بہاولنگر میں جوکچھ ہوا بحیثیت پاکستانی مجھے اس پر دکھ بھی ہے اور شرمندگی بھی۔ یقینا یہ دو قومی اداروں کی لڑائی ہرگز نہیں تھی اسے انفرادی سطح پر بعض افراد نے اپنے غیر ذمہ دارنہ رویے کی وجہ سے اتنا سنگین بنا دیا۔ بڑی اچھی بات ہے آئی ایس پی آر کے ترجمان اور دوسری طرف آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے اس کے بارے میں وضاحتی بیان جاری کئے ہیں۔ معاملے کو جسطرح اعلیٰ سطح پر سنبھالا گیا ہے وہ قابل ستائش ہے۔ البتہ سوشل میڈیا کے ذریعے اس واقعہ کی جو منفی باتیں عوام تک پہنچی ہیں ان کا اثر زائل کرنے کے لئے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ خالی خولی بیانات سے بات نہیں بنے گی، اچھی بات ہے کہ دونوں طرف ے اس حقیقت کو تسلیم کیا گیا ہے کہ اختیارات کا افراد کی سطح پر غیر قانونی استعمال ہوا ہے جو کچھ عمل ہوا اس کے ردعمل میں بھی کوئی قابلِ ستائش فیصلے نہیں کئے گئے۔ یقین سے کہاجا سکتا ہے، اس واقعہ کو افواج پاکستان کی قیادت اور پنجاب پولیس کے اعلیٰ افسر ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر لیں گے۔ طاقت کو ثابت کرنا مقصود نہیں ہونا چاہیے بلکہ توجہ اس بات پر دی جانی چاہیے کہ قانون کی عملداری قائم ہو۔پنجاب پولیس کے سربراہ نے جو وڈیو بیان جاری کیا ہے، اس سے لگتا ہے انہیں اپنی فورس کے مورال گرنے کا ڈر ہے۔ وہ مختلف تاویلات کے ذریعے انہیں باور کرا رہے ہیں کہ پچھلے دو برسوں میں ان کی بہتری کے لئے بہت کچھ کیا گیا ہے۔

امریکہ نے اسرائیل پر حملے کے لیے آئے ایرانی ڈرون طیارے مار گرائے، ایران کی امریکہ کو تنبہ

پولیس کو یہ سوچنا چاہیے کہ اس واقعہ میں بظاہر مظلوم ہونے کی وجہ کے باوجود اس کے لئے عوامی ہمدردی کیوں پیدا نہیں ہوئی۔پولیس نے اپنا امیج بہتر بنانے کے لئے کبھی عملی اقدامات پر توجہ نہیں دی۔ تھانوں کو چمکا دیا گیا اور گاڑیاں نئی لے کر دی گئیں مگر تھانہ کلچر کو تبدیل نہیں کیا جا سکا۔ پولیس کا چہرہ آج بھی ظالم کا ہے، جبکہ بہاولنگر کے واقعہ میں وہ مظلوم نظرآتی ہے کہ ابھی تو جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم اس سارے معاملے کا جائزہ لے گی۔کس طرف سے کیا ہوا، کس نے کیا کردار اد اکیا، چنگاری کس نے بھڑکائی، شعلہ کیسے بنی، کس نے اسے ادارہ جاتی رنگ دینے کی کوشش کی،یہ سب باتیں تحقیق کے بعد ہی کھلیں گی۔ تاہم کہیں نہ کہیں کوئی بہت بڑی غلطی ہوئی ہے، حد سے تجاویز کیا گیا ہے، اختیارات کو اپنے غصے اور جذبات کے تابع کرکے ان کا استعمال ہوا ہے، وگرنہ ایسا واقعہ کسی صورت رونما ہو ہی نہیں سکتا تھا۔

