رمضان، قرآن اور انسان
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ نبی محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا فمن تبعنی اور پھر فرمایا ان تعذبھم اور پھر اللھم امتی فرما کر رونے لگے۔ اس پر حضرت جبرائیل تشریف لائے اور رونے کی وجہ دریافت فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی امت کی بخشش کے بارے میں خدشہ ظاہر فرمایا جس پر روح الامین واپس تشریف لے گئے اور کچھ دیر بعد حاضر ہو کر عرض کی کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں آپ کو اس سلسلے میں راضی کروں گا اور آپ کو مایوس نہیں کیا جائے گا۔ اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی امت کی بخشش کی کتنی فکر تھی۔ ان کی فکر مندی ہی ہماری بخشش کی دلیل ہے۔ تاہم کچھ باتوں کا اُمت کو بھی اندازہ ہونا ضروری ہے۔ وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز مخفی نہیں ہے۔ روز حشر سب سے پہلے اللہ تعالی انبیا علیھم السلام سے سوال کریں گے کیا آپ نے میرا پیغام اپنی امت تک پہنچا دیا تھا اور جواب دیا جائے گا یا اللہ آپ سے بڑھ کر کون جانتا ہے اور پھر تول تلیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے جب یہ بات آئی کہ اُمت تو میرے بعد خرافات میں کھو گئی تھی۔ امت تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا سبق یکسر بھول گئی تھی۔ اللہ کے دیئے ہوئے انعامات پر شکر کرنا تو کجا، بلکہ ان کے رویوں میں فرعونیت آگئی تھی۔ اخلاقیات کا انہوں نے جنازہ نکال دیا تھا۔ وہ اپنی خواہشات کے مکمل طور پر پجاری بن گئے تھے۔ حقوق العباد کے سلسلے میں بددیانتی کی انہوں نے اخیر کردی تھی۔ حسد، غیبت،بغض،لالچ، تصنع، بناوٹ، فساد، کینہ پروری، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، لوٹ کھسوٹ، کساد بازاری، قتل و غارت وغیرہ وغیرہ ساری برائیاں ان کے ہاں پائی جاتی تھیں۔ قرآن مجید کو تو انہوں نے اُٹھا کر سائیڈ پر ہی رکھ دیا تھا اور ان کی مذہبی قیادت اپنی اپنی بولیاں بول رہی تھی اور اُمت فرقوں میں بٹ گئی تھی،اب اندازہ لگائیں اللھم امتی کہہ کر بار بار رونے والے کریم نبی پر کیا گزرے گی۔ کاش یہ ہم سب سوچنا........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website