پاکستان کی یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے کے لئے دشمن کی سازشوں کا سلسلہ جاری ہے۔یہ ہمارا بڑا امتحان ہے اور ملک کے اندر بسنے والے محب وطن پاکستانی اِن سازشوں کو سمجھتے ہیں۔پاکستان کی چار اکائیاں ہیں اور عوام کی حد تک ان میں ایک مضبوط اور اٹوٹ تعلق موجود ہے۔شرپسندوں کا ٹارگٹ ہمیشہ یہی رہا ہے کہ اس اٹوٹ تعلق اور یکجہتی کو توڑا جائے،اس لئے واقعات کو ایسا رنگ دینے کی کوشش کی جاتی ہے جو نفرت ابھارے،مگر آفرین ہے پاکستانی عوام پر کہ وہ اِس سازش کا شکار نہیں ہوتے۔کل نوشکی میں اندوہناک سانحہ پیش آیا اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے نو افراد کو بس سے اتار کر شناخت کرنے کے بعد جس طرح قتل کیا گیا،اُس نے ایک مرتبہ پھر تشویش کی لہر دوڑا دی،مجھے کوئٹہ سے ایک بلوچ دوست کا فون آیا انہوں نے ہمدردی کے بول تو کہے ہی ساتھ ہی دلگیر آواز میں یہ صفائی بھی دی کہ اس واقعہ میں کوئی عام بلوچ ملوث نہیں۔ پنجاب ہمارا پیارا صوبہ ہے،پنجابی بلوچی بھائی بھائی ہیں۔یہ مٹھی بھر ملک دشمن ہیں جو ایسی کارروائیاں کرتے ہیں،انہوں نے زور دے کر کہا ایسے واقعات ہماری قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانے کی گھناؤنی سازش ہیں،مگر ہم اسے کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔اس سانحے میں بچ جانے والے ایک نوجوان نے بتایا کہ دو افراد بس میں داخل ہوئے، انہوں نے پوچھا کون کون پنجابی ہیں،ایران روز گار کے لئے جانے والے محنت کش نوجوانوں میں سے نو کو بس سے نکالا اور ڈرائیور کو آگے جانے کا کہا۔اس موقع پر انہوں نے ایک جملہ کہا ”پنجابی ہمارے لوگوں کے قاتل ہیں“۔اس کے بعد یہ اطلاع ملی کہ بس سے اتارے جانے والے نوجوانوں کو قتل کر دیا گیا ہے اب یہاں یہ بات نوٹ کرنے کی ہے دہشت گرد قاتلوں نے یہ جملہ کیوں کہا، کہ پنجابی ہمارے لوگوں کے قاتل ہیں؟اس کا مقصد سوائے اِس کے اور کچھ نہیں کہ یہ تاثر دیا جا سکے بلوچستان میں پنجاب کے خلاف نفرت موجود ہے،حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ میرے بہت سے پنجابی دوست بلوچستان میں خضدار، کوئٹہ، سبی اور دیگر شہروں میں نہ صرف مقیم ہیں،بلکہ کاروبار اور ملازمتیں بھی کر رہے ہیں۔ انہیں کبھی یہ احساس نہیں ہوا،بلوچ عوام نے اُن سے کسی تعصب یا نفرت کا اظہار کیا ہو،جہاں تک پنجاب کا تعلق ہے تو یہاں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ہر قبیلے اور نسل کے پاکستانی بھرپور زندگی گزار رہے ہیں،میں اپنے ملتان کی مثال دیتا ہوں جہاں جگہ جگہ کوئٹہ ہوٹل کھل چکے ہیں، بڑی بڑی مارکیٹیں بلوچی افراد کے دم قدم سے آباد ہیں اس کا واضح مطلب یہ ہے،جو ملک دشمن بھی یہ سازش کر رہا ہے،اُس کا ہدف بلوچی عوام اور پنجابیوں میں نفرت کے بیج بونا ہے،حالانکہ ایسا ممکن نہیں،کیونکہ زمینی حقائق اِس بات کا ثبوت ہیں کہ عوام میں نفرت نہیں، محبت موجود ہے۔

قائم مقام چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ اشتیاق ابراہیم نے حلف اٹھا لیا

