مفادات کی جنگ اور عام پاکستانی
پاکستان میں ہر سیاسی نظام عام آدمی کے نام سے شروع ہوتا ہے،مگر شروع ہونے کے بعد عام آدمی کو ایسے بھلا دیا جاتا ہے جیسے بے وفا محبوب اپنے عاشق کو بھلا دیتا ہے۔خدا لگتی کہیئے اس وقت وطن ِ عزیز میں جو کچھ ہو رہا ہے،اُس میں دور دور تک بھی عام آدمی کا کوئی تذکرہ حوالہ ہے، کچھ اس کے بارے میں بھی سوچا جا رہا ہے۔ایک طرف حکومت کو جائز ثابت کرنے کا جنون ہے تو دوسری طرف حکومت کو فارم47 کی پیداوار کہنے کا واویلا ہے،سب بھول چکے ہیں کہ کیا حالت ہے،مہنگائی کی کیا صورتحال ہے،غریب کو روٹی مل رہی ہے یا نہیں،اُس کا چولہا بھی جلتا ہے یا ٹھنڈا پڑ چکا ہے۔انتخابات کے بعد یہی توقع تھی کہ جو بھی نئی حکومت بنے گی، چار دن تو غریبوں کا نام لے گی،اُن کی حالت بدلنے کا دعویٰ کرے گی پھر اپنے اقتدار کی چکا چوند والی دنیا میں مگن ہو جائے گی۔یہی ہماری سیاسی تاریخ ہے اور یہی سب سے بڑا سچ ہے۔سیاسی جماعتوں کا دعوؤں کی حد تک مرکز و محور غریب عوام ہوتے ہیں،لیکن صرف تب تک جب تک اُن کے ووٹ کی ضرورت ہوتی ہے،اِس بار تو عوام کو یوں لگا کہ اُن کا خواب کے شہر میں جاگنا بھی اکارت گیا ہے۔ووٹ جس کو دیا وہ نہیں جیتا اور جسے ووٹ نہیں ملے وہ جیت گیا، گویا ووٹ کی ر ہی سہی عزت بھی چلی گئی۔خیر اِس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ پاکستان میں جو حقیقی ووٹ سے منتخب ہو کر آتے ہیں وہ کون سا عوام کا سوچتے ہیں۔یہ اقتدار کا نشہ ہی ایسا ہے کہ جسے چڑھ جائے اُسے دنیا سے بیگانہ کر دیتا ہے۔دنیا میں وقت کے ساتھ ساتھ عوام کی حاکمیت مضبوط ہوئی ہے،ایک ہم ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عوام کی اہمیت کو طاق نسیاں پر رکھنے جا رہے ہیں۔لوگ حیران ہیں ایسے لوگ سینیٹرز کیسے بن گئے،جن کی کوئی جماعت اور........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website