ریسکیو 1122 نے ماہ رمضان کے بیس دنوں کا جو ڈیٹا جاری کیا ہے، اس کی تفصیلات میرے سامنے موجود ہیں۔ ملتان کے معروف صحافی ناصر محمود شیخ جن کی زندگی کا مشن سڑکوں پر ہونے والی اموات اور لوگوں کے اپاہج ہونے کو روکنا ہے، اس ڈیٹا پر نظر رکھتے ہیں اور مجھے گاہے بہ گاہے۔ بھیجتے رہتے ہیں۔ آج کل وہ ہم جیسے قلمکاروں سے یہ سوال کر رہے ہیں کہ فیصل آباد میں ایک نوجوان گلے پر ڈور پھرنے کی وجہ سے جاں بحق ہو گیا تو ہر طرف ہاہا کار مچ گئی، کیا حکومت کیا میڈیا سب کام چھوڑ کر پتنگ بازی کو روکنے کی جانب متوجہ ہو گئے۔ ٹریفک پولیس نے نیا کام سنبھال لیا اور موٹر سائیکلوں پر تار لگانے کی ڈیوٹی دینے لگی۔ وہ تار جو سو ڈیڑھ سو روپے میں مل جاتی تھی، دکانداروں نے اس کی قیمت آٹھ سو روپے کر دی۔ لیکن اس ماہ رمضان کے بیس دنوں میں اب تک صرف پنجاب میں ٹریفک حادثات کی وجہ سے 176 روزہ دار جاں بحق ہو چکے ہیں سب سے زیادہ ہلاکتیں حکمرانوں کے شہر لاہور میں ہوئیں، جہاں 25 افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ جبکہ لاہور میں ان بیس دنوں کے دوران 5210 ٹریفک حادثات ہوئے، جو کسی بھی اعتبار سے معمول قرار نہیں دیئے جا سکتے۔ پنجاب میں ان بیس دنوں کے دوران 22765 حادثات رپورٹ ہو چکے ہیں جن میں ہزاروں افراد زخمی ہوئے۔ تفصیلات کے مطابق 1328 لوگوں کے سر پر چوٹ لگی اور ہڈی ٹوٹ گئی، 2151 افراد کے جسم کی مختلف ہڈیاں ٹوٹ گئیں اور وہ بیڈ سے لگ گئے۔ اکثریت تازہ کما کر کھانے والوں کی ہے جو اپاہج ہونے کیو جہ سے خود ورثاء پر بوجھ بن گئے ہیں ناصر محمود شیخ کا سوال یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ مریم نواز کو ٹریفک حادثات کے اعداد و شمار سے بھی باخبر رکھا جا رہا ہے؟ سی ٹی او لاہور عمرہ اظہر انہیں موٹر سائیکل پر تار لگانے کے لا یعنی فوٹو سیشن تک تو لے جاتی ہیں۔ مگر یہ نہیں بتاتیں پنجاب کی سڑکیں ٹریفک حادثات کی وجہ سے قتل گاہیں بن گئی ہیں بیس دنوں میں 176 افراد کی جانوں کا ضیاع معمولی بات نہیں جبکہ مارچ کے اعداد و شمار کے مطابق پنجاب میں 284 افراد ٹریفک حادثات کی نذر ہو چکے ہیں ان میں زیادہ تر نوجوان تھے، ڈور سے جاں بحق ایک نوجوان موت یقیناً افسوسناک واقعہ ہے مگر یہ جو سینکڑوں لوگ ہماری بے ڈھنگی ٹریفک اور ٹریفک پولیس کی نا اہلی کے باعث موت کے منہ میں جا رہے ہیں، ان کا ذکر بھی تو کہیں ہونا چاہئے۔

سینیٹ الیکشن، ایم کیو ایم کا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے امیدواروں کی حمایت کا اعلان

