کُمبھ میلے میں بچھڑی ہوئی بہن بالآخر مل گئی اپنے ”بھائی صاحب“ سے۔ اس بہن کا نام نیلم ہے جس کا پیار کا نام نیلو ہے اور بھائی صاحب یہ تحریر لکھنے والے اظہر زمان ہیں جنہیں اوکاڑہ میں اپنے گھر، خاندان بلکہ پورے شہر سے ایسے ہی پکارا جاتا ہے اور کُمبھ میلے کے بارے میں جن کو نہیں معلوم انہیں بتاتا چلوں کہ انڈیا میں دریائے گنگا اور جمنا کے سنگم پر واقع الہ آباد میں ہر سال سب سے بڑا یہ مشہور میلہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس میں اتنا رش پڑتا ہے کہ اس میں عموماً بچے بچھڑ جاتے ہیں اور پھر کبھی مدتوں بعد ملتے ہیں۔ اس لئے کُمبھ میلے میں بچھڑنے کا محاورہ استعمال کیا جاتا ہے جو میں نے کیا ہے۔

سینیٹ الیکشن، ایم کیو ایم کا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے امیدواروں کی حمایت کا اعلان

اوکاڑہ میں میرے ایک منہ بولے برخوردار بھائی بابر کی چھوٹی بہن نیلو مجھ سے اتنی چھوٹی تھی جو عملاً میرے ہاتھوں میں کھیلی تھی کہ میں اس چھوٹی بہن کو بیٹی ہی کہتا اور سمجھتا تھا۔ جب میں نے اسے پہلی مرتبہ دیکھا تو وہ شاید چھ سات سال کی ہو گی اور میں کالج میں پڑھتا تھا۔ میرے خیال میں وہ تب سولہ سترہ سال کی ہو گی جب بھائی صاحب سے گم ہوئی۔ وہ اتنا عرصہ کہاں اوجھل رہی یہ ایک لمبی داستان ہے جو میں ابھی آپ کو سناؤں گا۔

ایک انتہائی طویل وقفے کے بعد ابھی چند روز پہلے 24 مارچ اتوار کی دوپہر وہ خوش قسمت وقت آیا جب میں واشنگٹن سے ملتان اس سے فون پر بات کر رہا تھا۔ ہم دونوں رونے پر قابو پاتے ہوئے بہت مشکل سے فقرے ادا کر رہے تھے۔ نیلو کہہ رہی تھی۔ بھائی صاحب! میں آج بھی سوچتی ہوں کہ جتنا لاڈ پیار مجھے آپ نے دیا شاید ہی کسی بچے کو ملا ہو۔ اس لحاظ سے میں اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھتی ہوں۔ آپ سے الگ رہنے کے عرصے میں شاید ہی کوئی دن ایسا ہوگا جب میں نے اپنے بھائی صاحب کو یاد نہ کیا ہو۔ خیال رہے یہ وہ لڑکی کہہ رہی تھی جو اب لڑکی نہیں رہی بلکہ ان دو بیٹوں اور ایک بیٹی کی ماں بن چکی ہے جو شادی شدہ ہیں۔

تصدق جیلانی کےججز کمیشن کی سربراہی سے معذرت کرنے پر حکومت کا ردعمل

اوکاڑہ کے چوک جامعہ محمدیہ میں ہمارے گھر سے تین چار گلیاں چھوڑ کر بابر کا گھر تھا جو مجھ سے چند سال چھوٹا تھا۔ ایک روز میں اپنے گھر کے باہر کھڑا تھا کہ ایک لڑکے نے میرے پاس رک کر کچھ پوچھا۔ میں نے اسے جواب دیا جو ایک طرح کا لیکچر تھا جسے وہ بہت دلچسپی سے سنتا رہا۔ پھر وہ چلا گیا۔ دو تین دن گزرے ہوں گے کہ وہ میرے گھر کے اندر میرے ذاتی کمرے میں بغیر اطلاع کے سیدھا پہنچ گیا۔ در اصل ہمارے گھر میں گراؤنڈ فلور پر باہر کی طرف بیٹھک تھی اور اس کے بعد میرا ذاتی کمرہ تھا اور اندر ایک بڑا پر تکلف ڈرائنگ روم تھا۔ عملاً گھر کی خواتین اوپر ہی رہتی تھیں اور کسی خاص مہمان کے آنے پر کبھی اندر کے کمرے میں آتی تھیں۔ میں اسے دیکھ کر حیران ہوا جس نے اپنا نام بابر بتایا اور اپنے آنے کی وجہ بتائی کہ اسے میری باتیں بہت اچھی لگی تھیں اور پوچھا کہ کیا میں کبھی کبھی آپ کو ملنے کے لئے یہاں آ سکتا ہوں اس کی اس معصوم خواہش کا جواب ہاں کے سوال اور کیا ہو سکتا تھا۔

پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس کب ہوگا؟ فیصلہ ہوگیا

اس طرح بابر کا ہمارے گھر آنا جانا شروع ہو گیا اور وہ میرا چھوٹا بھائی بن کر ہمارے گھر کا ایک فرد بن گیا۔ پھر ایک روز وہ اپنی بہت ہی پیاری سی چھوٹی بہن نیلو کو ساتھ لے کر آیا۔ میں نے اسے پاس بٹھایا پیار کیا اور اس کے لئے بسکٹ اور پھل منگوائے۔ وہ مجھے بہت اچھی لگی جسے میں اپنے ہاتھ سے سنگترے چھیل کر کھلاتا رہا۔ ہمارے گھر میں تب کوئی چھوٹا بچہ نہیں تھا اس لئے وہ جلد ہی میرے گھر والوں کی بھی فیورٹ بن گئی۔ نیلو جب بھی گھر آتی تو اس کی خوب خاطر مدارت ہوتی۔ وہ تھوڑی بڑی ہوئی تو کبھی اکیلے بھی آ جاتی کہ اسے بھائی صاحب کے گھر آنے کی اپنے گھر سے کھلی چھٹی تھی۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (منگل) کا دن کیسا رہے گا؟

نیلو پورے اعتماد سے ہمارے گھر آتی۔ کبھی میرے بیڈ پر لیٹ جاتی، کبھی کتابوں اور دوسری چیزوں کو چھیڑتی۔ خوب دھما چوکڑی مچاتی۔ مجھے کوئی کام نہ کرنے دیتی۔ بس چاہتی کہ میں اس کو کہانیاں سناؤں اور اس کی چھوٹی چھوٹی باتیں سنتا رہوں۔ جب موقع ملتا وہ میرے علاوہ اندر کے ڈرائنگ روم میں میری امی اور بہن بھائیوں سے خوب گپ شپ لگاتی۔ اس طرح ہمارا پورا گھر بابر اور نیلو کا عادی ہو چکا تھا جن کے ساتھ ہمارے گھر کی رونق قائم تھی۔ مجھ سے ڈیڑھ دو سال چھوٹا بھائی سیف تھا جس کی ہمارے گھر میں سب سے پہلے شادی ہوئی اس کی بارات سرگودھا گئی تو بابر اور اس کے والد آغا بشیر شامل ہوئے۔ ہماری لاڈلی نیلو بھلا کیسے پیچھے رہ سکتی تھی۔ وہ بھائی صاحب کی انگلی پکڑے ان کا دُم چھلا بن کر سرگودھا جاتے اور واپس آتے ساتھ موجود رہی۔

قومی اسمبلی میں سنی اتحاد کونسل کے اراکین آزاد ڈکلیئر

میرے خیال میں یہ بھائی صاحب اور ان کی چہیتی چھوٹی بہن نیلو دونوں ہی اتنے اچھے ہیں کہ بقول نیلو جنہوں نے ”صدیوں“ بعد ایک دوسرے سے بات کی تو دونوں نے ایک دوسرے کو دور رہنے کا الزام دیتے ہوئے شرمندہ نہ کیا اور قدرت کا ایک فیصلہ سمجھ کر قبول کر لیا۔ مجھے اس وقت البتہ یہ خوشگوار حیرت یہ ہوئی کہ نیلو کو ہمارے اچھے وقت کی بہت سی باتیں یاد تھیں جن میں وہ باتیں بھی شامل تھیں جو میں نے اسے بتائی تھیں۔ وہ مجھے بتا رہی تھی کہ آپ عموماً ٹرین پر شوق سے سفر کرتے تھے اور اوکاڑہ سٹیشن سے پل پار کر کے پیدل گھر پہنچ جاتے تھے جو زیادہ دور نہیں تھا۔ آپ گھر پہنچنے سے پہلے راستے میں پھلوں کے دکاندار کو کہتے آتے تھے کہ تھوڑی دیر میں میں پھل منگواؤں گا تو اچھا اچھا پھل بھیجنا۔ آپ گھر پہنچتے ہی طاہر بھائی کو ہمارے گھر بھیجتے جو آکر بتاتا کہ بھائی صاحب آ گئے ہیں اور آپ کو بلا رہے ہیں۔ میں ایک دم اچھل کر کھڑی ہو جاتی اور جلدی جلدی امی کو بتا کر بمشکل جوتا پہن کر بھائی سے آگے آگے چل کر آپ کے گھر پہنچتی اور جاتے ہی آپ کو چمٹ جاتی۔ آپ معمول کے مطابق میرے لئے پھل منگواتے اور خود اپنے ہاتھوں سے کھلاتے۔

کالا جادو کرنے کے الزام میں سندھ پولیس کے دو اہلکاروں کو نوکری سے برخاست کرنے کی سفارش

