کچھ دنوں سے مرحوم دوست یاد آ رہے ہیں۔ وہ اپنے کام کر کے دنیا سے رخصت ہوئے۔ ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ قدرت اللہ بزرگ شریف النفس شخصیت کے مالک تھے۔ کافی عرصہ روز نامہ پاکستان اخبار میں کالم لکھتے رہے۔ میری ان سے اخبار کے دفتر جب بھی ملاقات ہوتی۔ سامنے کرسی پر بیٹھا لیتے۔ نرمی سے بات کرتے۔ پھر میں اپنی تحریر ان کے حوالے کر دیتا۔ اس طرح وہ مقررہ وقت پر شائع ہو جاتی۔ میری پہلی ملاقات چودھری خادم حسین صاحب سے انہوں نے کرائی تھی پھر مرتے دم تک ان سے فیض حاصل کرتا رہا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے آمین۔

آئل ٹینکرز اونر ایسوسی ایشن کا پٹرول اور ڈیزل کی سپلائی بند کرنے اعلان

مشہور شاعر اجمل نیازی سے شعر و ادب کے حوالے سے رشتہ قائم ہوا۔ مختلف ادبی پروگراموں میں ملاقات ہو جاتی تھی۔ خاص طور پر ٹی ہاؤس میں مجھ سے گفتگو ہوتی۔ چائے کا دور بھی چلتا رہتا۔ دوسرے دوست بھی شامل ہو جاتے۔ اپنے سر پر بالوں کو ٹھیک کرتے نظر کی عینک سے دیکھتے خوبصورت اشعار سناتے ڈاکٹر محمد اجمل نیازی کی کتاب پچھلے پہرکی سرگوشی، منیر نیازی نے ان کے بارے میں خوب لکھا ہے۔ اجمل جب سن کرتا ہے تو نژ اور شعر میں فاصلہ مٹ جاتا ہے۔ وہ مجھے اپنے قبیلے کا سردار کہتا ہے۔ اور مجھے اپنے جیسا لگتا ہے۔ محمد اجمل نیازی کا شعر ہے اس بستی میں کوئی نہیں ہے اب میرا۔ پھر بھی یہاں میں آتا جاتا رہا ہوں ان کا دوسرا رنگ دیکھیں بڑی مدت سے اک دوجے کے ہم مد مقابل ہیں نہ میں تبدیلی ہوتا ہوں نہ وہ تبدیل ہوتی ہے۔

غزہ کے الشفا ہسپتال اور بیت لاحیہ میں اجتماعی قبریں دریافت

اختر شمار دراز قد خوبصورت شخصیت کے مالک تھے۔ا نہیں میری چالیس سال پرانی نظم بہت پسند تھی۔ وہ آخر اس کا حوالہ دیتے تھے اور فرمائش کرتے تھے۔ عنوان تھا۔

تاکید: اے میرے دوست تمہیں اپنی عات بدلنا ہو گی۔

تمہارے ڈگمگاتے قدموں پر علاقہ کے کتے بھونکتے ہیں رات کے دو بجے بیبیاں تھک ہار کر انتظار میں سو جاتی ہیں۔ ان سے آخری ملاقات پی سی ہوٹل کے ساتھ ایک دفتر میں ہوئی۔ رمضان کا مہینہ تھا۔ وہ ایک مشہور فرد سے بات کر رہے تھے مجھے ان سے ملاقات کرنے کی اجازت نہیں ملی۔ جس کا صدمہ اختر شمار کو اٹھانا پڑا۔ وہ اس دنیا سے کنارہ کر گئے۔ مگر اب جن کی ٹرانسفر ہو چکی ان کے عہدے پر مشہور شاعر عباس تابش صاحب تشریف لائے ہیں۔ علم و ادب کی قدر کرتے ہیں اور دوستوں کے لئے ان کا فیض جاری ہے۔

ایرانی حملہ اسرائیل سمیت خطے کے دیگر ممالک کی حدود کی خلاف ورزی تھی، امریکی محکمہ خارجہ

اسلم طارق ایچیسن کالج میں پڑھاتے تھے۔ خوبصورت شکل صورت کے مالک تھے شعر و ادب سے گہرا تعلق تھا۔ عالم خان صاحب کے ساتھ ان کی جوڑی مشہور تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ میری بھی دوستی پروان چڑھتی رہی۔ اسلم طارق کی کتاب اور سورج کا رستہ 2005ء میں آئی۔ اس سے پہلے بڑی کتاب تمہارے پاؤں تمہارا سر اور سالوس آئی انہیں پیش کی مرحوم یاد میں انارکلی کی رونق تھے۔ ان کے آنے سے محفلیں سج جاتی تھیں دور و نزدیک کالج کے لڑکے ان کی صوبت حاصل کرتے تھے۔ سورج کا رستہ نظموں کا مجموعہ کلام ہے۔ جس میں شاعر کی چھوٹی چھوٹی خواہشیں محسوس ہوتی ہیں۔ جنہیں خوابوں کے حوالے سے بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ ان کا لہجہ دل کو چھوتے ہوئے گزرتا ہے۔ محبت کاغذوں پر لکھ رہے ہو