ایران کے حملے کے بعداسرائیلی فوج کا پہلا رد عمل سامنے آگیا

جب بڑے واقعات ہو جاتے ہیں تو لکیر پیٹنے کی بجائے ان سے سبق سیکھا جاتا ہے، سبق سیکھنا اس لئے ضروری ہے کہ ہم نے اس ملک کو چلانا ہے، کسی ایک واقعہ کو بنیاد بنا کر سب کچھ لپیٹ نہیں دینا۔ پولیس اگر اس واقعہ سے ہی سبق حاصل کر لے کہ اس نے آئندہ بغیر قانونی تقاضے پورے کئے کسی کے گھر میں داخل نہیں ہونا تو یہ بہت بڑی بات ہوگی۔ پچھلے ایک سال کے عرصے میں پنجاب پولیس نے سیاسی حوالے سے استعمال ہوتے ہوئے،جو کچھ کیا غالباً یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ بہاولنگر پولیس کا ایس ایچ او اختیارات کے بے دریغ استعمال کا عادی ہو گیا۔ دوسری اہم بات پولیس کی طرف سے جھوٹے مقدمات اور پھر ان کے نتیجے میں گرفتاریاں، رشوت کا بازار گرم کرنا، بندے اُٹھا لینا، ایک بڑی خرابی ہے۔ بہاولنگر کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں، ان کے مطابق تھانہ مدرسہ کی ایک چوکی لاقانونیت کی آماجگاہ ہے۔ آج سے نہیں عرصہ دراز سے اعلیٰ پولیس افسر بھی اس سے آگاہ ہیں، مگر اصلاحِ احوال کے لئے کچھ نہیں کیا جاتا، تاوقتیکہ یہ واقعہ ہو جاتا ہے۔پولیس گردی کی اصطلاح ہوا میں تخلیق نہیں ہوئی، اس کا تعلق ہمارے زمینی حقائق سے ہے، کتنے ہی تجربے ہو چکے مگر پولیس کو قانون پسند اور مہذب ممالک جیسی پولیس نہیں بنایا جا سکا تاہم ایک زیادتی کے جواب میں جو طریقہ اختیار کیا گیا وہ بھی بدترین مثال کے زمرے میں آتا ہے۔

اسرائیل پر ایران کا حملہ ، اردن، شام، لبنان اور عراق نے اپنی فضائی حدود بند کردی

آج جن اعلیٰ پولیس افسروں یعنی ڈی پی او بہاولنگر اور آرپی او بہاولپورکے ساتھ مل کر یکجہتی کے نعرے لگائے جا رہے ہیں۔سوال یہ ہے ایس ایچ او نے اگر زیادتی کی تھی، اختیارات سے تجاوز کیا تھا، رشوت مانگی تھی، ظلم کے پہاڑ توڑے تھے، تو ان کے نوٹس میں یہ حقائق کیوں نہیں لائے گئے۔ کیا واقعی ایس ایچ او اتنا منہ زور تھا کہ اس کے آگے افسر بھی بے بس ہو گئے تھے۔ پولیس آرڈر میں توواضح لکھا ہے اگر کوئی پولیس اہلکار اختیارات سے تجاوز کرتا ہے تو اس کے خلاف نہ صرف محکمانہ بلکہ فوجداری کارروائی بھی کی جا سکتی ہے، یہ راستہ اختیار کرنے کی بجائے طاقت کی زبان سے جواب دینے کا طریقہ کیوں اختیار کیا گیا؟ یہ اہم سوال ہے اور اس کے حوالے سے تحقیق ہونی چاہیے۔ آئی ایس پی آر کے بیان میں بالکل درست کہا گیا ہے کہ اس ایک واقعہ کی وجہ سے دہشت گردوں، قانون شکنوں اور ملک دشمنوں کے خلاف سول و عسکری فورسز کے آہنی عزم میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امن و امان برقرار رکھنے اور دہشت گردوں سے نمٹنے کے لئے ہماری فورسز نے بے انتہا قربانیاں دی ہیں، اس مشترکہ اثاثے کو کسی ایک بے تدبیرانہ واقعہ کی وجہ سے نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔ مہذب ملکوں میں جہاں قانون اور آئین کی حکمرانی ہوتی ہے، کوئی ٹکراؤ اس لئے جنم نہیں لیتا کہ سب کو اپنی حدود و قیود کا علم ہوتا ہے۔ اس حقیقت کو پس پشت ڈالنے سے انارکی پھیلتی ہے جس کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے۔

