پھر وہی میثاق جمہوری کی باتیں
ذوالفقار علی بھٹو کی 45 ویں برسی پر صدر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے جہاں اور بہت سی باتیں کیں، وہاں یہ بھی کہا کہ ملک کو ایک بار پھر میثاق جمہوریت کی ضرورت ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کا تو یہ کہنا تھا جو میثاق جمہوریت بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کے درمیان ہوا تھا، اس پر 90 فیصد عملدرآمد ہو چکا ہے، دس فیصد عدالتی اصلاحات سے متعلق ہے۔ جس پر ہونا ہے۔ یہ بڑی دلچسپ صورتحال ہے کہ اقتدار میں موجود ایک جماعت کے دو بڑے میثاق جمہوریت کی بات کر رہے ہیں۔ مگر میرے نزدیک یہ آدھا سچ ہے اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ اس وقت میثاق جمہوریت کن سیاسی قوتوں کے درمیان ہونا چاہئے۔ جس میثاق جمہوریت کی بات کی جا رہی ہے وہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان ہوا تھا، اب بدلے ہوئے تناظر میں یہ دونوں جماعتیں باہم شیر و شکر ہیں گویا میثاق جمہوریت پر عمل پیرا ہیں اس وقت ان سیاسی جماعتوں کے ساتھ میثاق جمہوریت کی ضرورت ہے جو گرینڈ الائنس بنا کر احتجاجی تحریک شروع کر چکی ہیں، ان میں سب سے اہم جماعت تحریک انصاف ہے اسے دیوار سے لگانے کی پالیسی جب تک تبدیل نہیں کی جاتی، میثاق جمہوریت نہیں ہو سکتا۔ حالت یہ ہے کہ ایک طرف بلاول بھٹو زرداری نے میثاق جمہوریت کی بات کی ہے تو دوسری طرف یہ بھی کہا ہے بعض سیاسی جماعتیں پی این اے پارٹ ٹو کی تیاری کر رہی ہیں۔ انہوں نے وہی روایتی بات کی ہے کہ یہ جماعتیں جمہوریت کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھنا چاہتیں۔ صدر آصف علی زرداری کہتے ہیں وہ جیالوں کی وجہ سے دوبارہ صدر بنے ہیں، اس پر ہنسی آتی ہے جس جوڑ توڑ اور نظریہئ ضرورت،........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website