پنجاب میں 1122 کا دمِ غنیمت ہے کہ وہ ٹریفک حادثات کے اعداد و شمار محفوظ کر لیتا ہے۔ پچھلے سولہ برسوں کا ڈیٹا اس کے پاس کمپیوٹر میں محفوظ ہے یہ ڈیٹا بہت کام آ سکتا ہے کیونکہ اس میں ضلع وار نہ صرف اعداد و شمار محفوظ کئے گئے ہیں بلکہ یہ تفصیلات بھی موجود ہیں کہ حادثات کن گاڑیوں کے زیادہ ہوئے اور ہلاک و زخمی ہونے والوں میں کتنے مرد تھے اور کتنی عورتیں۔ حادثات کن مقامات پر پیش آئے، کتنے لوگ زخمی ہونے کے بعد مستقل معذور ہو گئے اور کتنے مصنوعی، اعضاء لگوانے پر مجبور ہوئے۔ ناصر محمود شیخ نے ایک چونکا دینے والی بات یہ بتائی کہ جس قسم کا ڈیٹا 1122 پنجاب میں مرتب کرتا ہے، ویسا باقی تینوں صوبوں میں نہیں کیا جاتا۔ اس لئے یہ علم نہیں کہ وہاں ٹریفک حادثات کی کیا صورت حال ہے۔ اس کا مطلب ہے سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی حکومتیں اس معاملے کو اہمیت ہی نہیں دیتیں۔ تاہم پنجاب کے پاس تو ایک مستند ڈیٹا موجود ہے پھر اس پر سائنٹیفک انداز میں کام کیوں نہیں کیا جاتا۔ ٹریفک کے لئے اربوں روپے کے فنڈز رکھے جاتے ہیں پنجاب کی عام پولیس سے ہٹ کر ٹریفک پولیس کی پنجاب میں ہزاروں کی نفری ہے۔ ایڈیشنل آئی جی سے لے کر نیچے تک ٹریفک کا ایک پورا نظام موجود ہے مگر اس کے باوجود کارکردگی غیر تسلی بخش ہے۔ شہروں میں ٹریفک کا کوئی سسٹم موجود نہیں۔ ٹریفک وارڈن سسٹم مبینہ طور پر افسران کے لئے کمائی کا ذریعہ بنا ہوا ہے، ٹریفک پر توجہ دینے کی بجائے ٹولیوں کی صورت میں کھڑے وارڈنز شکار کے انتظار میں رہتے ہیں ون وے کی خلاف ورزی عام ہے۔ اس کا عملاً تدارک کرنے کی بجائے صرف جرمانوں میں اضافے پر اکتفا کیا جا رہا ہے پولیس کے بارے میں کہا جاتا ہے وہ انفورسمنٹ کرتی ہے، یعنی جرم ہونے نہیں دیتی، اس حوالے سے ٹریفک پولیس کی ذمہ داری تو اس لئے بھی زیادہ ہے کہ اگر وہ ٹریفک کی خلاف ورزیوں کو رونما ہونے سے پہلے نہیں روکتی تو وہ کسی حادثے کا باعث بن جاتی ہیں، اس کے بعد لکیر پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ وزیر اعلیٰ مریم نوازشریف مختلف شعبوں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے مسلسل اجلاس بلا رہی ہیں، مگر ابھی تک انہوں نے ٹریفک کی ابتری کا جائزہ لینے کے لئے اجلاس نہیں بلایا جس طرح کسی ضلع میں جرائم بڑھ جائیں تو اس کی ذمہداری ضلعی افسر پر ڈالی جاتی ہے، اسی طرح صوبے میں اگر ٹریفک حادثات ہزاروں کی تعداد میں ہو رہے ہیں تو ٹریفک پولیس کے صوبائی سربراہ سے جواب طلبی ہونی چاہئے۔ اس طرح اگر دارلحکومت لاہور میں دو درجن سے زائد افراد صرف بیس دنوں میں ٹریفک حادثات کا شکار ہوتے ہیں اور تقریباً سوا پانچ ہزار حادثات ہوئے ہیں تو اس کی ذمہ داری سی ٹی او لاہور پر ڈالی جائے۔ موٹر سائیکلوں پر تار لگانے سے اپنی اصل ذمہ داری پر پردہ ڈالنا سڑکوں پر ٹریفک حادثات کی صورت میں قتل عام کو نہیں روک سکتا۔