ایران نے اسرائیل پر حملہ کر دیا، ڈرون اور کروز میزائلز فائر

تمام تر کمی اور کوتاہیوں کے باوجود پولیس ہمارا ناگزیر ادارہ ہے،آج بھی کسی ویرانے پر جاتے ہوئے پولیس کی گاڑی یا پولیس اہلکاروں کو دیکھ کر تحفظ کا احساس ہوتا ہے، ضرورت اس امر کی ہے پولیس کے افسر و جوان اس بات کو سمجھیں کہ یکطرفہ ٹریفک چلانے سے وہ احترام نہیں مل سکتا جو دوطرفہ اقدامات سے ملتا ہے، اس بات کو بھی پلے باندھنے کی ضرورت ہے کہ وردی پہن کر طاقت کے گھمنڈ میں مبتلا ہونے کی بجائے ذمہ داری کا احساس اجاگر ہونا چاہیے۔ پولیس نے تھانے خوبصورت بنا لئے ہیں تو اپنا مفہوم بھی خوبصورت بنائے، لوگوں کو احساسِ تحفظ دے، نہ کہ خوفزدہ کرکے ان سے مال بٹورے۔ افسروں کا بھی کام ہے وہ اپنے کام میں جدت لائیں، مکھی پر مکھی مارنے کی بجائے اپنے کنٹرولنگ نظام کو بہتر کریں اگر کوئی ضلعی افسر اس بات سے بے خبر ہے کہ اس کے ضلع کے کسی تھانے میں ایس ایچ او بندے اٹھا کر ان سے بھاری رشوت طلب کر رہا ہے تو اسے افسری کا کوئی حق نہیں۔ پھر تو یہی سمجھا جائے گا کہ سب کچھ اس کی مرضی سے ہو رہا ہے۔ بہاولنگر میں جو کچھ ہوا وہ صریحاً اس بات کا ثبوت ہے کہ ڈی پی او اپنی ڈیوٹی سے غافل تھے۔ جب سب کچھ ہو رہا تھا تو ان کے علم میں کیوں نہیں آیا۔ جب لاوا پھٹ گیا۔دونوں طرف سے قانون شکنی کی تمام حدیں پار کر لی گئیں تو وہ بیدار ہوئے۔ بہرحال یہ واقعہ جہاں قومی اداروں کو خود احتسابی کا درس دیتا ہے، وہاں اس تلخ حقیقت کو بھی آشکار کرتا ہے کہ ہمارے محکموں کے نظام میں بھی کئی خلاء موجود ہیں، جنہیں حکمت اور ذمہ داری سے پر کرنا ضروری ہے، تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات سے بچا جا سکے۔

ائیرپورٹ پر بچی سے ناروا سلوک پر اے ایس ایف افسر نوکری سے برطرف

QOSHE -  معاشرے کی ڈھال، طاقت نہیں قانون - نسیم شاہد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

 معاشرے کی ڈھال، طاقت نہیں قانون

13 0
14.04.2024

بہاولنگر میں جوکچھ ہوا بحیثیت پاکستانی مجھے اس پر دکھ بھی ہے اور شرمندگی بھی۔ یقینا یہ دو قومی اداروں کی لڑائی ہرگز نہیں تھی اسے انفرادی سطح پر بعض افراد نے اپنے غیر ذمہ دارنہ رویے کی وجہ سے اتنا سنگین بنا دیا۔ بڑی اچھی بات ہے آئی ایس پی آر کے ترجمان اور دوسری طرف آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے اس کے بارے میں وضاحتی بیان جاری کئے ہیں۔ معاملے کو جسطرح اعلیٰ سطح پر سنبھالا گیا ہے وہ قابل ستائش ہے۔ البتہ سوشل میڈیا کے ذریعے اس واقعہ کی جو منفی باتیں عوام تک پہنچی ہیں ان کا اثر زائل کرنے کے لئے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ خالی خولی بیانات سے بات نہیں بنے گی، اچھی بات ہے کہ دونوں طرف ے اس حقیقت کو تسلیم کیا گیا ہے کہ اختیارات کا افراد کی سطح پر غیر قانونی استعمال ہوا ہے جو کچھ عمل ہوا اس کے ردعمل میں بھی کوئی قابلِ ستائش فیصلے نہیں کئے گئے۔ یقین سے کہاجا سکتا ہے، اس واقعہ کو افواج پاکستان کی قیادت اور پنجاب پولیس کے اعلیٰ افسر ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر لیں گے۔ طاقت کو ثابت کرنا مقصود نہیں ہونا چاہیے بلکہ توجہ اس بات پر دی جانی چاہیے کہ قانون کی عملداری قائم ہو۔پنجاب پولیس کے سربراہ نے جو وڈیو بیان جاری کیا ہے، اس سے لگتا ہے انہیں اپنی فورس کے مورال گرنے کا ڈر ہے۔ وہ مختلف تاویلات کے ذریعے انہیں باور کرا رہے ہیں کہ پچھلے دو برسوں میں ان کی بہتری کے لئے بہت کچھ کیا گیا ہے۔

امریکہ نے اسرائیل پر حملے کے لیے آئے ایرانی ڈرون طیارے مار گرائے، ایران کی امریکہ کو تنبہ

پولیس کو یہ سوچنا چاہیے کہ اس واقعہ میں بظاہر مظلوم ہونے کی وجہ کے باوجود اس کے لئے عوامی ہمدردی کیوں پیدا نہیں ہوئی۔پولیس نے اپنا امیج بہتر بنانے کے لئے کبھی عملی اقدامات پر توجہ نہیں دی۔ تھانوں کو چمکا دیا گیا اور گاڑیاں نئی لے کر........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play