1988ء میں بے نظیر حکومت نے فوجی عدالتوں سے اپنے سزا یافتہ کارکنان کی سزائیں، معافی کے صدارتی اختیار کے تحت کم کرائی یا معاف کرا دیں۔ سزا یافتگان میں بم دھماکے کرنے والے بھی تھے۔ راولپنڈی کشمیری بازار میں علی فٹ بالر نے دھماکہ کیا۔ 30 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔ ان مجرموں کی سزاؤں میں جب کمی ہوئی یا سزائیں معاف کی گئیں تو لواحقین نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا کہ دستور کے آرٹیکل 2 الف کے تحت تمام قوانین کا سرچشمہ اسلام ہے۔ متاثرین یا لواحقین ہی مجرم کو معاف کر سکتے ہیں۔ آرٹیکل 45 کے تحت معاف کرنے کے فیصلے کی کوئی وقعت نہیں ہے، لہٰذا مجرموں کی سزائیں بحال کی جائیں۔ کورٹ نے اپیل منظور کرکے سزائیں بحال کر دیں۔

امریکہ نے اسرائیل پر حملے کے لیے آئے ایرانی ڈرون طیارے مار گرائے، ایران کی امریکہ کو تنبہ

بے نظیر حکومت نے سپریم کورٹ میں اپیل کر دی۔ نکتہ یہ تھا کہ آرٹیکل 45 صدر کو سزائیں معاف کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ سزائیں اسی اختیار کے تحت معاف کی گئی ہیں۔ ادھر اسلامی تعلیمات کے تحت معاف کرنے کا اختیار متاثرین یا لواحقین کے پاس ہے۔ دوران سماعت میں یہ نکتہ سامنے آیا کہ آرٹیکل 2 الف اور آرٹیکل 45 میں تضاد ہے، لیکن قانون کا مسلمہ اصول ہے کہ آئین مکمل دستاویز ہوتی ہے۔ اس میں تضاد نہیں, بظاہر تضاد ہو سکتا ہے جسے دور کرنا عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔ عدلیہ یہ کام تعبیر النصوص(interpretation of statutes)کے اصولوں کے سہارے کرتی ہے. ایک اصول یہ ہے کہ آئین کو بحیثیت کل لیا جاتا ہے۔ کرافورڈ کے خیال میں آئین میں تضاد ہوتا ہی نہیں، دیکھنے والے کو نظر آتا ہے۔ عدلیہ آئین کو بحیثیت کل دیکھ کر واضح کرتی ہے کہ یہ تضاد نہیں بلکہ آئین کا مفہوم یوں ہے۔

ایران کے حملے کے بعداسرائیلی فوج کا پہلا رد عمل سامنے آگیا

مختصرا یہ کہ دستور کے بظاہر تضادات دور کرنے کو عدلیہ کے پاس لگ بھگ چھ طریقے ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے ایک طریقہ بھی اختیار نہ کر کے فیصلہ دیا کہ دستور کے آرٹیکل میں کسی کو تضاد نظر آتا ہے تو تضاد پارلیمان دور کر سکتی ہے، پارلیمان سے رجوع کیا جائے۔ ہمارے پاس تضاد دور کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ یہ فیصلہ آنے پر میں نے ایک اور سینئر جسٹس کی رائے جاننا چاہی تو انہوں نے بے اعتنائی سے کہا: "کون سا فیصلہ؟ میری رائے؟ ارے, یہ ایک احمقانہ سی رائے ہے بس". واقعتا یہ آئینی نہیں, ایک سیاسی فیصلہ تھا. اس میں چیف نے اسلام پسندوں سے دامن بچاتے ہوئے انہیں پارلیمان جانے کا مشورہ دیا۔ بے دین عناصر کو اس کی مدد سے یہ تسلی دینے کی کوشش کی کہ آئین میں جتنا مرضی اسلام ڈالو، بھلے ڈالتے رہو، ہوگا وہی جو ہم چاہیں گے، لیکن ہوا یہ کہ جسٹس موصوف اسلام پسندوں اور بے دین عناصر دونوں کے اطمینان سے محروم رہ کر آج دونوں سے ملاحیاں ہی لے رہے ہیں۔

