اگر کوئی یہ دعویٰ کرتا ہے پاکستان کی سیاسی فضاء میں اِس وقت کشیدگی موجود نہیں اور سب کچھ ہموار طریقے سے چل رہا ہے تو وہ یا حالات سے بے خبر ہے یا احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ایک عام آدمی بھی محسوس کر رہا ہے ملک میں بہت سی انہونی چیزیں رونما ہو رہی ہیں۔الیکشن کمیشن کے اِس بار کردار نے وہ انتشار پیدا کیا ہے جو اب تک ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ اوپر سے عدلیہ کے معاملات روزانہ ایک نئی کہانی سناتے ہیں۔ ایک خط ججوں نے لکھا تھا، تو دوسرا آٹھ ججوں کو کسی نے مشکوک پاؤڈر سے بھرے دھمکی آمیز خط بھیج دیئے،مقدمہ درج ہو گیا ہے دیکھتے ہیں اس کٹھالی سے کیا برآمد ہوتا ہے۔اُدھر سینٹ کے انتخابات ہو گئے، مگر سینٹ مکمل نہیں ہو سکا۔ خیبرپختونخوا میں انتخابات نہیں ہو سکے جس کی وجہ سے اب چیئرمین سینٹ کے انتخاب کا معاملہ بھی لٹک گیا ہے۔وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے دھمکی دی ہے غیر قانونی بننے والے ارکان کو حلف نہیں لینے دیں گے۔مخصوص نشستیں اُن کا حق ہے،جو نہیں دیا جا رہا،پیچھے نہیں ہٹیں گے آخری حد تک جائیں گے۔اُدھر عمران خان نے اڈیالہ جیل میں سماعت کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو بنی گالہ میں زہر دیا گیا،جبکہ بشریٰ بی بی کا کہنا ہے میرے کھانے میں ہارپک کے تین قطرے ملائے گئے،جس سے اُن کی طبیعت خراب ہو گئی۔یہ سب باتیں اس حقیقت کو واضح کرنے کے لئے کافی ہیں کہ حالات سازگار نہیں۔ایک بے چینی اور تناؤ ہے جس نے ہماری سیاسی فضاء کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔ایسی فضاء میں کیا ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔اُمید تو یہ تھی کہ انتخابات ہوں گے تو ایک ٹھہراؤ آئے گا۔سیاسی استحکام پیدا ہو گا، ملک بے یقینی سے نکلے گا جتنے بھی اسٹیک ہولڈرز ہیں وہ ایک جگہ بیٹھیں گے۔ملک کی بہتری اور ترقی کے فیصلے کئے جائیں گے،لیکن یہاں تو ایسا کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا۔عید کے بعد تحریک انصاف اور جے یو آئی سڑکوں پر احتجاج کرنے جا رہی ہیں۔تحریک انصاف نے تو ہم خیال جماعتوں کے ساتھ اتحاد بھی بنا لیا ہے۔ یہ سب کچھ سامنے کی باتیں ہیں، مگر جو چیز حیران کر رہی ہے وہ حکومت کا رویہ ہے۔ عموماً ایسے حالات میں حکومتیں آگے آتی ہیں، حالات کو سنبھالتی ہیں یہاں ایسی کوئی کوشش نظر نہیں آ رہی۔ اِس وقت حکومت اگر مولانا فضل الرحمن کی اِس بات پر ہی عمل کر لے کہ جس کے چاہیں مقدمات راتوں رات ختم ہو جاتے ہیں تو ایک بلاوجہ کا تناؤ کم ہو سکتا ہے۔

روس کا افغان طالبان کو دہشتگردوں کی فہرست سے نکالنے پر غور

عوام بڑی بے تابی سے حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں، کسی ایسے ریلیف کے منتظر ہیں جو انہیں زندگی کے مشکل ترین معاشی حالات سے نکالے،مگر اُن کی امید پوری نہیں ہو رہی۔ اُمید پوری ہونا تو دور کی بات ہے اُن کے رہے سہے حالات بھی دِگرگوں ہوتے جا رہے ہیں۔پٹرول کی قیمت میں 10 روپے لٹر اضافہ اور پھر بجلی کی قیمت میں اضافے نے مرے کو مارے شاہ مدار والی صورت پیدا کر دی ہے۔گیس کے نرخ پہلے ہی ایک بڑے معاشی بوجھ کا باعث بن چکے ہیں۔ان حالات میں طبقہ ئ اشرافیہ کی طرف سے کوئی ایک کام ایسا بتا دیا جائے جس سے لگے کہ اس نے اپنی مراعات کم کر دی ہیں، تنخواہیں نہ لینے کا ڈرامہ بڑا مضحکہ خیز ہے، کروڑوں روپے کے اخراجات پر پلنے والے چند لاکھ بلکہ دہ تین لاکھ تنخواہ نہ لینے کا اعلان کرتے ہیں تو وہ ایک ڈرامہ ہی لگتا ہے۔بڑے بڑے منصوبوں کا اعلان ہوتا رہے گا،نجکاری کے نام پر اثاثے بھی بیچے جائیں گے،مگر یہ نہیں ہو گا کہ بچت کر کے اربوں روپے بچائے جائیں۔وزراء کے پروٹوکول اور شاہانہ لاؤ لشکر اُسی طرح جاری رہیں گے،افسروں کی موج بھی لگی رہے گی۔لاکھوں سرکاری گاڑیاں ہر سال اربوں روپے کا پٹرول پھونکتی ہیں،وہ بھی عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی سے،کوئی پوچھنے والا نہیں،اب خبر آئی ہے کابینہ کے ارکان کو نئی گاڑیوں پر بٹھانے کے لئے گاڑیاں خریدی جا رہی ہیں۔یہ اُسی ملک میں ہو رہا ہے جہاں آئے روز کسی کے بچے مار کر خود کشی کرنے کی خبر آ جاتی ہے۔اب آپ ہی خدا لگتی کہیے کیا ان حالات میں کوئی بہتری آ سکتی ہے۔ژاں پال سارتر جو ایک فرانسیسی فلسفی تھا، اپنے ایک مضمون میں لکھتا ہے،جب عوام بے چین ہوتے ہیں تو معاشرہ بے چینی کا شکار ہو جاتا ہے۔اگر بے چینی کو ختم کرنا ہے،تو پھر سب سے پہلے عوام کی بے چینی کو ختم کرنا ہو گا۔اِس وقت کیا حکومت کی کوئی سوچ، کوئی پالیسی اور کوئی حکمت عملی ایسی ہے،جس سے اُمید کی جا سکے وہ عوام کی بے چینی ختم کرنا چاہتی ہے۔دور دور تک ایسا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔

