بہاول نگر واقعہ انتہائی افسوس ناک اور اس کی انکوائری ہورہی ہے۔ تاکہ اصل حقائق کو منظرِ عام پر لایا جا سکے اور قانون کی خلاف ورزی اور اختیارات کے غلط استعمال کرنے والے ذمہ داران کا تعین کیا جا سکے۔پولیس افسران کو سوچنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہوا ہے لیکن یہ روایتی پولیس کلچر کا ردعمل ہے۔جو بحرحال کسی طاقتور کی طرف سے ہی آسکتا تھا۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ پولیس شریفانہ طریقے سے تفتیش کی غرض سے وہاں گئی ہو اور جواب میں یہ سب کچھ اچانک سے ہو گیا ہو۔ مشاہدہ کیا جائے تو پنجاب میں شاید ہی کوئی پولیس اسٹیشن ایسا ہو جو قانون کے مطابق ایمانداری سے اپنے فرائض سر انجام دے رہا ہو۔ یہاں آسانی سے ایف آئی آر درج ہوتی ہے نہ بروقت اور میرٹ پر شکایات کا ازالہ ہوتا ہے۔ ایس ایچ او سے لے کر کانسٹیبل تک سب رشوت کی دلدل میں گردن تک دھنسے ہوئے ہیں۔ ایک فریق سے پیسے لے کر دوسرے کو تشدد کا نشانہ بنانا کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ یہاں مدعی کارروائی کے لیے اور ملزم بچاؤ کے لیے پولیس کو نذرانہ پیش کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ پولیس کی وردی اہلکاروں کی اے ٹی ایم بنی ہوئی ہے۔ پولیس کا رشوت کلچر انصاف کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ بروقت اور درست زاویے سے شہادت اکٹھی ہو کر عدالت میں پیش نہیں ہوتی جس کی وجہ سے مظلوم کی داد رسی نہیں ہو پاتی۔ ایسی کہانیاں بھی سننے میں آتی ہیں کہ تفتیشی افسر بڑی مہارت سے مدعی اور ملزم دونوں سے نذرانہ وصول کرتا ہے۔ہمارے ایک ڈاکٹر دوست جن کا گھر پولیس تھانے اور ڈی ایس پی آفس سے چند گز کے فاصلے پر ہے کچھ عرصہ پہلے ان کے گھر مسلح افراد نے ڈکیتی کی واردات کی۔ راقم نے خود ان کی درخواست لکھی اور فرنٹ ڈیسک میں جمع کروائی۔ متعلقہ ایس ایچ او نے فرمایا کہ آپ لوگ بالکل بے فکر ہو جائیں ہم دیکھتے ہیں۔ مدعی کو لولی پاپ دے کر درخواست کو فریقین کے درمیان لین دین کا تنازع بنا کر نمٹا دیا گیا۔ پولیس نے کلینک کے سی سی ٹی وی کیمرہ کے ریکارڈ کا مشاہدہ کرنے اور محلے سے شہادت جمع کرنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی۔

ٹرین میں پولیس اہلکار کے تشدد کا نشانہ بننے والی خاتون کی لاش برآمد، تہلکہ خیز انکشاف

