پنجاب میں امن وامان کی صورتِ حال بہت خراب ہو چکی ہے۔جیسے عید قریب آرہی ہے صورت حال دن بدن خراب ہورہی ہے خاص طور پر ڈکیتی اور رہزنی کی وارداتوں اور دیگر اسٹریٹ کرائمز میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہو ا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پولیس مقابلوں میں بھی ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ پنجاب بھر کی پولیس نے اپنی توانیاں پتنگ بازوں اور منشیات فروشوں کو پکڑنے میں صرف کردی ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ان واقعات میں کمی تو ضرور ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود کہیں نہ کہیں کوئی واقعہ ضرور پیش آجاتاہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پنجاب انتشار اور انارکی کا شکار ہے۔ اچانک ایسی صورتِ حال کیوں پیدا ہوئی؟ اس کے اسباب جاننے اور ان کا تدارک کرنے کی فوری ضرورت ہے۔تھوڑے تھوڑے وقفے سے ٹی وی اسکرینز پر اسٹریٹ کرائمز اور ڈاکوؤں کی فائرنگ سے نہتے شہریوں کے مرنے کی خبریں آ رہی ہوتی ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا، جب ڈاکووں سے مزاحمت پر شہری زخمی یا جاں بحق نہ ہوتے ہوں۔ صرف مارچ کے مہینے میں ڈاکو?ں سے مزاحمت کرنے پر 17 افراد جاں بحق ہو گئے جبکہ روزانہ درجن سے زائد لوگ زخمی بھی ہوتے ہیں جن میں شدید زخمی بھی شامل ہیں، جو یا تو زندگی بھر کیلئے معذور ہو جاتے ہیں یا بعد ازاں زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔لوٹ مار کی کئی وارداتوں میں لوگ روزانہ کروڑوں روپے کی اشیاء_ یا نقد رقوم سے محروم ہو جاتے ہیں۔ بے شمار ایسی وارداتیں ہوتی ہیں، جو پولیس اور میڈیا میں رپورٹ بھی نہیں ہوتیں۔ کاریں، موٹر سائیکلیں اور موبائل فونز چھیننے کی سب سے زیادہ وارداتیں بھی پنجاب میں ہوتی ہیں۔ ان میں بھی اضافہ ہو چکا ہے۔

بلوچستان میں بم دھماکہ ، دو افراد جاں بحق

پنجاب کی زیادہ تر کچی اور گنجان آبادیوں پر ڈرگ مافیا کا کنٹرول ہے، اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لئے مبینہ پولیس مقابلوں میں اضافہ ہوا ہے۔ پنجاب میں اوسطاً روزانہ درجن سے زائد پولیس مقابلے ہو رہے ہیں، جن میں بعض اوقات بے گناہ لوگ بھی مارے جاتے ہیں یا زخمی ہوتے ہیں۔ ان مقابلوں میں راہ گیر بھی زد میں آجاتے ہیں۔ غرض پنجاب میں ہر طرف خوف کی فضاہے۔ایک طرف لوگوں کو جرائم پیشہ افراد کا اور دوسری طرف پولیس مقابلوں کا خوف ہے۔ پنجاب کے شہری شدید عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ امن وا مان کی صورتِ حال قابو میں آنے کی بجائے مزید خراب ہوتی جا رہی ہے اور سماجی انتشار کی طرف بڑھ رہی ہے۔طویل عرصے تک دہشت گردی کے عذاب میں رہنے والا پنجاب اب اسٹریٹ کرائمز اور منشیات کے عذاب میں مبتلا ہے۔ پنجاب ملک کا ”اکنامک ہیڈ کوارٹر“ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ 12 کروڑ سے زیادہ لوگوں کا مسکن ہے۔ پاکستان کی نصف سے زائد آبادی پر مشتمل یہ صوبہ ہے پنجاب کی بدامنی سے نہ صرف ملکی معیشت پر نقصان دہ اثرات مرتب ہوتے ہیں بلکہ اس بدامنی سے کچھ قوتیں اپنے بعض سیاسی اور دیگر اہداف بھی حاصل کرتی ہیں۔ ویسے تو دنیا کے بڑے شہروں میں اسٹریٹ کرائمز ہوتے ہی ہیں لیکن اس وقت جس طرح پنجاب میں ہو رہے ہیں، یہ معمول سے بہت زیادہ ہیں۔ اسے ”کرائم ویو“ یعنی جرائم کی لہر سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔اس کے وہ اسباب نہیں ہیں، جو بیان کئے جاتے ہیں۔ ایک سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی، غربت اور بے روزگاری نے یہ صورت حال پیدا کی ہے۔ لوگ بھوک اور تنگدستی کی وجہ سے وارداتیں کرتے ہیں۔ یہ سبب اگردرست تصور کر لیا جائے تو پھر پورے ملک میں اسی شرح سے جرائم میں اضافہ ہونا چاہئے۔ کچھ لوگ اس سبب سے جرائم کی دنیا میں ضرور داخل ہوتے ہوں گے لیکن جرائم کی منظم وارداتوں کا سبب کچھ اور ہے۔ وہ سبب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات بھی تشویش ناک ہے کہ ان جرائم میں پولس اہلکاروں کے ملوث ہونے کے بھی انکشافات ہوئے ہیں۔پولیس رپورٹس کے مطابق اب جرائم میں کئی منظم گروہ (گینگز) ملوث ہیں۔ ان گروہوں کی یقیناً کوئی نہ کوئی پشت پناہی کرتا ہو گا۔ پولیسنگ کے عام طریقوں سے صورت حال کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔پولیس مقابلوں میں اضافے کے باوجود حالات بہتر نہیں ہو رہے۔ ان پولیس مقابلوں کا بے گناہ لوگ شکار ہو رہے ہیں۔ اس کرائم ویو کے سماجی کے ساتھ ساتھ سیاسی اسباب بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ بدامنی کے ذریعے جس طرح پنجاب کی سیاست کو کنٹرول کیاجاتا ہے، اس طرح ملک کے کسی حصے میں نہیں ہوتا۔اس کی وجہ سے پولیسنگ کا نظام نہ صرف کمزور ہوا بلکہ امن و امان کو مکمل طور پر کنٹرول کرنے کا پولیس کا فیصلہ کن کردار بھی متاثر ہوا۔ اس کے بعد پنجاب پولیس میں سیاسی بنیادوں پر تعیناتیاں ہوئیں، جس نے پولیس کی حالات سے متعلق اپروچ کو بھی تبدیل کر دیا۔ پنجاب میں پولیس کی ازسرِ نو تنظیم کی ضرورت ہے۔پنجاب پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ پنجاب پولیس نے درجنوں گینگ گرفتار کرکے کروڑوں نہیں اربوں روپے کی ریکوری بھی کی ہے فری رجسٹریشن سے جرائم کی شرح میں اضافہ دکھائی دیتا ہے حقیقت میں جرائم کی شرح میں کمی واقع ہوئی ہے۔دوسری جانب وزیر اعلی پنجاب مریم نواز بھی پنجاب پولیس کی کارکردگی سے مطمن نہیں ہیں،انہوں نے ایک اعلی سطحی اجلاس کے دوران کہاہے کہ پتنگ بازی کے سدباب کے لئے قانون موجود ہیں مگر پھر بھی لوگ جان سے جارہے ہیں، کیس رجسٹر کرنا کافی نہیں، ملزمان کو سزائیں ہونی چاہیے۔ وزیر اعلیٰ مریم نواز نے پولیس افسروں کی روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ مرتب کرنے کی ہدایت کی ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ پنجاب میں کہیں نو گو ایریا بنانے کے اجازت نہیں دیں گے، قانون کی عمل داری یقینی بنائیں گے۔ وزیراعلیٰ مریم نوازشریف کا پتنگ بازی کے پے درپے واقعات پر اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا کہ پتنگ کے تار سے جاں بحق ہونے والے بچے کی وڈیو دیکھ کر دل کانپ گیا، معصوم بچے کی جان جانے سے والدین کی دنیا تباہ ہو گئی، میٹنگ کے دوران آئی جی پنجاب نے کہا کہ یکم جنوری سے 21 مارچ کے درمیان پولیس نے پتنگ فروخت اور اڑانے والوں کے خلاف 7 ہزار979 ایف آئی آر درج کیں، یہ تعداد گزشتہ سال اسی مدت کے دوران درج کی گئی ایف آئی آر سے 74 فیصد زیادہ تھیں۔اسی طرح پولیس نے اس سال 8 ہزار 447 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا اور 2023 میں یہ تعداد 2 ہزار 935 تھی۔آئی جی پنجاب نے پولیس افسران کو ہدایت کی کہ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے آن لائن پتنگ، کیمیکل ڈور اور منشیات فروخت کرنے والوں کو پکڑنے، ٹریس کرنے اور گرفتار کرنے کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے کو رپورٹ کریں