اسرائیل پر ایران کا حملہ ، اردن، شام، لبنان اور عراق نے اپنی فضائی حدود بند کردی

اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا کہ خفیہ ادارہ پسندیدہ فیصلے حاصل کرنے کو ہم پر بے پناہ دباؤ ڈالتا ہے۔یہ خط خفیہ ادارے کے خلاف چارج شیٹ تھی، اسی ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت صدیقی نے اسی خفیہ ادارے کے خلاف وہی کچھ کہا تھا جو اب ان چھ ججوں نے لکھا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے تمام ججوں کے مشورے سے وزیراعظم سے ملنے کی خواہش کی۔ وزیراعظم، وزیر قانون اور اٹارنی جنرل چیف اور ان کے ساتھیوں سے ملے، یک رکنی کمیشن کا فیصلہ ہوا، لیکن کمیشن کے مجوزہ سربراہ نے معذرت کر دی۔ پھر وکلا تنظیموں کے دباؤ پر چیف جسٹس کو از خود نوٹس لینا پڑا۔ ادھر وسیع سیاسی خلیج نے ملک بھر کو لپیٹ میں لے رکھا ہے، جس کے دو کناروں پر دو واضح نقطہ ہائے نظر سامنے آ چکے تھے۔ ایک یہ کہ خفیہ ادارے نے ججوں پر دباؤ ڈالا، جج کے گھر کریکر پھینکا گیا، جج کا برادر نسبتی اغوا کیا گیا،جج اختلاج قلب کے مارے ہسپتال جا پہنچے، جج کی خواب گاہ سے خفیہ کیمرہ برامد ہوا،لہٰذا عدلیہ خفیہ ادارے کے خلاف فوری کارروائی کرے۔

ایران نے اسرائیل پر حملہ کر دیا، ڈرون اور کروز میزائلز فائر

دوسرا نقطہ نظر دوسری انتہاء پر تھا۔ جسٹس شوکت صدیقی نے جب یہی شکایت کی تو انہی چار ججوں نے ان سے قطع تعلق کر لیا، ان کا ساتھ کیوں نہ دیا۔ تجزیہ نگاروں نے فیصلوں کا تجزیہ کر کے ایک جج کے فیصلے یکطرفہ قرار دیے کہ وہ ایک سیاسی رہنماء کے مقدمات میں جج رہے تو یکطرفہ فیصلے کرتے رہے۔ یہ خط اپنے چیف جسٹس کے خلاف بھی الزام قرار دیا گیا اور یہ کہ سپریم جوڈیشل کونسل صرف ججوں کے خلاف کارروائی کی مجاز ہے، خفیہ ادارے کے خلاف کونسل کو خط لکھنا غلط ہے، خط افشا کس نے کیا؟ کونسل کو ملنے سے قبل یہ خط امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ تک کس نے پہنچایا؟ متعدد دیگر الزامات کی بنیاد پر اس دوسرے نقطہ نظر کا مطالبہ یہ رہا کہ یہ چھ جج مخصوص سیاسی نقطہ نظر رکھتے ہیں۔لہٰذا انہیں کسی سیاسی جماعت یا شخصیت کا مقدمہ ہرگز نہ دیا جائے۔

ائیرپورٹ پر بچی سے ناروا سلوک پر اے ایس ایف افسر نوکری سے برطرف

یہ دونوں نقطہ نظر وزن رکھتے ہیں۔ چیف جسٹس کو دونوں پر غور کر کے دونوں قسم کے الزامات کا انسداد کرنا چاہئے تھا تاکہ عدلیہ کا وقار بحال ہوتا لیکن ان کا حکمنامہ جن نکات سے لبریز ہے وہ بالکل کچھ اور نکلے۔چھ ججوں نے خفیہ ادارے کے مظالم کی شکایت کی لیکن حکمنامے میں کارروائی کی بجائے ذی غرض (stakeholder) سے آئندہ کے لئے تجاویز مانگی گئی ہیں، ججوں نے اپنے گھروں پر حملوں، اغوا، ذہنی اذیت خواب گاہ میں خفیہ کیمرے کی تنصیب وغیرہ کی شکایت کی، لیکن حکمنامہ ان کے ذکر سے خالی ہے۔ ججوں کے سیاسی میلانات بتا کر انہیں سیاسی مقدمات سے دور رکھنے کا نکتہ بھی حکمنامے سے غائب ہے۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو کونسل سے پہلے خط کیسے ملا یہ ذکر بھی نہیں ہے۔ چنانچہ عوام کو چھوڑیں خود جسٹس یحییٰ آفریدی نے اس فیصلے کا حصہ بننے سے معذرت کر دی۔ جسٹس اطہر نے بھرپور اختلافی رائے لکھی۔ یوں چیف جسٹس قاضی فائز عیسی، چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے کندھے سے کندھا ملائے ہماری آئندہ نسلوں کو تاریخ کے عدالتی کٹہرے میں دونوں اکٹھے کھڑے نظر آئیں گے۔