تصدق جیلانی کےججز کمیشن کی سربراہی سے معذرت کرنے پر حکومت کا ردعمل

اس میں کوئی شک نہیں کہ جو حادثات ہوئے ان میں جاں بحق یا زخمی ہونے والے افراد کا بھی کوئی کردار ضرور ہوگا، مگر سوال یہ ہے کہ ہر کام اگر شہریوں نے ہی کرنا ہوتا تو پھر ادارے وجود میں نہ آتے۔ دنیا بھر میں ٹریفک پولیس موجود ہے اور اس کی حکمتِ عملی کے باعث شہروں میں حادثات کی شرح زیادہ نہیں ہوتی۔ اگر لاہور جیسے شہر کا یہ حال ہے کہ جہاں فلائی اوورز بھی ہیں اور انڈر پاسز بھی نفری بھی ہزاروں میں ہے تو پنجاب کے باقی شہروں کی صورت حال کیا ہو گی۔ آئے روز اخبارات میں ٹریفک حادثات کی خبریں چھپتی ہیں درجنوں افراد لقمہ اجل بن جائے ہیں اب تو اسے معمول کی کارروائی سمجھ لیا گیا ہے۔ حالانکہ ہر حادثے کے بعد جہاں اس بات کی تحقیق ہوتی ہے، قصور کس کا تھا وہاں اس بات کی انکوائری بھی ہونی چاہئے اس وقت ٹریفک پولیس کہاں تھی اور متعلقہ عملہ موقع پر موجود بھی تھا یا نہیں جس طرح ناجائز پرچے درج کئے جاتے ہیں اسی طرح ٹریفک پولیس کی طرف سے ناجائز چالان کرنے کی شکایات بھی عام ہیں اسی محکمے پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے یہ بھی کھوج لگایا جائے کہ ہر افسر یہ کیوں خواہش کرتا ہے اس کا تبادلہ کسی ضلع کے ٹریفک پولیس سربراہ کے طور پر کر دیا جائے۔ آخر اس میں کوئی تو کشش ہے، جو افسران کشش کی وجہ سے ٹریفک پولیس میں آتے ہیں وہ ٹریفک کی بہترین سے زیادہ وہ اس کشش کو عملی جامہ پنانے پر توجہ دیتے ہیں، ایسے میں ٹریفک کا نظام کیسے بہتر ہو سکتا ہے۔

پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس کب ہوگا؟ فیصلہ ہوگیا

QOSHE - ٹریفک حادثات کے ہوشربا اعداد و شمار اور وزیر اعلیٰ مریم نواز - نسیم شاہد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

ٹریفک حادثات کے ہوشربا اعداد و شمار اور وزیر اعلیٰ مریم نواز

12 0
02.04.2024

ریسکیو 1122 نے ماہ رمضان کے بیس دنوں کا جو ڈیٹا جاری کیا ہے، اس کی تفصیلات میرے سامنے موجود ہیں۔ ملتان کے معروف صحافی ناصر محمود شیخ جن کی زندگی کا مشن سڑکوں پر ہونے والی اموات اور لوگوں کے اپاہج ہونے کو روکنا ہے، اس ڈیٹا پر نظر رکھتے ہیں اور مجھے گاہے بہ گاہے۔ بھیجتے رہتے ہیں۔ آج کل وہ ہم جیسے قلمکاروں سے یہ سوال کر رہے ہیں کہ فیصل آباد میں ایک نوجوان گلے پر ڈور پھرنے کی وجہ سے جاں بحق ہو گیا تو ہر طرف ہاہا کار مچ گئی، کیا حکومت کیا میڈیا سب کام چھوڑ کر پتنگ بازی کو روکنے کی جانب متوجہ ہو گئے۔ ٹریفک پولیس نے نیا کام سنبھال لیا اور موٹر سائیکلوں پر تار لگانے کی ڈیوٹی دینے لگی۔ وہ تار جو سو ڈیڑھ سو روپے میں مل جاتی تھی، دکانداروں نے اس کی قیمت آٹھ سو روپے کر دی۔ لیکن اس ماہ رمضان کے بیس دنوں میں اب تک صرف پنجاب میں ٹریفک حادثات کی وجہ سے 176 روزہ دار جاں بحق ہو چکے ہیں سب سے زیادہ ہلاکتیں حکمرانوں کے شہر لاہور میں ہوئیں، جہاں 25 افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ جبکہ لاہور میں ان بیس دنوں کے دوران 5210 ٹریفک حادثات ہوئے، جو کسی بھی اعتبار سے معمول قرار نہیں دیئے جا سکتے۔ پنجاب میں ان بیس دنوں کے دوران 22765 حادثات رپورٹ ہو چکے ہیں جن میں ہزاروں افراد زخمی ہوئے۔ تفصیلات کے مطابق 1328 لوگوں کے سر پر چوٹ لگی اور ہڈی ٹوٹ گئی، 2151 افراد کے جسم کی مختلف ہڈیاں ٹوٹ گئیں اور وہ بیڈ سے لگ گئے۔ اکثریت تازہ کما کر کھانے والوں کی ہے جو اپاہج ہونے کیو جہ سے خود ورثاء پر بوجھ بن گئے ہیں ناصر محمود شیخ کا سوال یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ مریم نواز کو ٹریفک حادثات کے اعداد و شمار سے بھی باخبر رکھا جا رہا ہے؟ سی ٹی او لاہور عمرہ اظہر انہیں موٹر سائیکل پر تار........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play