الیکشن2024ء اور سیاسی مذہبی جماعتیں ملک میں ہونے والے نئے الیکشن کے حوالے سے ایک نہایت اہم پہلو ہے ہماری مذہبی جماعتوں کی اس بار شاید سب سے کم تناسب میں حکومتی ایوانوں میں نمائندگی ہے،جس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔سیاسی جماعتوں کے تحفظات کے باوجود کسی بھی سیاسی جماعت کی طرف سے کوئی موثر اور احتجاج بھی سامنے نہیں اس کا اور اسی تناظر میں مذہبی شناخت رکھنے والی جماعتوں نے بھی اس پر خاموشی ہی مناسب سمجھی۔ تاریخی حقیقت یہی ہے کہ مذہبی جماعتوں کی نمائندگی کبھی بھی اس تناسب سے پارلیمنٹ میں نہیں ہو پائی کہ جسے حوصلہ افزا کہا جا سکے، لیکن اس بار تو جیسے نہ ہونے کے برابر ہے۔ ملک میں سیاسی شناخت رکھنے والی مذہبی جماعتوں کے بھی الگ الگ سیاسی نظریات اور جد و جہد کا انفرادی اور جداگانہ دائرہ ہے۔ چند ایک مسائل پر مختلف مواقع کے علاوہ کبھی بھی کسی ایک پلیٹ فارم پر انھیں یکجا ہوتے ہوئے نہیں دیکھا گیا اور شاید یہی وہ بنیاد ہے جو بتدریج ایوانوں میں اس تناسب تک لے آئی ہے۔ان جماعتوں کو اپنی سیاسی سرگرمیوں کو منظم کرنے کا شاید یہ سب سے بہترین وقت ہے کہ اپنی خامیوں پر بھرپور سوچ بچار کرتے ہوئے آئندہ کا لائحہ عمل طے کریں۔ مذہبی شناخت کی حامل سیاسی جماعتوں کی سب سے بڑی کمزوری انفرادیت اور اکیلا پن ہے، جس میں اب یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ ان حالات میں کسی بھی طرح یہ کوشش بارآور نہیں ہو سکتی۔ اب ایک نظر ان عوامل پر بھی رکھنے کی ضرورت ہے جو مشترکہ سیاسی جدو جہد کی راہ میں رکاوٹ ہیں اور یوں 70فیصد سے زائد مذہبی لگاؤ رکھنے والے عوام یا تو مذہبی جماعتوں پر اعتماد نہیں کرتے یاپھر ان کا ووٹ وہ طاقت نہیں بن پاتا،جس کی ضرورت ہے۔ مذہبی جماعتوں کی لیڈر شپ زیادہ تر اپنے انفرادی نظریات کے زیر سایہ آگے بڑھنے کی کوشش کرتی ہیں اور اس میں دوسروں کے عمل دخل کے آگے ایک آہنی دیوار کھڑی کر دی جاتی ہے، جس کوہٹانے کی سرے سے کوشش ہی نہیں ہوتی۔ نہ دوسروں کے قریب ہونے کی تعمیری کوشش کی جاتی ہے اور نہ کسی کو قریب آنے کے لئے کوئی راستہ دیا جاتا ہے، جس طرح تمام سیاسی جماعتیں اپنے الگ الگ نظریات کے باوجود سیاسی اتحاد کے ذریعے آگے بڑھتی ہیں مذہبی جماعتوں کو بھی نظام کی تبدیلی کے خواب تک اس ماڈل کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے، جس سے بہر حال کچھ نہ کچھ فرق ضرور پڑے گا۔ اس راستے میں بڑی رکاوٹ مذہبی جماعتوں کے مسلکی اختلاف بھی ہیں۔ مذہبی قیادتوں کی اکثریت نے خود کو مسلکی دائرے میں بند کر کے رکھ دیا ہے اور ان جماعتوں کے تعلق رکھنے والے افراد بھی زیادہ تر مسلک کی بنیاد پر ہی اپنا حق استعمال کرتے ہیں اور یہیں سے تقسیم در تقسیم کا عمل شروع ہو جا تا ہے۔ جدید تقاضو ں سے ہم آہنگ دین و دنیا کے امتزاج سے بہرہ مند صاحبان علم کا چناؤ نہ کرنا بھی اِس راستے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ہمارے مسلکی اختلافات کے سبب ہماری نوجوان نسل مذہبی طبقے سے قریب نہیں ہو پاتی جن کو موٹیویٹ کئے بغیر سیاسی کامیابی کا حصول دیوانے کا خواب ہی ہو سکتا ہے۔اگر تمام مسالک کے سربراہان مسلکی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مشترکہ سیاسی جدو جہد کا ارادہ کر لیں تو یہ کامیابی کی پہلی سیڑھی ہو گی۔ اس سے اگلا قدم سیاسی بصیرت کا حصول ہے، جس سے ہماری بیشتر سیاسی جماعتیں دور دکھائی دیتی ہیں۔مدینہ منورہ کی ریاست کے قیام اور اس کے سیاسی اتحاد سیاسی بصیرت اور سیاسی میدان میں رہنمائی کے مکمل نظام فراہم کرتے ہیں۔ ایک اور بہت اہم پہلو غیر سیاسی مذہبی کمیونٹی کو ساتھ ملانا بھی ہے، جس کا دائرہ شاید مذہبی سیاسی جماعتوں سے بھی بڑا ہے۔ یہ لوگ مختلف سیاسی گروہوں میں تقسیم ہیں جس کے سبب مذہبی سیاسی جماعتوں کا ان سے الگ تھلگ رہنا ہے۔ روحانی آستانے بھی بہت بڑی سیاسی قوت ہیں، جن میں سے بہت سے تو براہ راست سیاست سے منسلک ہو کر کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے جڑے ہوئے ہیں اور اپنے عقیدت مندوں کو بھی اسی راہ پر ڈال رکھا ہے۔ اگر بالغ نظری سے یہ طبقہ سیاسی جدو جہد میں مثبت اور بھر پور کردار ادا کرے تو سیاسی ایوانوں کا منظر نامہ تبدیل ہو سکتا ہے۔بڑی بڑی روحانی درگاہوں سے لاکھوں کی تعداد میں عقیدت مند وابستہ ہیں اور ان کے نزدیک آستانے سے نشر ہونے والا پیغام حرفِ آخر کی حیثیت رکھتا ہے جسے مثبت سیاسی قدروں کے فروغ میں استعمال کئے جانے کی ضرورت ہے۔دینی مدارس کا نیٹ ورک بھی بہت بڑی قوت ہے جسے سیاسی میدان میں درست طریقے سے استعمال نہیں کیا جا رہا۔ دین نظریات کو مضبوط کرتا ہے کہ اس کی بنیاد سرا سر سچائی اور حقانیت پر مبنی ہوتی ہے، لیکن یہ مضبوطی آخر کمزوری کیوں بن کر رہ گئی ہے یہ وہ سوال ہے، جس کا جواب کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ وہ جماعتیں جو دین کے نام پر ووٹ لیکر ایک عرصے تک حکومتی ایوانوں کا حصہ رہیں انہیں اپنے ماضی پر ضرور غور و خوض کرتے ہوئے خود کو جواب دہ ہونا چاہئے کہ انہوں نے اپنے حکومتی اختیارات سے دینی اقدار کے فروغ میں کیا کردار ادا کیا۔ وطن عزیز ”لاالہ الا اللہ“ کی بنیاد پر قائم ہوا تھا اور بدقسمتی سے اس کی حقیقی روح تک پہنچنے میں جانے کتنا وقت لگے گا۔ ہماری دینی قیادتوں کو ذاتیات سے بلند تر ہو کر سب سے پہلے نظام پر گرفت کو مضبوط بنانے کی سعی کا آغاز کرنا ہو گا تب ہی اس میں تبدیلی کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ اس کے لئے مسلکی تنگ نظری سے دامن چھڑا کر سیاسی بصیرت، علمی و فکری متانت، قومی و بین الاقوامی حالات کا ادراک، نوجوانوں کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی جیسے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔ دینی بصیرت کے ساتھ سیاسی جدو جہد کرنا جتنا نیک فال ہے اتنا ہی دین کو سیاست کی سیڑھی کے طور پر استعمال کرنا برا ہے۔ علامہ نے فرمایا تھا کہ دین سیاست سے جدا ہو جائے تو چنگیزی بن جاتی ہے اسی طرح اگر دین سیاست کے لئے استعمال ہونے لگے تواسے کیا کہا جائے گا؟