عوام کے لیے خوشخبری، آٹے کے بعد روٹی کی قیمت میں بھی کمی کا امکان

یہ حکم نامہ پہلا نقطہ نظر رکھنے والوں کے لیے سامان بیچارگی ہے۔ گھروں پر حملے، اغوا، ذہنی اذیت، خواب گاہوں میں خفیہ کیمرے، ذہنی اذیت، دباؤ، بھلے کچھ بھی ہو، چیف جسٹس کرسی پیچھے کھینچے جانے کے منتظر رہیں گے تاکہ ریٹائرنگ روم میں کافی کے جرعے لئے جائیں۔یہ فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کے یکطرفہ فیصلوں کے سعد رفیق، نواز شریف جیسے ستائے لوگوں کے لیے بھی سامان بیچارگی ہے۔ ان دو یکسر مختلف نقطہ ہائے نظر کو مدعی اور مدعا علیہ کہا جائے تو اس حکم نامے سے دونوں نالاں ہیں، لیکن ہم کولہو کے بیلوں کے لئے نسیم حسن شاہ نے جو ننھا سا دائرہ کھینچا تھا، قاضی فائز عیسیٰ نے اسے وسیع تر کر دیا ہے۔ مدعی، مدعا علیہ اور جج، تینوں امر بیل میں جکڑے آسیب زدہ تکونی دائرے کے مسافر۔ صور اسرافیل کے منتظر مسافر۔

QOSHE - جسٹس نسیم تا جسٹس عیسیٰ دائروں کا سفر - ڈاکٹر شہزاد اقبال شام
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

جسٹس نسیم تا جسٹس عیسیٰ دائروں کا سفر

10 0
14.04.2024

1988ء میں بے نظیر حکومت نے فوجی عدالتوں سے اپنے سزا یافتہ کارکنان کی سزائیں، معافی کے صدارتی اختیار کے تحت کم کرائی یا معاف کرا دیں۔ سزا یافتگان میں بم دھماکے کرنے والے بھی تھے۔ راولپنڈی کشمیری بازار میں علی فٹ بالر نے دھماکہ کیا۔ 30 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔ ان مجرموں کی سزاؤں میں جب کمی ہوئی یا سزائیں معاف کی گئیں تو لواحقین نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا کہ دستور کے آرٹیکل 2 الف کے تحت تمام قوانین کا سرچشمہ اسلام ہے۔ متاثرین یا لواحقین ہی مجرم کو معاف کر سکتے ہیں۔ آرٹیکل 45 کے تحت معاف کرنے کے فیصلے کی کوئی وقعت نہیں ہے، لہٰذا مجرموں کی سزائیں بحال کی جائیں۔ کورٹ نے اپیل منظور کرکے سزائیں بحال کر دیں۔

امریکہ نے اسرائیل پر حملے کے لیے آئے ایرانی ڈرون طیارے مار گرائے، ایران کی امریکہ کو تنبہ

بے نظیر حکومت نے سپریم کورٹ میں اپیل کر دی۔ نکتہ یہ تھا کہ آرٹیکل 45 صدر کو سزائیں معاف کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ سزائیں اسی اختیار کے تحت معاف کی گئی ہیں۔ ادھر اسلامی تعلیمات کے تحت معاف کرنے کا اختیار متاثرین یا لواحقین کے پاس ہے۔ دوران سماعت میں یہ نکتہ سامنے آیا کہ آرٹیکل 2 الف اور آرٹیکل 45 میں تضاد ہے، لیکن قانون کا مسلمہ اصول ہے کہ آئین مکمل دستاویز ہوتی ہے۔ اس میں تضاد نہیں, بظاہر تضاد ہو سکتا ہے جسے دور کرنا عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔ عدلیہ یہ کام تعبیر النصوص(interpretation of statutes)کے اصولوں کے سہارے کرتی ہے. ایک اصول یہ ہے کہ آئین کو بحیثیت کل لیا جاتا ہے۔ کرافورڈ کے خیال میں آئین میں تضاد ہوتا ہی نہیں، دیکھنے والے کو نظر آتا ہے۔ عدلیہ آئین کو بحیثیت کل دیکھ کر واضح کرتی ہے کہ یہ تضاد نہیں بلکہ آئین کا مفہوم یوں ہے۔

ایران کے حملے........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play