اب سوال یہ ہے اِس سازش کو ناکام بنانے کے لئے ہمیں کرنا کیا ہے؟ ایسے ہر سانحے کے بعد حکومتی شخصیات کی طرف سے بلند بانگ بیان دیئے جاتے ہیں،دہشت گردوں اور شرپسندوں سے آہنی ہاتھ سے نمٹنے کا عندیہ دیا جاتا ہے،اِس بار بھی صدر، وزیراعظم اور چاروں وزرائے اعلیٰ نے اس واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔یہ اچھا پیغام ہے، جو ہماری قومی یکجہتی کو ظاہر کرتا ہے تاہم ایک تو اس معاملے کا انتظامی نقطہ ئ نظر سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے، آخر وہ کیا سکیورٹی کی کمزوریاں ہیں جن سے فائدہ اٹھا کر مٹھی بھر دہشت گرد ایسی گھناؤنی کارروائی کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ بلوچستان کا ایک خاص علاقہ ہے جہاں ایسی دہشت گردی ہوتی ہے،پہلے بھی اسی نوعیت کی وارداتیں ہو چکی ہیں اب سنا ہے بلوچستان حکومت نے شاہراہوں پر چوکیاں بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ اچھا اقدام ہے تاہم اصل بات یہ ہے دہشت گرد کہاں سے نکلتے ہیں اور کہاں غائب ہو جاتے ہیں۔انٹیلی جنس ایجنسیوں کو اُن کے ٹھکانوں تک پیچھا کرنا چاہئے۔ بلوچستان کا رقبہ بہت بڑا ہے تاہم بلوچ عوام کی شراکت سے ایک ایسا مربوط اور منظم نیٹ ورک بنایا جا سکتا ہے جو اِن دہشت گردوں کے لئے پناہ گاہوں کا حصول ناممکن بنا دے۔ اس مسئلے کا دوسرا پہلو سیاسی ہے اِس حوالے سے بلوچ رہنماؤں کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے۔ انہیں اپنے حقوق کی بات ضرور کرنی چاہئے۔یہ اُن کا جمہوری حق ہے تاہم انہیں ایسے واقعات کی بھی دِل کھول کر مذمت کرنی چاہئے،جو اس تاثر کو جنم دینے کی مذموم کوششوں کا حصہ ہیں کہ بلوچستان میں پنجاب کے خلاف نفرت موجود ہے۔چند ماہ پہلے جب بلوچستان سے مسنگ پرسنز کی بازیابی کے لئے خواتین کا جلوس لے کر ماہرنگ پنجاب آئی تھیں تو اُن کا بھرپور استقبال ہوتا تھا۔ بلوچستان سے پنجاب کے علاقے میں داخل ہوتے ہی انہیں عوام نے پذیرائی بخشی تھی۔پنجاب ایک ایسا صوبہ ہے جس نے ہمیشہ بڑے بھائی کا کردار ادا کیا ہے۔ پنجاب کا کوئی ایک حصہ بھی ایسا نہیں جہاں بلوچستان کے بھائیوں نے مقامی افراد سے باہمی شیر و شکر کے ساتھ رہنے کی اعلیٰ مثالیں قائم نہ کی ہوں۔پنجاب میں آج تک کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا،جس میں نسلی یا صوبائی تعصب کی بنیاد پر کسی کمیونٹی کو نشانہ بنایا گیا ہو۔غالباً یہی وہ یکجہتی ہے جو ملک دشمنوں کو چبھتی ہے اور وہ نوشکی جیسی کارروائی کرتے ہیں۔

