ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹ کر جنرل محمد ضیاء الحق نے جب اقتدار سنبھالا تو گورنر پنجاب کے عہدے پر جنرل سوار خاں فائز ہوئے۔ انہوں نے ایک ملاقات میں میجر جنرل(ر) ایم ایچ انصاری کو پیشکش کی کہ ان دو کلیدی عہدوں میں سے وہ ایک کا انتخاب کرلیں۔پہلا محکمہ پنجاب صنعتی ترقیاتی بورڈ تھا اور دوسرا عہدہ ڈائریکٹر جنرل لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا تھا۔یہ بات میجر جنرل انصاری نے مجھے ایک انٹرویو کے دوران بتائی۔انہوں نے مزید بتایا کہ میں نے ڈائریکٹرجنرل ایل ڈی اے کا عہدہ اس لیے قبول کیا تھا کہ اس ادارے میں مجھے اپنی صلاحیتیں منوانے، عوام الناس کے مسائل حل کرنے کا براہ راست موقع میسر آنے کی امید تھی۔چنانچہ میں ڈی جی ایل ڈی اے بن گیا۔ اس وقت لاہور شہر کی حالت قابل رحم تھی۔ سب سے پہلے میں نے ایجرٹن روڈ پر کثیرالمنزلہ پلازہ تعمیر کروایا۔اس کے بعد گارڈن ٹاؤن، ماڈل ٹاؤن ایکسٹیشن، فیصل ٹاؤن، علامہ اقبال ٹاؤن، مصطفےٰ ٹاؤن جیسے کثیر المقاصد رہائشی سکیموں کی نہ صرف پلاننگ کی بلکہ وہاں زندگی کی تمام سہولتیں فراہم کرکے پھیلتے ہوئے شہر کے رہنے والوں کو معقول رہائشی سہولتوں سے مستفیدکیا۔ اس کے بعد گرین ٹاؤن اور ٹاؤن شپ بھی میرے ہی دور کے رہائشی منصوبے ہیں۔پھر ایک دن میرے پاس سمری آئی۔جس میں علامہ اقبال ٹاؤن کے وسط میں واقع خالی جگہ کے گڑھے اور کھڈوں میں مٹی ڈلوا کر پلاٹ بنانے کی تجویز پیش کی گئی۔میں نے اس جگہ کا بذات خود معائنہ کیا تو اس وسیع وعریض خالی جگہ کو مکانات کی نظر کرنے کی بجائے ایک خوبصورت پارک تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا۔جس کا افتتاح صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے کیا۔ میں نے پھیلتے ہوئے شہر کی رہائشی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے کثیر تعداد میں فلیٹس بھی تعمیر کروائے جو ماڈل ٹاؤن ایکسٹینشن میں دیکھے جاسکتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ شہر کے پسماندہ علاقوں، شاہدرہ اور شمالی لاہور کو ترقی دینے کے لیے سیوریج اور سڑکوں کی تعمیر کے منصوبے بھی شروع کیے۔انہی منصوبوں کی بناپر لاہور کے شہریوں نے مجھے "فادر آف لاہور"کے اعزاز سے نوازا۔ایک دن گورنر پنجاب غلام جیلانی خان نے مجھے حکم دیا کہ میں اپنے محکمے کے مالی کمشنر لاہور مختار مسعود کے حوالے کردوں تاکہ وہ مینار پاکستان اور اس کے اردگرد علاقے کی صفائی اور تزئین و آرائش کروا سکیں۔ یہ حکم اس وقت دیا گیا جب مینار پاکستان کمشنر کی ماتحت کمیٹی کے سپرد ہوا کرتا تھا۔میں نے گورنر صاحب کو کہا آپ جس جگہ کی نشاندھی کررہے ہیں وہاں تو صرف ایک مینار سا کھڑا ہے جس کے اردگرد سارے لاہور کے افیمی، چرسی، اور بھنگی جمع ہوتے ہیں۔ جابجا غلاظت کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔ساتھ ہی بڈھا دریا جو ایک گندے نالے کا روپ دھارکر تعفن کا باعث بن چکا ہے، میں اسے مینار پاکستان نہیں کہہ سکتا۔اس پر گورنر صاحب نے کہ کیا ایل ڈی اے مینار پاکستان کو اپنی تحویل میں لر کر اس کو شایان شان بنا سکتا ہے؟ میں نے فورا ہاں کر دی۔تو انہوں نے اسی وقت آرڈر جار ی کردیئے کہ آج سے مینار پاکستان ایل ڈی اے کے ماتحت ہو گا۔میں نے ذاتی طورپر جا کر وہاں صفائی کروائی۔گھاس اور پھولوں کی کیاریاں لگائیں۔بڈھا دریا کے گندے نالے کو بند کرکے اس کی جگہ ایک خوبصورت جھیل بنوائی۔منٹو پارک (آج کی اقبال پارک) کو درست کروایا۔مینار پاکستا ن پر قومی پرچم لہرایا۔اس چوک کا نام آزادی چوک رکھا۔ مالیشئے، بھنگی اورچرسی وہاں سے بھگائے۔