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (منگل) کا دن کیسا رہے گا؟

کاغذوں کو آخری نقطے پر ردی میں بدل جانے کی عادت ہے

کہاں فٹ پاتھ کے ڈھیروں میں اپنے لفظ ڈھونڈو گے

اسلم کمال نے ساری زندگی علامہ اقبالؒ سے محبت میں بسر کر دی ان کے کلام کی ہزاروں پینٹنگ بنائیں۔ حکومت نے انہیں اعزازات سے نوازا۔ لاہور سے چین تک کتاب ایک صاحب سے حاصل کی انہیں اپنی کتاب بدلے میں پیش کی ایوان اقبال میں ان کی یاد میں تقریب منعقد ہوئی۔ جس میں ان کی بیٹی اور بیٹے شریک تھے۔ اسلم کمال درویش صفت انسان تھے۔ وہ اپنے کام کے ذریعے لوگوں کو خوشیاں تقسیم کر رہے تھے۔

سال کے آخر دن فراست بخاری بھی دنیا چھوڑ گئے مرحوم ہر شخص کی تقریب میں موجود ہوتے۔ شاندار فوٹو گرافی کرتے پھر فیس بک پر لگاتے۔ گلے میں ہار پہناتے۔ انہیں دنیا میں کسی صلہ کی ضرورت نہیں تھی۔ انڈیا کے مشہور شاعر منور رانا 15 جنوری 2024ء میں انتقال کر گئے۔ ماں کے بارے میں خوبصورت اشعار کہتے تھے۔

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹی فکیشن جاری

کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکان آئی

میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی

یہاں سے جانے والا لوٹ کر کوئی نہیں آیا

میں روتا رہ گیا لیکن نہ واپس جا کے ماں آئی

ادھورے راستے سے لوٹنا اچھا نہیں ہوتا

بلانے کے لئے دنیا بھی آئی تو کہاں آئی

کسی کو گاؤں سے پردیس لے جائے گی پھر شاید

اڑاتی ریل گاڑی ڈھیر سارا پھر دھواں آئی

نجیب احمد ایک اچھے شاعر اور مخلص دوست تھے۔ آخری چند سال الحمرا میں دوستوں کی محفل میں موجود ہوتے۔ ازل سے ان کی کتاب بھی منظر عام آ چکی ہے۔ ان سے کئی سال دوستی کا سفر جاری رہا۔ جو آخری دم تک رہا۔ بیمار رہتے تھے۔

تحریک انصاف کی کارکن خدیجہ شاہ کے وارنٹ گرفتاری جاری

مجھے تجھ سے محبت جب ہوئی تھی

بچھڑ جانے کی ساعت آ چکی تھی

ان حضرات کا دنیا سے جانا علم ادب میں بہت بڑا نقصان ہے۔ ویسے آبادی خوفناک حد تک بڑھ رہی ہے۔ کاش علم کی شمع روشن رہے اور ہر فرد تعلیم حاصل کرے قوم و ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرے۔

QOSHE - علم کے چراغ بجھ گئے! - کنور عبدالماجد خاں
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

علم کے چراغ بجھ گئے!

10 0
16.04.2024

کچھ دنوں سے مرحوم دوست یاد آ رہے ہیں۔ وہ اپنے کام کر کے دنیا سے رخصت ہوئے۔ ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ قدرت اللہ بزرگ شریف النفس شخصیت کے مالک تھے۔ کافی عرصہ روز نامہ پاکستان اخبار میں کالم لکھتے رہے۔ میری ان سے اخبار کے دفتر جب بھی ملاقات ہوتی۔ سامنے کرسی پر بیٹھا لیتے۔ نرمی سے بات کرتے۔ پھر میں اپنی تحریر ان کے حوالے کر دیتا۔ اس طرح وہ مقررہ وقت پر شائع ہو جاتی۔ میری پہلی ملاقات چودھری خادم حسین صاحب سے انہوں نے کرائی تھی پھر مرتے دم تک ان سے فیض حاصل کرتا رہا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے آمین۔

آئل ٹینکرز اونر ایسوسی ایشن کا پٹرول اور ڈیزل کی سپلائی بند کرنے اعلان

مشہور شاعر اجمل نیازی سے شعر و ادب کے حوالے سے رشتہ قائم ہوا۔ مختلف ادبی پروگراموں میں ملاقات ہو جاتی تھی۔ خاص طور پر ٹی ہاؤس میں مجھ سے گفتگو ہوتی۔ چائے کا دور بھی چلتا رہتا۔ دوسرے دوست بھی شامل ہو جاتے۔ اپنے سر پر بالوں کو ٹھیک کرتے نظر کی عینک سے دیکھتے خوبصورت اشعار سناتے ڈاکٹر محمد اجمل نیازی کی کتاب پچھلے پہرکی سرگوشی، منیر نیازی نے ان کے بارے میں خوب لکھا ہے۔ اجمل جب سن کرتا ہے تو نژ اور شعر میں فاصلہ مٹ جاتا ہے۔ وہ مجھے اپنے قبیلے کا سردار کہتا ہے۔ اور مجھے اپنے جیسا لگتا ہے۔ محمد اجمل نیازی کا شعر ہے اس بستی میں کوئی نہیں ہے اب........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play