ادارہ شماریات کا دم غنیمت ہے کہ جھوٹے لارے ہی سہی، یہ اعداد و شمار جاری کر کے دِل خوش کر دیتا ہے کہ مہنگائی کی شرح میں کمی آ رہی ہے۔سٹیٹ بینک نے بھی اپنی رپورٹ میں یہی دعویٰ کیا ہے، ایسی باتوں سے خواب تو سہانے ہو جاتے ہیں مگر جو تلخ حقائق ہیں وہ جوں کے توں رہتے ہیں،بے روزگاری کے بارے میں کبھی کوئی مستند اعداد و شمار جاری نہیں کیے گئے،لیکن امر واقعہ یہ ہے اس وقت بے روز گاری کی شرح خوفناک حدوں کو چھو رہی ہے،آپ غور کریں ایک طرف بے تحاشہ مہنگائی ہو اور دوسری طرف روز گار کا بندوبست بھی نہ ہو تو انسان پر کیا گذرتی ہو گی،یہ بھی سروے سامنے آیا ہے کہ پاکستان میں ساڑھے تین کروڑ کے قریب گدا گر ہیں۔ایک زمانے میں یہ کہا جاتا تھا اتنے کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں، اب کہا جاتا ہے اتنے کروڑ گدا گر بن گئے ہیں۔ بات صرف پاکستان تک محدود نہیں رہی اس گداگری کو پیشہ بنانے والوں نے سعودی عرب کا رخ بھی کر لیا ہے،متحدہ عرب امارات میں بھی یلغار کی ہوئی ہے۔گویا اب آسان راستہ یہ اختیار کر لیا گیا ہے، روز گار نہ ملے تو ہاتھ پھیلا دو۔ کسی قوم کے کروڑوں افراد اگر بھیک مانگنے کا راستہ اختیار کر لیں تو اس کی غیرت، خود داری اور اَنا کی تنزلی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے،کتنے ہی سال گذر گئے ہماری حکومتوں نے کبھی ایسا کوئی منصوبہ نہیں بنایا جس میں ملک کی افرادی قوت کو استعمال کرنے کی پالیسی سرفہرست ہو،کبھی لیپ ٹاپ دے کر، کبھی قرضہ سکیمیں متعارف کرا کے اور کبھی امدادی پیکیج دے کر ڈنگ ٹپایا جاتا رہا، جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے بیروزگاروں کی ایک فوج ظفر موج اکٹھی ہو گئی ہے۔والدین پریشان ہیں،اِن بے روز گاروں کا کیا کریں، پہلے اپنی آمدنی کا بڑا حصہ اُن کی تعلیم پر خرچ کیا، اب اُنہیں جیب خرچ کے نام پر اُس سے زیادہ پیسے دینے پڑتے ہیں۔چادر چھوٹی اور پاؤں بڑے ہیں،ایک گھر میں اگر چھ افراد ہیں اور کمانے والا ایک ہے تو اس کی حالت کیسے بدل سکتی ہے۔کل مجھے ایک پروفیسر صاحب کا فون آیا وہ چند سال پہلے ریٹائرڈ ہو چکے ہیں،انہوں نے اس قدر لجاجت آمیز انداز میں درخواست کی کہ میں شرمندہ ہو گیا۔اُن کا کہنا تھا مہنگائی بہت ہے پنشن میں گذارا نہیں ہوتا، بیٹا پڑھ لکھ کر گھر میں بے کار بیٹھا ہے۔ غلطی ہوئی کہ بے روز گاری میں اُس کی شادی بھی کر دی،اب دو بچے بھی ہیں۔بڑی مشکل سے وقت گزر رہا ہے، اُس کے لئے کسی نوکری کا بندوبست کر دیں،کسی پرائیویٹ سکول میں اُستاد ہی رکھوا دیں۔میں نے خیر حامی تو بھر لی، مگر مجھے معلوم تھا یہ بھی آسان نہیں، چھوٹے سکول تو مکمل استحصال کرتے ہیں، چند ہزار روپے تنخواہ دیتے ہیں، جو بڑے سکول ہیں وہ آسانی سے رکھتے نہیں۔

