کیا یہ تشویشناک خبر آپ نے بھی پڑھی ہے۔ اقوام متحدہ کے عالمی ماحولیاتی ادارے یو این ای پی (The United Nations Environment Programme) نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں ایک طرف 78 کروڑ 30 لاکھ افراد بھوک کا شکار ہیں، جبکہ عالمی سطح پر 20 فیصد خوراک ضائع کر دی جاتی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2022ء میں 1.05 ارب ٹن یعنی تقریباً 19 فیصدخوراک مختلف جگہوں پر مختلف طریقوں سے ضائع ہوئی۔

روئے ارض پر اتنی خوراک پیدا ہوتی ہے کہ ہر ذی روح کے کھانے کی ضروریات پوری ہو سکیں۔ اس کے باوجود دنیا بھر میں غربت بڑھ رہی ہے اور بھوکے پیٹ سونے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ روزانہ 25 ہزار افراد بھوک کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں جن میں 10 ہزار صرف بچے ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں 854 ملین افراد کو 24 گھنٹوں میں اتنی خوراک بھی نہیں مل پاتی کہ وہ اپنی صحت برقرار رکھ سکیں اور روزمرہ کے کام سرانجام دے سکیں یعنی وہ کم خوراکی کا شکار ہیں۔ خوراک کی قیمتوں میں عالمی سطح پر جس تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے اس کی وجہ سے یہ اندیشہ سر اٹھانے لگا ہے کہ آنے والے برسوں میں مزید 100 ملین افراد غربت اور بھوک کا شکار ہو جائیں گے۔

روس کا افغان طالبان کو دہشتگردوں کی فہرست سے نکالنے پر غور

ایک طرف یہ انتہا کی بھوک ہے اور دوسری جانب دنیا بھر میں پیدا کی گئی خوراک کا ایک تہائی ضائع کر دیا جاتا ہے۔ کم و بیش 1.3 بلین ٹن خوراک ضائع کر دی جاتی ہے جس سے عالمی معیشت کو 940 ملین ڈالر سالانہ نقصان پہنچتا ہے۔ آج دنیا کو نقصان دہ گرین ہاؤس گیسز کے چیلنج کا سامنا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف انسانی صحت اور ماحول متاثر ہو رہا ہے بلکہ موسمیاتی تبدیلیاں تباہی و بربادی کی جو نئی داستان رقم کر رہی ہیں وہ اس پر مستزاد۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ایک سال میں جتنی گرین ہاؤس گیسز پیدا ہوتی ہیں ان کا 10 فیصد اس ضائع کی گئی خوراک سے پیدا ہوتا ہے۔ صورت حال کس قدر تباہ کن ہے؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ عالمی سطح پر جہازوں میں جلنے والے ایندھن کل آلودہ اخراج کا 1.9 فیصد پیدا کرتے ہیں‘ پلاسٹک پروڈکٹس سے 3.8 فیصد ایمیشن (Emission) ہوتا ہے جبکہ زیرِ زمین سے جو تیل نکالا جاتا ہے اس سے 3.8 فیصد آلودگی پھیلتی ہے‘ لیکن ضائع شدہ خوراک سے پیدا ہونے والی مضر صحت گیسوں کا اخراج مندرجہ بالا تینوں آلودگیوں کے کل حجم سے زیادہ ہوتا ہے۔ گلی سڑی خوراک میتھین گیس پیدا کرتی ہے جو کاربن ڈائی آکسائیڈ سے 28 گنا زیادہ طاقتور اور مضر ہوتی ہے۔ ضائع کی گئی خوراک کے گلنے سڑنے سے ماحول متاثر ہوتا ہے جبکہ ماحول کی خرابی کی وجہ سے جو موسمیاتی تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں‘ ان کی وجہ سے فوڈ ان سکیورٹی (Insecurity) یعنی خوراک کے حوالے سے عدم تحفظ بڑھ جاتا ہے۔