پھر وہ وقت بھی آیا کہ اندورن شہر کے لوگ اپنی فیملی کے ساتھ گھر سے کھانا پکاکر مینار پاکستان کے اردگرد بنے ہوئے پارکوں میں بیٹھ کر کھانے لگے۔ریس کورس پارک جہاں پہلے گھوڑوں کی ریس ہوا کرتی تھی، اس کو گرین ٹاؤن شفٹ کردیا اور یہاں ایک خوبصورت پارک تعمیر کروایا جو آج بھی دیکھنے والی آنکھوں کودیدہ زیب لگتا ہے۔اس کے بعد میں نے جلو پارک سے ٹھوکر نیاز بیگ تک نہر کے دونوں کناروں کو خوبصورت بنانے کا عزم کیا۔یہ کام اتنا مشکل تھا کہ دونوں جانب انتہائی بااثر لوگوں کی نرسریاں تھیں جنہوں نے اپنی نرسریاں بچانے کے لیے گورنر غلام جیلانی خان اور جنرل ضیاء الحق سے بھی سفارشیں کروائیں لیکن میں نے اس کے جواب میں صرف یہ کہا کہ دنیا کے بہت کم شہر ایسے ہیں جن کے درمیان میں نہر بہتی ہے،جو خوبصورتی کی علامت سمجھی جاتی ہے اگر ہم نہرکے دونوں کناروں کو پھولوں کی کیاریوں سے آراستہ نہیں کرینگے تو یہ ہماری بدقسمتی ہو گی۔ جس پر یہ دونوں اصحاب خاموش ہو گئے۔ان کی خاموشی ہی میری تائید تھی۔ قصہ مختصرمیں ایل ڈی اے میں تقریبا چھ سال رہا۔اس دوران بارہ بجے دوپہر میں ایل ڈی اے کے دفتر واقع کورٹ سٹریٹ کے برآمدے میں آکر بیٹھ جاتا تھا،میں نے حکم دے رکھا تھا کہ دفتر میں جو سب سے چھوٹا میز اور کرسی موجود ہو،وہ مجھے یہاں بیٹھنے کے لیے فراہم کی جائے۔اس طرح برآمدے میں پنکھے کے نیچے ایک بوسیدہ میز کرسی پر بیٹھ کر میں لوگوں کی شکایتیں سن کر موقع پر ہی شکایت کا ازالہ کیاکرتا تھا۔ایسا میں اس لیے کرتا تھا کہ آنے والوں پر بڑے کرسی میز کا رعب نہ پڑے۔ایک دن چیف سیکرٹری مسعود نبی نور صاحب کا فون آیا۔ انہوں نے کہا کہ آپ برآمدے میں نہ بیٹھا کریں۔یہ آپ کے شایان شان نہیں ہے۔اس پر میں نے کہا کہ یہ بات آپ حکومت کی طرف سے کہہ رہے ہیں یا خود مشورہ دے رہے ہیں۔انہوں نے کہا ایسا ہی سمجھو۔ میں نے جواب دیا پھر آپ ایل ڈی اے کا نیا ڈائریکٹر جنرل ڈھونڈ لو۔میں جب تک ڈائریکٹر جنرل ہوں اپنی مرضی سے کام کروں گا، وگرنہ مجھے اس کی کوئی خواہش نہیں۔میں نے نومبر 1983ء کو ڈائریکٹر جنرل کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور ویگن پر سوار ہوکر اپنے گھر جا پہنچا (جو لاہور سے مشرق کی جانب 25کلومیٹر دور تھا جہاں تک پختہ سڑک بھی نہیں جاتی تھی،بارش کے دوران ایک ایک فٹ کیچڑ میں چل کر انکے گھر پہنچا جا سکتا تھا)۔ اسی دوران جنرل محمد ضیاء الحق کا فون آگیا انہوں نے کہا استعفیٰ دینے سے پہلے آپ کو مجھ سے مشورہ کرلینا چاہیئے تھا۔میں نے کہا سر میں نے اپنے آپ سے نہیں پوچھا، آپ کی بات تو بہت دور ہے۔میں خدا کو حاضر ناظر جان کر یہ کہتا ہوں کہ میں نے اپنے عہدکے دوران ایک پیسے کی بھی ہیراپھیری نہیں کی اور نہ ہی رولز کی خلاف ورزی کی اور نہ بددیانتی یا اقربا پروری کی۔ایل ڈی اے چھوڑنے کے بعد جنرل (ر) کے ایم اظہر (جو میرے قریبی دوست تھے) انہوں نے مجھے جمعیت علمائے پاکستان میں آنے کی دعوت دی۔ میں نے نہ چاہنے کے باوجود قبول کرلی۔۔پھر جب 1988ء کے الیکشن کا مرحلہ آیا تو مولانا نورانی صاحب نے مجھ سے پوچھا آپ کس علاقے میں الیکشن لڑنا چاہتے ہیں۔میں نے کہا جہاں سے آپ چاہیں۔پھر انہوں نے مجھے شاہدرہ اور شمالی لاہور کے پسماندہ علاقے سے الیکشن میں حصہ لینے پر کا مشورہ دیا۔ پیپلز پارٹی نے اس الیکشن میں پورے پاکستان میں واضح اکثریت حاصل کرلی لیکن میرے مدمقابل پیپلزپارٹی کے جنرل سیکرٹری شیخ رفیق احمد تھے جب الیکشن کا نتیجہ آیا تو شیخ رفیق احمد مجھ سے ساڑھے چار ہزار ووٹوں سے ہار چکے تھے۔یہ کامیابی بلاشبہ میری خدمات کا اعتراف تھا جو میں نے ڈائریکٹر جنرل ایل ڈی اے کے عہدے پر رہ کر انجام دی تھیں۔