سعودی سپریم کورٹ نےعید کے چاند سے متعلق شہریوں سے اپیل کردی

کل مجھے ایک پلمبر کی ضرورت پڑ گئی،باتھ روم میں پانی نہیں آ رہا تھا اور خاصی دشواری کا سامنا تھا۔میں نے ایک دو پلمبروں کو فون کیا، جن کے نمبر میرے پاس موجود تھے، کسی نے ایک دن کا وقت دیا اور کسی نے دو دن کا، میں نے اپنے دوست اظہر سلیم مجوکہ سے بات کی،اُس نے کہا میں ڈھونڈتا ہوں،تھوڑی دیر بعد اُن کا فون آیا،انہوں نے کہا پلمبر تو مل گیا ہے البتہ وہ آنے کے دو ہزار روپے لے گا۔باقی سامان کے پیسے علیحدہ بتائے گا۔میں نے کہا بھائی معمولی سا کام ہے۔انہوں نے کہا آج کل پلمبروں اور الیکٹریشنوں کے ریٹس یہی چل رہے ہیں اس پر مجھے خیال آیا کیا واقعی اس ملک میں بیروز گاری ہے یا ہم نے اپنے بے ڈھنگے اور بے سمت تعلیمی نظام کی وجہ سے اسے ایک طوفان بنا دیا ہے۔اگر ہمیں وقت پر پلمبر، الیکٹریشن، بڑھئی اور دیگر شعبوں کے افراد ملتے نہیں تو اس کا مطلب ہے ان کی بہت کمی ہے۔ ایک پلمبر اگر ایک گھنٹے میں ایک گھر سے دو ہزار روپے لے لیتا ہے تو دن میں کتنے کماتا ہو گا، ہم نے اپنی افرادی قوت کو ہنر مند کیوں نہیں بنایا، روایتی تعلیم کے قاعدے پڑھا کر کیوں اسے زمین کا بوجھ بنا دیا ہے۔آج کسی محکمے میں جونیئر کلرک کی آسامی کا اعلان ہو تو ہزاروں نوجوان ڈگریاں اٹھائے پہنچ جائیں گے، چند ہزار ماہانہ کی نوکری اس لئے حاصل کرنا چاہیں گے کہ اُن کے نام میں بابو جی کا اضافہ ہو جائے گا، پھر جب محدود وسائل سے اخراجات پورے نہیں ہوں گے تو رشوت کا راستہ اختیار کریں گے۔یوں ایک گھن چکر ہمیں اپنی لپیٹ میں لئے رکھے گا۔ایک طرف سوچ بدلنے کی ضرورت ہے اور دوسری طرف ہنر سکھانے والے اداروں کی تعداد میں اضافہ بھی ضروری ہے۔آخر کیا وجہ ہے پاکستان میں لوگ بیروز گاری اور غربت نے تنگ آ کر گدا گری کی طرف جاتے ہیں،وہ کوئی ہنر سیکھ کر باعزت روزگار کمانے کا راستہ کیوں اختیار نہیں کرتے،اس کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ گداگری محنت میں نہیں کرنا پڑتی بس صرف اپنی غیرت کو مارنا پڑتا ہے، پھر آمدنی بھی بے حساب ہو سکتی ہے۔چند روز پہلے ایک شاپنگ سنٹر میں میرے پاس ایک نوجوان آیا،اُس نے کہا وہ بیروز گار ہے،گھر میں راشن نہیں،کچھ مدد کر دیں،میں نے اُسے کہا کیا وہ آٹھ گھنٹے کی ملازمت کرے گا، معقول معاوضہ بھی بتایا وہ فوراً ٹال مٹول پر اُتر آیا،مجبوریاں گنوانے لگا، تب مجھے اندازہ ہو گیا اس نے گدا گری کو اپنا پیشہ بنا لیا ہے،اب یہ کسی اور کام کے قابل نہیں رہا، ذرا سوچیں اگر ملک کے تین کروڑ سے زائد افراد اس پیشے سے منسلک ہو چکے ہیں تو ہماری معاشی حالت کیسے بہتر ہو گی۔ یاد رہے کہ معاشی ماہرین بھیک میں حاصل کی گئی آمدنی کو قومی آمدنی میں شمار نہیں کرتے۔