پھر چند سال بعد ایک ایسا سانحہ ہوا جس سے جیسے ساری خوشیاں لٹ گئیں۔ بابر نے آتش بازی کا سامان گھر میں چھپا کر رکھا تھا جسے وہ چیک کرنے گیا تو وہ دھماکے سے پھٹ گیا۔ اس کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی اور چہرے کا کچھ حصہ جھلس گیا۔ میں نے اس کا بہت اثر لیا اور بہت اداس رہنے لگ گیا اور ملنا ملانا کم کر دیا۔ بعد میں جب والدین نہ رہے تو بھائی نئے گھر بنا کر شفٹ ہو گئے۔ میں لاہور کا ہی ہو کر رہ گیا۔ بابر کا خاندان اپنے دادا کی زرعی زمین کے قریب میاں چنوں کے شہر شفٹ ہو گیا۔

میں ایک آدھ دفعہ ان کے پرانے گھر گیا۔ بابر کی بڑی بیاہی بہن رخسانہ وہاں رہتی تھی ان سے نیلو سمیت سب کا حال پوچھا لیکن میاں چنوں نہ جا سکا۔ اس دوران نیلو بھائی صاحب کا پتہ کرنے ہمارے پرانے گھر آئی وہاں میری ایک بھابھی ملی جو اسے نہ جانتی تھی جس نے میرا کچھ نہ بتایا۔ نیلو کی شادی ہو گئی اور ملتان چلی گئی۔ میں نے بہت جدوجہد کے بعد نیلو کا فون ڈھونڈھ لیا۔ اس طرح کمبھ میلے میں بچھڑی بھائی صاحب کی چہیتی بہن نیلو اسے مل گئی۔ نیلو نے کہا بھائی صاحب میں اب آپ کو کبھی گم نہ ہونے دوں گی۔ جواب میں بھائی صاحب کی آنکھ سے ایک تائیدی آنسو ٹپکا جو فون پر نیلو نے نہیں دیکھا لیکن یقیناً محسوس کر لیا ہوگا۔

QOSHE -   کُمبھ میلے میں بچھڑی ہوئی بہن! - اظہر زمان
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

  کُمبھ میلے میں بچھڑی ہوئی بہن!

16 1
02.04.2024

کُمبھ میلے میں بچھڑی ہوئی بہن بالآخر مل گئی اپنے ”بھائی صاحب“ سے۔ اس بہن کا نام نیلم ہے جس کا پیار کا نام نیلو ہے اور بھائی صاحب یہ تحریر لکھنے والے اظہر زمان ہیں جنہیں اوکاڑہ میں اپنے گھر، خاندان بلکہ پورے شہر سے ایسے ہی پکارا جاتا ہے اور کُمبھ میلے کے بارے میں جن کو نہیں معلوم انہیں بتاتا چلوں کہ انڈیا میں دریائے گنگا اور جمنا کے سنگم پر واقع الہ آباد میں ہر سال سب سے بڑا یہ مشہور میلہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس میں اتنا رش پڑتا ہے کہ اس میں عموماً بچے بچھڑ جاتے ہیں اور پھر کبھی مدتوں بعد ملتے ہیں۔ اس لئے کُمبھ میلے میں بچھڑنے کا محاورہ استعمال کیا جاتا ہے جو میں نے کیا ہے۔

سینیٹ الیکشن، ایم کیو ایم کا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے امیدواروں کی حمایت کا اعلان

اوکاڑہ میں میرے ایک منہ بولے برخوردار بھائی بابر کی چھوٹی بہن نیلو مجھ سے اتنی چھوٹی تھی جو عملاً میرے ہاتھوں میں کھیلی تھی کہ میں اس چھوٹی بہن کو بیٹی ہی کہتا اور سمجھتا تھا۔ جب میں نے اسے پہلی مرتبہ دیکھا تو وہ شاید چھ سات سال کی ہو گی اور میں کالج میں پڑھتا تھا۔ میرے خیال میں وہ تب سولہ سترہ سال کی ہو گی جب بھائی صاحب سے گم ہوئی۔ وہ اتنا عرصہ کہاں اوجھل رہی یہ ایک لمبی داستان ہے جو میں ابھی آپ کو سناؤں گا۔

ایک انتہائی طویل وقفے کے بعد ابھی چند روز پہلے 24 مارچ اتوار کی دوپہر وہ خوش قسمت وقت آیا جب میں واشنگٹن سے ملتان اس سے فون پر بات کر رہا تھا۔ ہم دونوں رونے پر قابو پاتے ہوئے بہت مشکل سے فقرے ادا کر رہے تھے۔ نیلو کہہ رہی تھی۔ بھائی صاحب! میں آج بھی سوچتی ہوں کہ جتنا لاڈ پیار مجھے آپ نے دیا شاید ہی کسی بچے کو ملا ہو۔ اس لحاظ سے میں اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھتی ہوں۔ آپ سے الگ رہنے کے عرصے میں شاید ہی کوئی دن ایسا ہوگا جب میں نے اپنے بھائی صاحب کو یاد نہ........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play