پی ایس ایل میں شاندار کارکردگی دکھانےوالے عثمان خان کو قومی ٹیم میں شامل کیے جانے کا امکان

QOSHE - امن وامان کی صورت حال خراب کیوں؟ - یونس باٹھ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

امن وامان کی صورت حال خراب کیوں؟

13 0
08.04.2024

پنجاب میں امن وامان کی صورتِ حال بہت خراب ہو چکی ہے۔جیسے عید قریب آرہی ہے صورت حال دن بدن خراب ہورہی ہے خاص طور پر ڈکیتی اور رہزنی کی وارداتوں اور دیگر اسٹریٹ کرائمز میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہو ا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پولیس مقابلوں میں بھی ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ پنجاب بھر کی پولیس نے اپنی توانیاں پتنگ بازوں اور منشیات فروشوں کو پکڑنے میں صرف کردی ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ان واقعات میں کمی تو ضرور ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود کہیں نہ کہیں کوئی واقعہ ضرور پیش آجاتاہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پنجاب انتشار اور انارکی کا شکار ہے۔ اچانک ایسی صورتِ حال کیوں پیدا ہوئی؟ اس کے اسباب جاننے اور ان کا تدارک کرنے کی فوری ضرورت ہے۔تھوڑے تھوڑے وقفے سے ٹی وی اسکرینز پر اسٹریٹ کرائمز اور ڈاکوؤں کی فائرنگ سے نہتے شہریوں کے مرنے کی خبریں آ رہی ہوتی ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا، جب ڈاکووں سے مزاحمت پر شہری زخمی یا جاں بحق نہ ہوتے ہوں۔ صرف مارچ کے مہینے میں ڈاکو?ں سے مزاحمت کرنے پر 17 افراد جاں بحق ہو گئے جبکہ روزانہ درجن سے زائد لوگ زخمی بھی ہوتے ہیں جن میں شدید زخمی بھی شامل ہیں، جو یا تو زندگی بھر کیلئے معذور ہو جاتے ہیں یا بعد ازاں زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔لوٹ مار کی کئی وارداتوں میں لوگ روزانہ کروڑوں روپے کی اشیاء_ یا نقد رقوم سے محروم ہو جاتے ہیں۔ بے شمار ایسی وارداتیں ہوتی ہیں، جو پولیس اور میڈیا میں رپورٹ بھی نہیں ہوتیں۔ کاریں، موٹر سائیکلیں اور موبائل فونز چھیننے کی سب سے زیادہ وارداتیں بھی پنجاب میں ہوتی ہیں۔ ان میں........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play