کوئٹہ میں تجاوزات کے خلاف آپریشن کےدوران ریلوے پھاٹک بھی اکھاڑدیاگیا

دنیا میں بیروز گاری اور غربت کو ختم کرنے کے لئے بہت سے ماڈل متعارف کرائے گئے ہیں،مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ ہم نے بے نظیر انکم سپورٹ جیسے پروگرام بنا کر بذاتِ خود بھیک دینے کی روایت کو سرکاری سطح پر عام کیا ہے۔ اربوں روپے اس مد میں چلے جاتے ہیں اور تبدیلی کچھ نہیں آتی،یہی رقم اگر فیکٹریاں لگا کر، قرضے دے کر، بنگلہ دیشی ماڈل کی طرح گھریلو صنعتوں کو فروغ دے کر لوگوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے استعمال کیا جائے تو چند برسوں میں انقلاب آ سکتا ہے،مگر چونکہ سیاسی مقاصد بھی حاصل کرنے ہیں اور اربوں روپے کی کرپشن کا دروازہ بھی کھلا رکھنا ہے، اس لئے ایسے پروگرام جاری رکھے جاتے ہیں۔پچھلی ایک دہائی میں ایک نئے بحران سے دوچار ہوئے ہیں،وہ ہے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان کی بیروزگاری،عام تعلیم نہیں،بلکہ ڈاکٹر اور انجینئر بھی ڈگریاں اٹھائے پھر رہے ہیں،پرائیویٹ شعبے میں قائم ہونے والے تعلیمی اداروں نے ڈگریوں کی لوٹ سیل لگا رکھی ہے، انہیں معیار نہیں اپنی آمدنی سے غرض ہے،جن شعبوں میں ہمیں افرادی قوت کی ضرورت نہیں،اُن میں دھڑا دھڑ تعلیمی بے روز گار پیدا کر رہے ہیں اور جن شعبوں میں بندہ نہیں ملتا،اُن پر توجہ دینے کو تیار نہیں،اس بارے میں کبھی حکومت نے توجہ دی ہے اور نہ آئی ایم ایف نے کوئی پابندی لگائی ہے۔ایک طرف آبادی کا بم ہمیں تباہی کی طرف لے جا رہا ہے اور دوسری طرف بے روز گاری اور مہنگائی،کوئی بتائے کہ ہم کہاں جائیں؟

9 مئی کے واقعات میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار پہلا ملزم رہا

QOSHE - غربت کا چکر،بے روز گاری کا جھکڑ - نسیم شاہد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

غربت کا چکر،بے روز گاری کا جھکڑ

10 0
07.04.2024

ادارہ شماریات کا دم غنیمت ہے کہ جھوٹے لارے ہی سہی، یہ اعداد و شمار جاری کر کے دِل خوش کر دیتا ہے کہ مہنگائی کی شرح میں کمی آ رہی ہے۔سٹیٹ بینک نے بھی اپنی رپورٹ میں یہی دعویٰ کیا ہے، ایسی باتوں سے خواب تو سہانے ہو جاتے ہیں مگر جو تلخ حقائق ہیں وہ جوں کے توں رہتے ہیں،بے روزگاری کے بارے میں کبھی کوئی مستند اعداد و شمار جاری نہیں کیے گئے،لیکن امر واقعہ یہ ہے اس وقت بے روز گاری کی شرح خوفناک حدوں کو چھو رہی ہے،آپ غور کریں ایک طرف بے تحاشہ مہنگائی ہو اور دوسری طرف روز گار کا بندوبست بھی نہ ہو تو انسان پر کیا گذرتی ہو گی،یہ بھی سروے سامنے آیا ہے کہ پاکستان میں ساڑھے تین کروڑ کے قریب گدا گر ہیں۔ایک زمانے میں یہ کہا جاتا تھا اتنے کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں، اب کہا جاتا ہے اتنے کروڑ گدا گر بن گئے ہیں۔ بات صرف پاکستان تک محدود نہیں رہی اس گداگری کو پیشہ بنانے والوں نے سعودی عرب کا رخ بھی کر لیا ہے،متحدہ عرب امارات میں بھی یلغار کی ہوئی ہے۔گویا اب آسان راستہ یہ اختیار کر لیا گیا ہے، روز گار نہ ملے تو ہاتھ پھیلا دو۔ کسی قوم کے کروڑوں افراد اگر بھیک مانگنے کا راستہ اختیار کر لیں تو اس کی غیرت، خود داری اور اَنا کی تنزلی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے،کتنے ہی سال گذر گئے ہماری حکومتوں نے کبھی ایسا کوئی منصوبہ نہیں بنایا جس میں ملک کی افرادی قوت کو استعمال کرنے کی پالیسی سرفہرست ہو،کبھی لیپ ٹاپ دے کر، کبھی قرضہ سکیمیں متعارف کرا کے اور کبھی امدادی پیکیج دے کر ڈنگ ٹپایا جاتا رہا، جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے بیروزگاروں کی ایک فوج ظفر موج اکٹھی ہو گئی ہے۔والدین پریشان ہیں،اِن بے روز گاروں کا کیا کریں، پہلے اپنی آمدنی کا بڑا حصہ اُن کی تعلیم پر خرچ کیا، اب اُنہیں........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play