بلوچستان میں بم دھماکہ ، دو افراد جاں بحق

QOSHE -  فادر آف لاہور۔جنرل ایم ایچ انصاری - اسلم لودھی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

 فادر آف لاہور۔جنرل ایم ایچ انصاری

11 0
08.04.2024

ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹ کر جنرل محمد ضیاء الحق نے جب اقتدار سنبھالا تو گورنر پنجاب کے عہدے پر جنرل سوار خاں فائز ہوئے۔ انہوں نے ایک ملاقات میں میجر جنرل(ر) ایم ایچ انصاری کو پیشکش کی کہ ان دو کلیدی عہدوں میں سے وہ ایک کا انتخاب کرلیں۔پہلا محکمہ پنجاب صنعتی ترقیاتی بورڈ تھا اور دوسرا عہدہ ڈائریکٹر جنرل لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا تھا۔یہ بات میجر جنرل انصاری نے مجھے ایک انٹرویو کے دوران بتائی۔انہوں نے مزید بتایا کہ میں نے ڈائریکٹرجنرل ایل ڈی اے کا عہدہ اس لیے قبول کیا تھا کہ اس ادارے میں مجھے اپنی صلاحیتیں منوانے، عوام الناس کے مسائل حل کرنے کا براہ راست موقع میسر آنے کی امید تھی۔چنانچہ میں ڈی جی ایل ڈی اے بن گیا۔ اس وقت لاہور شہر کی حالت قابل رحم تھی۔ سب سے پہلے میں نے ایجرٹن روڈ پر کثیرالمنزلہ پلازہ تعمیر کروایا۔اس کے بعد گارڈن ٹاؤن، ماڈل ٹاؤن ایکسٹیشن، فیصل ٹاؤن، علامہ اقبال ٹاؤن، مصطفےٰ ٹاؤن جیسے کثیر المقاصد رہائشی سکیموں کی نہ صرف پلاننگ کی بلکہ وہاں زندگی کی تمام سہولتیں فراہم کرکے پھیلتے ہوئے شہر کے رہنے والوں کو معقول رہائشی سہولتوں سے مستفیدکیا۔ اس کے بعد گرین ٹاؤن اور ٹاؤن شپ بھی میرے ہی دور کے رہائشی منصوبے ہیں۔پھر ایک دن میرے پاس سمری آئی۔جس میں علامہ اقبال ٹاؤن کے وسط میں واقع خالی جگہ کے گڑھے اور کھڈوں میں مٹی ڈلوا کر پلاٹ بنانے کی تجویز پیش کی گئی۔میں نے اس جگہ کا بذات خود معائنہ کیا تو اس وسیع وعریض خالی جگہ کو مکانات کی نظر کرنے کی بجائے ایک خوبصورت پارک تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا۔جس کا افتتاح صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے کیا۔ میں نے پھیلتے ہوئے شہر کی رہائشی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے کثیر تعداد میں فلیٹس بھی........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play