نئے کپڑے نہیں سفید کفن
میرا کسی کی عید خراب کرنے کا ارادہ ہر گز نہیں،کل تو میں نے روزہ رکھنے کے بعد بازاروں میں جتنا رش دیکھا، جس طرح لوگ عید کی خریداری کر رہے تھے، اُسے دیکھتے ہوئے مجھے یوں لگ رہا تھا، اس ملک میں خوشیاں لوٹ آئی ہیں،ہر کوئی شاداں و فرحاں ہے۔عید اپنے پورے طمطراق سے آ رہی ہے لوگ ساری کلفتیں، مہنگائی کے سارے عذاب اور غربت کے تمام زخم بھول گئے ہیں،بڑی خوشی ہوئی اور یوں لگا واقعی ایک بھرپور عید ہماری زندگی میں آ رہی ہے،مگر اگلی صبح کیا ہوا، ساری خوشی کافور ہو گئی۔ایک ہی خبر نے سب کچھ جلا کے بھسم کر دیا۔ایک اُبکائی سی محسوس ہونے لگی۔عید کی سب تیاریاں ایک جعلی ڈرامہ لگیں، جو حقیقتوں کو چھپانے کے لئے رچایا جا رہا ہے۔خبر تھی،”عید پر نئے کپڑوں کی ضد کرنے والی چار سالہ بیٹی کو محنت کش غریب باپ نے قتل کر دیا“۔اف یہ کیا ظلم کیا، ایک باپ سے ایسی اْمید کیونکر رکھی جا سکتی ہے، کوئی باپ ایسا بھی کر سکتا ہے۔ صرف نئے کپڑوں کی ضد ہی کی تھی،کوئی بڑی حکم عدولی،کوئی بڑی نافرمانی تو نہیں کی تھی،ارے ظالم، کپڑے نہ لے کر دینا اُس معصوم کی زندگی تو نہ چھینتا۔پھر خیال آیا، یہ باپ اُس وقت کس اذیت سے گذرا ہو گا،جب اُس کی بیٹی نے بار بار نئے کپڑے لینے کی ضد کی ہو گی اور اُس کے پاس جیب میں پھوٹی کوڑی بھی نہ ہو گی۔وہ خود اُس وقت کتنی بار جیا اور کتنی بار مرا ہو گا،کسی کو اس کا بھی کچھ اندازہ ہے،ہم جیسے لوگوگوں کے لئے یہ بات بڑی حیران کن ہوتی ہے کہ کوئی صرف اتنی سی بات پر اپنی اولاد کو مار دے،ہمیں سو ذرائع ایسے نظر آتے ہیں،جن سے ایسی خواہش پوری کی جا سکتی ہے، کسی سے اُدھار لے کر، کسی سے بھیک مانگ کر،........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website