سید ضمیر جعفری کا نام اردوادب کی تاریخ میں اپنا ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ خاص طور پر مزاحیہ شاعری میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔جبار مرزا ایک معروف صحافی، ادیب، شاعر اور مورخ ہیں، کچھ نہ کچھ انوکھا کرتے رہتے ہیں۔ پہلے انہوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر نادر ونایاب کتابیں قارئین کو دیں، اب ایک اچھوتی کتاب ”مزاح نگاروں کا کمانڈر ان چیف“ سامنے لائے ہیں۔ میرے نزدیک یہ ضمیر جعفری پر اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے، جس میں ان کی زندگی کے تمام ادوار بلکہ چھپے ہوئے گوشوں کو بھی اس کتاب میں بند کر دیا ہے۔ ضمیر جعفری پر اتنی بڑی تحقیق شاید کسی اور کے بس کا کام بھی نہیں تھا۔ اس کتاب کو لکھنے اور مواد جمع کرنے میں انہیں برسوں لگے۔ ان سے ذاتی تعلق تقریباً 29برسوں پر محیط تھا۔ اس تین دہائیوں کے عرصے میں جبار مرزا نے انہیں جیسے دیکھا، جیسا پایا، ان کی زندگی کے معمولات کا جس طرح مشاہدہ کیا۔ نہ صرف یہ بلکہ ان کے مزاج کو دیکھا، سمجھا، اس طرح شاید ہی کوئی دوسرا شخص ایسا کر سکتا ہو۔ اس کتاب میں جبار مرزا نے ایک جہانِ حیرت کو سمیٹ کر قارئین کے سامنے رکھ دیا ہے۔ اس کتاب کا ضمیر جعفری کے بیٹے جنرل احتشام ضمیر کو بڑا انتظار تھا۔ وہ اپنی وفات تک یہ خواہش کرتے رہے ضمیر جعفری پر جبار مرزا کی کتاب چھپ جائے لیکن جبار مرزا اس کتاب کو ایک شاہکار تصنیف بنانا چاہتے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہیں سید ضمیر جعفری پر کام کرتے 22برس گزر گئے۔ انہوں نے سید جعفری کے اجداد سے لے کر ان کی اولاد تک جو تحقیق کی ہے، اسے بے مثال کام قرار دیا جا سکتا ہے۔ سید ضمیر جعفری نے نظم و نثر کی ڈیڑھ درجن سے بھی زیادہ کتابیں لکھیں۔ اتنا گراں قدر کام اور سید ضمیر جعفری کا شخصی و سماجی خاکہ کبھی سامنے نہ آتا، اگر جبار مرزا اس پر دلجمعی سے کام نہ کرتے۔ سید ضمیر جعفری 1999ء میں اپنی وفات تک قلم و قرطاس سے وابستہ رہے۔ اس دوران انہوں نے نہ صرف مزاحیہ شاعری کو ایک نئے اسلوب، آہنگ اور مزاح سے آشنا کیا بلکہ شاعری کو قومی جذبوں سے ہم آہنگ بھی کئے رکھا لیکن اس شاعر کے پیچھے کون سا نابغہ انسان موجود تھا۔ اس کی خبر جبار مرزا نے اس کتاب میں دی ہے اور بہت خوب دی ہے۔

نواز شریف کے ساتھ دھوکہ ہوا، وہ لندن واپس جاکر ن لیگ کے خلاف پریس کانفرنس کرینگے، شہریار آفریدی