عالیہ بھٹ کو کنگنا رناوت نے بے جا تنقید کا نشانہ بنایا،رندیپ ہُودا

پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جن پر بھوک اور افلاس بڑھنے کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔ دیگر ممالک افغانستان‘ کانگو‘ ایتھوپیا‘ ہیٹی‘ صومالیہ‘ شام اور یمن ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان میں بھی ہر سال پیدا ہونے والی یا قیمتی زرمبادلہ خرچ کر کے درآمد کی گئی خوراک کا ایک بڑا حصہ ضائع کر دیا جاتا ہے۔ یہ کل خوراک کا 26 فیصد بنتا ہے‘ یعنی کم و بیش 19.6 ملین ٹن سالانہ۔ یہ چار بلین ڈالر کی خوراک بنتی ہے جبکہ صورت حال یہ ہے کہ جولائی 2003ء میں سامنے آنے والی گلوبل ہنگر انڈیکس رپورٹ کے مطابق 126 ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر 99واں ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان کی 20.5 فیصد آبادی انڈر نورشڈ (Under Norished) ہے یعنی آبادی کے پانچویں حصے کو ضرورت کے مطابق خوراک نہیں مل رہی ہے‘ جبکہ بچوں کی آبادی کا 44 فیصد کم خوراکی کا شکار ہے اور ایسے بچوں کا وزن نارمل سے کم ہے۔ ان حالات میں پیدا ہونے والی قیمتی خوراک کا 26 فیصد ضائع کر دینا ایک تشویش ناک صورت حال کو ظاہر کرتا ہے۔

پاکستان سمیت مختلف ممالک میں واٹس ایپ سروسز تعطل کے بعد بحال ہونا شروع

خوراک کیسے ضائع ہوتی ہے؟ سب سے پہلے تو جدید طریقے استعمال نہ ہونے کی وجہ سے خوراک کا ایک حصہ برداشت کے وقت ہی کھیتوں میں ضائع ہو جاتا ہے‘ کچھ حصہ ٹرانسپورٹیشن یعنی کھیتوں سے خوراک کی گھروں یا منڈیوں کو ترسیل اور بعد ازاں منڈیوں سے دوبارہ گھروں یا فلور ملوں تک باربرداری کے دوران ضائع ہو جاتا ہے۔ گھروں میں کھانا پسند نہ ہونے کی صورت میں ضائع کر دیا جاتا ہے۔ اجناس سے آٹا یا دلیہ یا دوسری پروڈکٹس بنانے کے عمل کے دوران بھی کچھ خوراک ضائع ہوتی ہے۔ کھانے کی تیاری کے دوران بھی خوراک کے ضائع ہونے کا عمل جاری رہتا ہے۔ پھر سٹوریج یا گوداموں میں رکھی گئی خوراک بھی ضائع ہوتی ہے۔ اسے چوہے کھاتے ہیں یا پھر کیڑے مکوڑے اور حشرات ان پر دعوت اڑاتے ہیں۔ پسند نہ آئے یا نمک مرچ کم یا زیادہ ہو جائے تو پکا پکایا کھانا بھی ضائع کر دیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں ہوٹلنگ کا رواج بڑھتا جا رہا ہے اور دیکھا گیا ہے کہ بچا ہوا کھانا پیک کرانے کی ضرورت کم ہی محسوس کی جاتی ہے۔ یہ بچی ہوئی خوراک بھی ضائع جاتی ہے۔ ضائع ہونے والی خوراک اگر بچا لی جائے تو بھوک سے مرنے والوں کی شرح میں کمی لائی جا سکتی ہے اور دنیا بھر سے غربت کو کم کیا جا سکتا ہے۔ دنیا کی آبادی بڑھ رہی ہے۔ اس کے لیے زیادہ خوراک کی ضرورت ہے۔ خوراک کی پیداوار بڑھانے کے لیے تمام ممکن اقدامات کیے جانا چاہئیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ ضائع ہونے والی خوراک کو بچایا جائے تاکہ بھوکے پیٹ بھرے جا سکیں۔ اس کے لیے ہر فرد کی جانب سے انفرادی کوشش ہونی چاہیے کہ قطرہ قطرہ مل کر ہی دریا بنتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام ممالک اور اقوام کی جانب سے انفرادی اور اجتماعی ہر سطح پر کوشش وقت کا اہم ترین تقاضا بن چکی ہے۔