سعودی وزیر خارجہ کی قیادت میں وفد 2 روزہ اہم دورے پر آج پاکستان پہنچے گا

بلوچ قوم پرست لیڈر ہوں یا سیاستدان اُن کی پاکستان سے محبت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں،تاہم ضرورت اِس امر کی ہے وہ ایسے واقعات پر کھل کر سامنے آئیں اور دہشت گردی کا شکار ہونے والے پنجابیوں کے لئے کوئٹہ میں احتجاجی مظاہرہ کریں، سیاسی و قوم پرست قوتیں جب ان واقعات کے خلاف احتجاجی آواز اٹھائیں گی تو نہ صرف بلوچستان اور پنجاب کے عوام کو یہ پیغام ملے گا کہ اُن کا مشترکہ دشمن ایک ہے،بلکہ بیرون ملک بھی اس تاثر کو عام کرنے میں مدد ملے گی کہ پاکستان دہشت گردی کا شکار ہے اور اُس میں بھارت کا ہاتھ موجود ہے،جو ہمیشہ پاکستان کو کمزور کرنے کے در پے رہا ہے۔اہل ِ پنجاب کا دِل بڑا ہے وہ واقعات کو کسی خاص عینک سے نہیں دیکھتے،بلکہ اُن کی عینک قومی یکجہتی اور پاکستان کی وحدت سے عبارت ہے۔ایسے شرپسند وہیں پنپتے ہیں جہاں انہیں تعصب کی کھاد ملتی ہے۔ بلوچستان میں احساسِ محرومی موجود ہے،پسماندگی ہے اور غربت ہے۔ان پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان کے سیاست دانوں کو بھی اپنے ذاتی اور چھوٹے مفادات کو ترک کر کے بلوچستان کی ترقی کے لئے کمر بستہ ہونا چاہئے تاکہ بلوچستان کی آزادی کا نعرہ لگانے والے مٹھی بھر شرپسند معصوم ذہنوں کو پراگندہ نہ کر سکیں۔نوشکی کا سانحہ ہمیں پھر آنکھیں کھولنے کا پیغام دے گیا ہے۔

ایران اسرائیل کشیدگی، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس کی اندرونی کہانی منظر عام پر آ گئی

٭٭٭٭٭

QOSHE -        سانحہئ نوشکی، سازش کو سمجھنے کی ضرورت - نسیم شاہد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

       سانحہئ نوشکی، سازش کو سمجھنے کی ضرورت

11 0
15.04.2024

پاکستان کی یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے کے لئے دشمن کی سازشوں کا سلسلہ جاری ہے۔یہ ہمارا بڑا امتحان ہے اور ملک کے اندر بسنے والے محب وطن پاکستانی اِن سازشوں کو سمجھتے ہیں۔پاکستان کی چار اکائیاں ہیں اور عوام کی حد تک ان میں ایک مضبوط اور اٹوٹ تعلق موجود ہے۔شرپسندوں کا ٹارگٹ ہمیشہ یہی رہا ہے کہ اس اٹوٹ تعلق اور یکجہتی کو توڑا جائے،اس لئے واقعات کو ایسا رنگ دینے کی کوشش کی جاتی ہے جو نفرت ابھارے،مگر آفرین ہے پاکستانی عوام پر کہ وہ اِس سازش کا شکار نہیں ہوتے۔کل نوشکی میں اندوہناک سانحہ پیش آیا اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے نو افراد کو بس سے اتار کر شناخت کرنے کے بعد جس طرح قتل کیا گیا،اُس نے ایک مرتبہ پھر تشویش کی لہر دوڑا دی،مجھے کوئٹہ سے ایک بلوچ دوست کا فون آیا انہوں نے ہمدردی کے بول تو کہے ہی ساتھ ہی دلگیر آواز میں یہ صفائی بھی دی کہ اس واقعہ میں کوئی عام بلوچ ملوث نہیں۔ پنجاب ہمارا پیارا صوبہ ہے،پنجابی بلوچی بھائی بھائی ہیں۔یہ مٹھی بھر ملک دشمن ہیں جو ایسی کارروائیاں کرتے ہیں،انہوں نے زور دے کر کہا ایسے واقعات ہماری قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانے کی گھناؤنی سازش ہیں،مگر ہم اسے کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔اس سانحے میں بچ جانے والے ایک نوجوان نے بتایا کہ دو افراد بس میں داخل ہوئے، انہوں نے پوچھا کون کون پنجابی ہیں،ایران روز گار کے لئے جانے والے محنت کش نوجوانوں میں سے نو کو بس سے نکالا اور ڈرائیور کو آگے جانے کا کہا۔اس موقع پر انہوں نے ایک جملہ کہا ”پنجابی ہمارے لوگوں کے قاتل ہیں“۔اس کے بعد یہ اطلاع ملی کہ بس سے اتارے جانے والے نوجوانوں کو قتل کر دیا گیا ہے اب یہاں یہ بات نوٹ کرنے کی ہے دہشت........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play