پولیس کے اس رویے سے ایماندار اور انسان دوست ڈاکٹر صاحب بہت دل گرفتہ ہوئے۔ سماج میں مجرم ذہنیت کی پرورش میں روایتی پولیس کلچر کا بہت دخل ہے۔ اگر کسی کو یقین نہیں آتا تو معاشرے میں موجود بدمعاشوں کی آپ بیتیوں کا مشاہدہ کر کے دیکھ سکتا ہے۔بہاول نگر واقعہ نے پولیس کلچر کو بری طرح عیاں کر دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پولیس بطور ادارہ اس واقعے سے سبق حاصل کرکے اپنا قبلہ درست کرنے کے لیے تیار ہوگی؟ عام شہری اس واقعے سے بہت خوش ہیں جو ریاست اور قانون نافذ کرنے والے اہم ترین ادارے کے لیے انتہائی لمحہ فکر ہے۔ ہم پولیس کو درپیش اندرونی و بیرونی مسائل سے بھی انکاری نہیں ہیں ہم ان کے جلد از جلد حل کے لیے آواز بلند کرتے آرہے ہیں۔ پولیس اور فوج کے درمیان معاملات طے ہو جانے کے بعد زندہ باد کے نعروں کا تبادلہ کافی نہیں ہے۔ اصل کام پولیس پر عوام کے اعتماد کی بحالی ہے جو دراصل انصاف کی فراہمی کی طرف اہم پیش رفت ہو گی۔اس واقعہ کے بعد اتنی گرد اچھالی گئی کہ رہے خدا کا نام۔حقیقت حال یہ ہے کہ یہ سارا واقعہ ہی چند پولیس اہلکاروں میں موجود کالی بھیڑوں کا ہے جو پنجاب بھر میں اس محکمے کو بدنام کرنے میں کو دقیقہ فروگزاشت نہیں رکھتے، چند ٹکوں کی خاطر کسی کے بھی گھر میں گْھس جانا بندوں کو اٹھانا خواتین کی تذلیل کرنا اور رہائی کے نام سے بھتہ وصول کرنا، سمگلنگ کرانا، جوئے، شراب کے اڈے چلانا منشیات کا دھندہ کرانا اس فورس کے چند افراد کا کام ہے لیکن اس میں پوری فورس کو ملوث قرار دینا کہیں بھی درست نہیں ہے پولیس کے ایماندار افسران و اہلکاروں نے عوام کے تحفظ کے لیے وہ وہ گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں اور جام شہادت نوش کیے ہیں کہ جس سے ہمارا سر فخر سے بلند ہوجاتا ہے شائد۔اب اس واقعہ پر جے آئی ٹی بن گئی ہے جو واقعات کی صحیح معنوں میں تحقیق کرے گی اور ذمہ داران کو کو قرار واقعی سزا دے گی، یہ ایک واقعہ ہمارے پولیس افسران کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے کہ وہ اپنے اندر موجود کالی بھیڑوں کی نشاندہی کرکے فورس کو اس سے پاک کریں بظاہر نظر آنے والا یہ واقعہ ہمارے دونوں معزز اداروں کے لیے ایک امتحان ہے۔

13 سال کی عمر میں اسلام آباد سے اغواء ہونے والی لڑکی کو 16 سال بعد کہاں سے بازیاب کروالیا گیا ؟

QOSHE -       بہاول نگر واقعہ اداروں کی جنگ یا پروپیگنڈہ - یونس باٹھ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

      بہاول نگر واقعہ اداروں کی جنگ یا پروپیگنڈہ

10 0
15.04.2024

بہاول نگر واقعہ انتہائی افسوس ناک اور اس کی انکوائری ہورہی ہے۔ تاکہ اصل حقائق کو منظرِ عام پر لایا جا سکے اور قانون کی خلاف ورزی اور اختیارات کے غلط استعمال کرنے والے ذمہ داران کا تعین کیا جا سکے۔پولیس افسران کو سوچنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہوا ہے لیکن یہ روایتی پولیس کلچر کا ردعمل ہے۔جو بحرحال کسی طاقتور کی طرف سے ہی آسکتا تھا۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ پولیس شریفانہ طریقے سے تفتیش کی غرض سے وہاں گئی ہو اور جواب میں یہ سب کچھ اچانک سے ہو گیا ہو۔ مشاہدہ کیا جائے تو پنجاب میں شاید ہی کوئی پولیس اسٹیشن ایسا ہو جو قانون کے مطابق ایمانداری سے اپنے فرائض سر انجام دے رہا ہو۔ یہاں آسانی سے ایف آئی آر درج ہوتی ہے نہ بروقت اور میرٹ پر شکایات کا ازالہ ہوتا ہے۔ ایس ایچ او سے لے کر کانسٹیبل تک سب رشوت کی دلدل میں گردن تک دھنسے ہوئے ہیں۔ ایک فریق سے پیسے لے کر دوسرے کو تشدد کا نشانہ بنانا کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ یہاں مدعی کارروائی کے لیے اور ملزم بچاؤ کے لیے پولیس کو نذرانہ پیش کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ پولیس کی وردی اہلکاروں کی اے ٹی........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play