معروف کالم نگار اور مزاحیہ ادب کا بڑا نام عطاء الحق قاسمی لکھتے ہیں: ”مزاح نگاروں کا کمانڈر انچیف بہت ہی کمال تحقیق ہے۔ بعض ایسی باتیں جو بہت سے مزاح نگاروں کی بھی نگاہ سے اوجھل رہیں، جبار مرزا نے وہ قلم بندکر دیں۔ اس کتاب میں ہماری ایک صدی کی ادبی،فوجی، لسانی اور معاشرتی تاریخ محفوظ ہو گئی ہے“۔ ڈاکٹر انعام الحق جاوید، جو مزاحیہ شاعری میں اپنی ایک خاص پہچان رکھتے ہیں، اس کتاب کے بارے میں رائے دیتے ہوئے کہتے ہیں: ”جبار مرزا کے ”کرتوت“ محققانہ ہیں مگر میں نے کبھی انہیں سکہ بند محقق نہیں سمجھا تھا لیکن زیر نظر محققانہ اور تخلیقانہ سلیقے سے ایک ایسی کتاب تخلیق ہوئی کہ میں برادرم جبار مرزا کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔مزاح نگاروں کا کمانڈرانچیف، بڑا صبر آزما، برداشت،حوصلہ اور ثابت قدمی والا کام ہے جو تین عشروں کے لگ بھگ تکمیل کو پہنچا“۔ اس کتاب کی ترتیب اور اسلوب انتہائی دلچسپ اور منفرد ہے۔ جبار مرزا کی طبیعت میں جو شگفتگی اور بذلہ سنجی ہے، وہ اس کتاب میں اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔ انہوں نے جس طرح ضمیر جعفری کے عام زندگی میں ظریفانہ مزاج کی مثالیں پیش کی ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے، سید ضمیر جعفری صرف شاعری کی حد تک مزاح گو نہیں تھے بلکہ عملی زندگی میں بھی ان کا چال چلن اسی قسم کا تھا۔ ان کی زندگی کے تمام ادوار سے جبار مرزا نے ایسی مثالیں دی ہیں جو قاری کے لئے ایک طرف دلچسپی کا سامان پیدا کرتی ہیں تو دوسری طرف سید ضمیر جعفری کی شخصیت کو سمجھنے میں بھی مدد دیتی ہیں۔ اس کتاب نے واقعی ایک نئے ضمیر جعفری کو قارئین سے متعارف کرایا ہے، ایسے ضمیر جعفری سے جو اپنی ذات میں انجمن ہی نہیں بلکہ پورے سماج کے لئے ایک شمعِ روشن ہے۔ جبار مرزا اس حیران کن تخلیقی کتاب کے بارے میں اپنے مخصوص انداز میں لکھتے ہوئے کہتے ہیں ”سید ضمیر جعفری مزاح نگاروں کا کمانڈرانچیف 372صفحات پر محیط، اس کہانی کا آغاز 1995ء کو تب ہوا جب ہم ماہنامہ افتخار ایشیاء کے ایڈیٹر تھے اور سید ضمیرجعفری 1965ء کی حربی یادیں لکھا کرتے۔29برسوں کا گوشوارہ،مزاح نگاروں کا کمانڈرانچیف پیش ہے، سید احتشام ضمیر چاہتے تھے یہ تبرک جلد تقسیم ہو، ہم نے اس بھنڈارے کو شامے ہی سے منسوب و معنون کر دیا“۔

انٹونی بلنکن نے اسحاق ڈار سے بات چیت میں مضبوط شراکت داری کا اعادہ کیا، امریکی محکمہ خارجہ