دنیا کس سال ختم ہو جائے گی؟ بابا وانگا کی پیش گوئی نے تہلکہ مچا دیا

رمضان المبارک کا مہینہ ہمیں یہی باور کرانے کے لیے آتا ہے کہ بھوک کیا ہوتی ہے اور ان لوگوں کی حالت کیا ہوتی ہے جن کو پیٹ بھر کھانا نہیں ملتا‘ تاکہ ہم ان لوگوں کا خیال رکھ سکیں‘ پیٹ بھرنے میں ان کے مددگار ہو سکیں۔ اللہ نے ہمیں جو رزق دیا ہے اس میں سے ان کا حصہ نکال سکیں۔ ہمارا دین تو ویسے بھی غریبوں اور ناداروں پر توجہ دینے کی تلقین کرتا ہے۔ تو اس ماہ مقدس کے صدقے کیا ہم آج سے خوراک کا ضیاع روکنے کا قصد کر سکتے ہیں تاکہ بچائی گئی غذا کسی کا خالی پیٹ بھر سکے؟

QOSHE -  بھوکے پیٹ کی خاطر خوراک بچائیے! - محمد معاذ قریشی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

 بھوکے پیٹ کی خاطر خوراک بچائیے!

11 0
04.04.2024

کیا یہ تشویشناک خبر آپ نے بھی پڑھی ہے۔ اقوام متحدہ کے عالمی ماحولیاتی ادارے یو این ای پی (The United Nations Environment Programme) نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں ایک طرف 78 کروڑ 30 لاکھ افراد بھوک کا شکار ہیں، جبکہ عالمی سطح پر 20 فیصد خوراک ضائع کر دی جاتی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2022ء میں 1.05 ارب ٹن یعنی تقریباً 19 فیصدخوراک مختلف جگہوں پر مختلف طریقوں سے ضائع ہوئی۔

روئے ارض پر اتنی خوراک پیدا ہوتی ہے کہ ہر ذی روح کے کھانے کی ضروریات پوری ہو سکیں۔ اس کے باوجود دنیا بھر میں غربت بڑھ رہی ہے اور بھوکے پیٹ سونے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ روزانہ 25 ہزار افراد بھوک کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں جن میں 10 ہزار صرف بچے ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں 854 ملین افراد کو 24 گھنٹوں میں اتنی خوراک بھی نہیں مل پاتی کہ وہ اپنی صحت برقرار رکھ سکیں اور روزمرہ کے کام سرانجام دے سکیں یعنی وہ کم خوراکی کا شکار ہیں۔ خوراک کی قیمتوں میں عالمی سطح پر جس تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے اس کی وجہ سے یہ اندیشہ سر اٹھانے لگا ہے کہ آنے والے برسوں میں مزید 100 ملین افراد غربت اور بھوک کا شکار ہو جائیں گے۔

روس کا افغان طالبان کو دہشتگردوں کی فہرست سے نکالنے پر غور

ایک طرف یہ انتہا کی بھوک ہے اور دوسری جانب دنیا بھر میں پیدا کی گئی خوراک کا ایک تہائی ضائع کر دیا جاتا ہے۔ کم و بیش 1.3 بلین ٹن خوراک ضائع کر دی جاتی ہے جس سے عالمی معیشت کو 940 ملین ڈالر سالانہ نقصان پہنچتا ہے۔ آج دنیا کو نقصان دہ گرین ہاؤس گیسز کے چیلنج کا سامنا ہے جس کی وجہ سے........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play