عالیہ بھٹ کو کنگنا رناوت نے بے جا تنقید کا نشانہ بنایا،رندیپ ہُودا

کل ایم ڈی اے چوک ملتان پر مجھے کارپوریشن کے دو وردی پوش مزدور ملے،غربت اور مفلوک الحالی اُن کے چہروں ہی نہیں حلیوں سے بھی عیاں تھی۔معلوم ہوا دونوں قریب کے ایک بنک سے اپنی تنخواہ لے کر نکلے ہی تھے کہ دو ڈاکوؤں نے انہیں آ لیا،تنخواہ چھین کر فرار ہو گئے،اُس وقت مجھے پہلی بار اس شعر کی عملی تعبیر نظر آئی۔

جس دیس میں لٹ جائے غریبوں کی کمائی

اُس دیس کے سلطان سے کوئی بھول ہوئی ہے

یہ ہے امن و امان کی صورت حال،یہ ہے گڈ گورننس کا احوال،پولیس کی وردی تبدیل کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں، اربوں روپے کا یہ خرچ آخر کس لئے،پہلے اُس کی کارکردگی تو بہتر بنائی جائے،بڑے شہروں میں لوٹ مار کے واقعات اتنے بڑھ گئے ہیں کہ عوام کا گھر سے نکلنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔دہشت گردی نے علیحدہ عذاب طاری کیا ہوا ہے۔ قانون سسک رہا ہے،خلقِ خدا بے اماں ہے۔ کیا یہی ہے وہ جمہوریت کی دین، جس کے لئے ہم مرے جاتے ہیں۔اگر پھر بھی اہل ِ اقتدار اِس بات کے دعویدار ہیں کہ سب اچھا ہے۔حکومتیں کام کر رہی ہیں امورِ مملکت احسن طریقے سے چلائے جا رہے ہیں،تو اُن کی مرضی ہے، وگرنہ حقیقت یہ ہے سب اچھا تو درکنار کچھ بھی ایسا نہیں کہ جو عوام کو اچھے دِنوں کی اُمید ہی دِلا سکے۔

پاکستان سمیت مختلف ممالک میں واٹس ایپ سروسز تعطل کے بعد بحال ہونا شروع

QOSHE - زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے - نسیم شاہد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے

11 0
04.04.2024

اگر کوئی یہ دعویٰ کرتا ہے پاکستان کی سیاسی فضاء میں اِس وقت کشیدگی موجود نہیں اور سب کچھ ہموار طریقے سے چل رہا ہے تو وہ یا حالات سے بے خبر ہے یا احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ایک عام آدمی بھی محسوس کر رہا ہے ملک میں بہت سی انہونی چیزیں رونما ہو رہی ہیں۔الیکشن کمیشن کے اِس بار کردار نے وہ انتشار پیدا کیا ہے جو اب تک ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ اوپر سے عدلیہ کے معاملات روزانہ ایک نئی کہانی سناتے ہیں۔ ایک خط ججوں نے لکھا تھا، تو دوسرا آٹھ ججوں کو کسی نے مشکوک پاؤڈر سے بھرے دھمکی آمیز خط بھیج دیئے،مقدمہ درج ہو گیا ہے دیکھتے ہیں اس کٹھالی سے کیا برآمد ہوتا ہے۔اُدھر سینٹ کے انتخابات ہو گئے، مگر سینٹ مکمل نہیں ہو سکا۔ خیبرپختونخوا میں انتخابات نہیں ہو سکے جس کی وجہ سے اب چیئرمین سینٹ کے انتخاب کا معاملہ بھی لٹک گیا ہے۔وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے دھمکی دی ہے غیر قانونی بننے والے ارکان کو حلف نہیں لینے دیں گے۔مخصوص نشستیں اُن کا حق ہے،جو نہیں دیا جا رہا،پیچھے نہیں ہٹیں گے آخری حد تک جائیں گے۔اُدھر عمران خان نے اڈیالہ جیل میں سماعت کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو بنی گالہ میں زہر دیا گیا،جبکہ بشریٰ بی بی کا کہنا ہے میرے کھانے میں ہارپک کے تین قطرے ملائے گئے،جس سے اُن کی طبیعت خراب ہو گئی۔یہ سب باتیں اس حقیقت کو واضح کرنے کے لئے کافی ہیں کہ حالات سازگار نہیں۔ایک بے چینی اور تناؤ ہے جس نے ہماری........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play