑی حفاظت سے پہنچا تھا۔ فن کوئی محبوب کا خط تھوڑا ہی تھا جو خرد برد ہو جاتا۔یا پھر جواب جانتے ہوئے بھی عاشق خط پہ خط ہی لکھتا رہتا۔ ویسے بھی اب تو ویڈیوز کا دور تھا۔ اور اس سیلاب پر بند باندھنے کے لیے ڈیم موجود ہی نہ تھے اور نہ ہی اس کی کوئی خاص ضرورت تھی۔ آدھا شہر تو ویسے ہی بہتی نہر میں ڈبکیاں لگا رہا تھا اور آدھا خشکی سے مچھلیاں پکڑنے کی خواہش میں ہلکان ہو رہا تھا۔ البتہ جب کبھی ایسے معاملات دل سنگین ہو جاتے تو محبوب کو درخت کی کوئی نہ کوئی شاخ بیچنا پڑتی۔ پتوں کو جھاڑ کر وہ شاخ مصنوعی درخت میں انتہائی مہارت اور خوب صورتی سے لگا دی جاتی۔ سٹیل مل سے پی آئی اے کی طرح درخت کی ہر شاخ "،شاخ زار " تھی لیکن مصنوعی درخت سے جڑتے ہی اس پر پرندے چہچہاتے لگتے اور وہ خوشی سے نہاری جاتی۔ ہر شاخ کے مقدر میں یہ ناز عروساں نہ تھا۔ لیکن جلد یا بدیر حالات کی پیشین گوئیوں سے صرف نظر دشوار تھا۔ پتوں کی سرگوشیاں البتہ جاری رہتیں لیکن تاریخ میں ایسی سرگوشیوں کا ذکر ممنوع قرار پایا۔درخت کی جڑوں میں دم کیا پانی اور افیون کی گولیوں نے اس کے کھوکھلے پن میں اضافہ ہی کیا تھا۔اب تک وہ ماہِر نباتات جیمز وانگ کی اس تحقیق سے بے نیاز ہے کہ پودے نہ صرف اپنے اردگرد کی چیزوں کو سونگھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ دوسرے پودوں کو بھی خطرے سے خبردار کرنے، مواصلات کے پیچیدہ نظام کو برو کار لانے، فیصلہ کرنے اور اطلاعات کو یاد کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ درخت کھوکھلا ہوتا جا رہا ہے لیکن اپنی جگہ جمے رہنے کو بقا سمجھتا ہے۔اسے سمجھ لینا چاہیے کہ اس کا اپنا ذہن بھی ہے جس سے وہ جوتیاں چومنے کے بجائے خیرات میں دیے گئے شعور کا تجزیہ کر سکتا ہے۔لیکن یہ درخت آئینہ ایام سے بے خبر اپنا جوہر ٹک ٹاک کی پھونکوں کا منتظر ہے۔ رہے نام اللہ کا۔

اداکار بننے سے پہلے ٹیکسی ڈرائیور تھا: رندیپ ہودا

QOSHE -  یہ اک شجر کہ جس پہ نا کانٹا نا پھول ہے  - ڈاکٹر سعدیہ بشیر
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

 یہ اک شجر کہ جس پہ نا کانٹا نا پھول ہے 

14 13
17.04.2024

شہر کے وسط میں ایستادہ مضبوط اور گھنے درخت کو اکھاڑ کر شہر کے ایک کنارے گاڑ دیا گیا تھا۔ یہ اکھاڑ پچھاڑ نئی بات نہ تھی۔ درخت سے خالی ہونے والے گڑھے میں ایک دل کش مصنوعی درخت لگایا گیا تھا۔ جس کی سجاوٹ میں استعمال ہونے والی چیزوں کا ذکر تاریخ میں صرف " اندھا یقین " ہے۔ ایسی بہت سی نا پروردہ صورتوں میں مقام کی تبدیلی اصل درختوں کا مقدر ہوا کرتی ہے۔پتوں کو صرف درخت درکار تھا۔پتے شہد کی مکھیوں کی طرح درخت سے لپٹ جاتے۔اب بھی ایسا ہی ہوا۔درخت کی شاخیں کم زور لیکن گھنی تھیں۔ ان شاخوں کو پتوں نے کچھ اس طرح ڈھانپ رکھا تھا کہ درخت پر صرف پتے نظر آتے۔سبز، زرد،خشک چرمرائے ہوئے پتے، نئی کونپلوں سے جڑے ہلکے سبز پتے۔ جھریوں سے اٹا اٹ زردی مائل سبز پتے۔ ایسے پتے بھی تھے جن کی صرف رگیں نظر آتیں۔ شہد کے چھتے لگانے اور اتارنے والے ہاتھ کبھی نظر نہ آتے۔ دور و نزدیک سے شہر کے لوگ بلا ناغہ یہاں سے گزرتے اور ایک سرسری نظر درخت پر بھی ڈال لیتے۔ ایسی بجھی اور سرسری نظریں! جن سے درخت کے پتوں کو کوئی فرق نہ پڑتا۔ شہر میں ہر جلسہ اسی درخت کے سائے میں منعقد........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play