اس کتاب کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے،جبار مرزا نے ضمیر جعفری کی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں چھوڑا، جس تک رسائی حاصل نہ کی ہو۔ ان کی شخصیت تو خیر ان کا مرکزی موضوع رہی ہی، تاہم ان کے خاندانی اور ادبی پس منظر کو بھی انہوں نے جس طرح اس کتاب میں سمویا ہے۔ وہ انہی کا خاصا ہے سب سے اہم بات یہ ہے انہوں نے کتاب کو بوجھل نہیں ہونے دیا۔مزاح نگاروں کے کمانڈرانچیف پر لکھتے ہوئے ان کا اسلوب بھی شگفتہ ہی رہا، حتیٰ کہ ایسے واقعات بھی جو تاریخ کے تناظر میں بیان کئے گئے ہیں، ان میں یہ شگفتہ مزاجی موجود ہے۔ عنوانات کی فہرست پڑھ کر ہی قاری اس کتاب کے سحر میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ عام طور پر شخصیات پر لکھی جانے والی کتابوں کا اسلوب ایک جیسا ہوتا ہے۔ ان کے حالات زندگی اور پھر ادبی کارنامے لیکن اس کتاب میں اس اسلوب کو اختیار نہیں کیا گیا بلکہ جس طرح سید ضمیر جعفری اپنی شاعری میں چوکے چھکے لگاتے ہیں اس طرح جبار مرزا نے بھی کھل کر بیٹنگ کی ہے۔ اس کتاب کی خاص بات اس میں شامل نایاب تصویریں ہیں جو بذات خود اس بات کا پتہ دیتی ہیں کہ مصنف نے ہر لحاظ سے محنت کی ہے۔ جبا مرزا نے ان شہروں، مقامات اور علاقوں کے بارے میں بھی پوری چھان پھٹک کی ہے، جن کا ضمیر جعفری سے تعلق رہا، یا جہاں جہاں سے وہ اپنی زندگی میں گزرے۔ یہ ایک لاجواب تحقیق ہے جس سے ایک ایسے شاعر کی زندگی کھلی کتاب کی صورت ہمارے سامنے آ جاتی ہے، جسے ہم سب جانتے ہیں مگر وہ کتنے بڑے انسان تھے، کیسے زندگی گزار گئے، اس بارے میں ہمارا علم خام تھا، جو اس کتاب سے مکمل ہوا ہے کتاب کا ٹائٹل بھی بہت بامعنی ہے۔ ایک دائرے میں 30سے زائد شاعروں کی تصویریں ہیں اور درمیان میں سید ضمیر جعفری کی تصویر ہے جس میں وہ واقعی مزاح نگاروں کے کمانڈرانچیف لگ رہے ہیں۔ ایک خوبصورت کتاب پر جبار مرزا کو دلی مبارکباد۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (منگل) کا دن کیسا رہے گا؟

QOSHE - مزاح نگاروں کا کمانڈرانچیف سید ضمیر جعفری - نسیم شاہد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

مزاح نگاروں کا کمانڈرانچیف سید ضمیر جعفری

9 6
09.04.2024

سید ضمیر جعفری کا نام اردوادب کی تاریخ میں اپنا ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ خاص طور پر مزاحیہ شاعری میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔جبار مرزا ایک معروف صحافی، ادیب، شاعر اور مورخ ہیں، کچھ نہ کچھ انوکھا کرتے رہتے ہیں۔ پہلے انہوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر نادر ونایاب کتابیں قارئین کو دیں، اب ایک اچھوتی کتاب ”مزاح نگاروں کا کمانڈر ان چیف“ سامنے لائے ہیں۔ میرے نزدیک یہ ضمیر جعفری پر اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے، جس میں ان کی زندگی کے تمام ادوار بلکہ چھپے ہوئے گوشوں کو بھی اس کتاب میں بند کر دیا ہے۔ ضمیر جعفری پر اتنی بڑی تحقیق شاید کسی اور کے بس کا کام بھی نہیں تھا۔ اس کتاب کو لکھنے اور مواد جمع کرنے میں انہیں برسوں لگے۔ ان سے ذاتی تعلق تقریباً 29برسوں پر محیط تھا۔ اس تین دہائیوں کے عرصے میں جبار مرزا نے انہیں جیسے دیکھا، جیسا پایا، ان کی زندگی کے معمولات کا جس طرح مشاہدہ کیا۔ نہ صرف یہ بلکہ ان کے مزاج کو دیکھا، سمجھا، اس طرح شاید ہی کوئی دوسرا شخص ایسا کر سکتا ہو۔ اس کتاب میں جبار مرزا نے ایک جہانِ حیرت کو سمیٹ کر قارئین کے سامنے رکھ دیا ہے۔ اس کتاب کا ضمیر جعفری کے بیٹے جنرل احتشام ضمیر کو بڑا انتظار تھا۔ وہ اپنی وفات تک یہ خواہش کرتے رہے ضمیر جعفری پر جبار مرزا کی کتاب چھپ جائے لیکن جبار مرزا اس کتاب کو ایک شاہکار تصنیف بنانا چاہتے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہیں سید ضمیر جعفری پر کام کرتے 22برس گزر گئے۔ انہوں نے سید جعفری کے اجداد سے لے کر ان کی اولاد تک جو تحقیق کی ہے، اسے بے مثال کام قرار دیا جا سکتا ہے۔ سید ضمیر جعفری نے نظم و نثر کی ڈیڑھ درجن سے بھی زیادہ کتابیں........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play