شاہجہان مسجد ووکنگ برطانیہ کی دلچسپ تاریخ
لارڈ لیٹنر(1840-1899) ہنگری کی ایک یہودی فیملی کا فرزند تھا یہ برطانیہ میں بطور تعلیمی ماہر بڑی شہرت کا مالک تھا، جسے حکومت برطانیہ نے پنجاب میں تعلیمی اصلاحات لانے کے لئے بلایا، لارڈ لیٹنر پچاس زبانوں پر عبور رکھتا تھا۔ایک روایت کے مطابق مسلم ممالک میں رہائش کے دوران عبد الرشید سیاح کے نام سے معروف تھا۔ 1864میں یہ گورنمنٹ کالج لاہور کا پرنسپل تعین ہوا۔ 1882میں پنجاب یونیورسٹی بنانے میں بھی شریک رہا۔پنجاب میں مسجد و مکتب کے امتزاج کو ختم کرنے کے بنیادی قانون کا محرک تھا۔اس کی پنجاب میں تعیناتی ہی اس وجہ سے کی گئی تھی چونکہ تب پنجاب میں مسجد و مکتب کی وجہ سے سو فی صد لوگ پڑھے لکھے تھے۔لارڈ لیٹنربرطانیہ کی،سرےSurrey کاؤنٹی میں ایک زمیندار کی حیثیت سے جانا جاتا تھا۔ واپسی پر اسے ایک انوکھا خیال آیا کہ اسے تمام مذاہب کے مراکز برطانیہ میں بنانے چاہییں۔ اس نے ابتدا مسجد سے کی، بیگم آف بھوپال سے رقم لے کر اس نے انھی کے نام پر ووکنگ میں 1889میں ایک مسجد بنوائی جس کا نام بیگم بھوپال کے نام پرشاہجہان رکھا۔ بیگم شاہجہان آف بھوپال کے سپہ سالار جنگ سے پیسے لے کر مسجد کے ساتھ رہائش گاہ بنوائی جس کا نام جنگ میموریل رکھا۔اللہ کا کرنا کچھ یوں ہوا کہ مسجد کی تعمیر کے بعد وہ وفات پاگیا اور کسی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ نہ بنا سکا۔ اس کے مرنے کے بعد اس کی اولاد نے اسے ایک فضول حرکت تصور کیا اور مسجد کی فروخت کا اشتہار اخبارات میں نشر کیا۔ چند فعال مسلم طلبا ء_ جو اس وقت برطانیہ میں زیر تعلیم تھے، انہوں نے ایسی فروخت کو عدالت میں چیلنج کردیاجس پرعدالت نے اسے مسلم کمیونٹی کے حوالے کردیا۔ یہ بیگم شاہجہاں تاریخ میں اہل حدیث مسلک سے متعارف تھی لیکن برطانیہ میں ان دنوں احمدی خیالات کے لوگ بطور مسلم متعارف تھے،وہ مسجد پر عملا قابض ہوگئے۔ پاکستان بننے کے بعد مسجد کو قانونی تحفظ اور مالی تعاون کی خاطر سفارت خانے کے حوالہ کردیا گیا۔ جنرل ایوب کے زمانے میں 80000 برطانوی پاونڈ کی سالانہ مداد اس مسجد کے متولیوں کو ملتی رہی۔
روس کا افغان طالبان کو دہشتگردوں کی فہرست سے نکالنے پر غورجنوری 1968 میں راقم (خالد قمر)کا ووکنگ جانا ہوا۔........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website