خاتون اور بچوں پر تشدد کرنیوالا پولیس اہلکار گرفتار

QOSHE - انتخابات میں دینی جماعتوں کا حصہ؟ - سرور حسین
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

انتخابات میں دینی جماعتوں کا حصہ؟

10 1
13.04.2024

الیکشن2024ء اور سیاسی مذہبی جماعتیں ملک میں ہونے والے نئے الیکشن کے حوالے سے ایک نہایت اہم پہلو ہے ہماری مذہبی جماعتوں کی اس بار شاید سب سے کم تناسب میں حکومتی ایوانوں میں نمائندگی ہے،جس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔سیاسی جماعتوں کے تحفظات کے باوجود کسی بھی سیاسی جماعت کی طرف سے کوئی موثر اور احتجاج بھی سامنے نہیں اس کا اور اسی تناظر میں مذہبی شناخت رکھنے والی جماعتوں نے بھی اس پر خاموشی ہی مناسب سمجھی۔ تاریخی حقیقت یہی ہے کہ مذہبی جماعتوں کی نمائندگی کبھی بھی اس تناسب سے پارلیمنٹ میں نہیں ہو پائی کہ جسے حوصلہ افزا کہا جا سکے، لیکن اس بار تو جیسے نہ ہونے کے برابر ہے۔ ملک میں سیاسی شناخت رکھنے والی مذہبی جماعتوں کے بھی الگ الگ سیاسی نظریات اور جد و جہد کا انفرادی اور جداگانہ دائرہ ہے۔ چند ایک مسائل پر مختلف مواقع کے علاوہ کبھی بھی کسی ایک پلیٹ فارم پر انھیں یکجا ہوتے ہوئے نہیں دیکھا گیا اور شاید یہی وہ بنیاد ہے جو بتدریج ایوانوں میں اس تناسب تک لے آئی ہے۔ان جماعتوں کو اپنی سیاسی سرگرمیوں کو منظم کرنے کا شاید یہ سب سے بہترین وقت ہے کہ اپنی خامیوں پر بھرپور سوچ بچار کرتے ہوئے آئندہ کا لائحہ عمل طے کریں۔ مذہبی شناخت کی حامل سیاسی جماعتوں کی سب سے بڑی کمزوری انفرادیت اور اکیلا پن ہے، جس میں اب یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ ان حالات میں کسی بھی طرح یہ کوشش بارآور نہیں ہو سکتی۔ اب........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play