بجلی چوری روکنی ہے تو اس خوف سے نکلنا ہو گا کہ بجلی تقسیم کار کمپنیوں کے لاکھوں ملازمین نے ہڑتال کر دی تو کیا ہو گا، حکومت اُن سے کتنی ڈرتی ہے اس کا اندازہ اِس امر سے لگایا جا سکتا ہے جب ملازمین کے فری یونٹس ختم کرنے کی بات ہوئی، بلکہ عوام کی طرف سے مطالبہ کیا گیا تو فیصلہ سازوں کے پَر جلنے لگے۔کوئی اِن پالیسی بنانے والوں کو سمجھائے کہ بجلی چوری کی بڑی واردات اس فری یونٹس سکیم کی آڑ میں ہوتی ہے ایسے ہزاروں ملازمین ہیں جو اپنے فری یونٹس کسی دوسرے کو بیچ دیتے ہیں اور اپنے میٹر میں گڑ بڑ کر کے مفت بجلی استعمال کرتے ہیں، اس کا کھوج لگانا بھی زیادہ مشکل نہیں۔ ریونیو دفاتر کا ڈیٹا نکال کر دیکھا جا سکتا ہے کس ملازم نے اپنے فری یونٹس استعمال کرنے کے لئے کتنے پتے بدلے، کتنے میٹر تبدیل کئے۔یہ باتیں مجھے اس لئے یاد آئیں کہ وزیراعلیٰ مریم نواز نے ایک اجلاس میں یہ فیصلہ سنایا ہے کہ بجلی چوری کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے گا،انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم نے ایک اجلاس میں صوبوں کو یہ ذمہ داری سونپی ہے کہ وہ بجلی چوری روکنے کے خلاف بھرپور ایکشن لیں اِس لئے پنجاب حکومت اس میں اپنا حصہ ڈالے گی اور بجلی چوروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی،ابھی کچھ دن پہلے وفاقی حکومت نے یہ فیصلہ بھی کیا تھا کہ اوور بلنگ کرنے والے افسران کو کٹہرے میں لایا جائے گا۔اُن کے خلاف سخت قانونی اور محکمانہ کارروائی کی جائے گی۔

قومی ٹیم میں قیادت کی تبدیلی پر پی سی بی کی جانب سے واضاحتی بیان جاری

ست بسم اللہ بڑے اچھے اقدامات ہیں،مگر سوال جو اکثر ایسے دعوؤں کے بعد اٹھتا ہے، وہ عملدرآمد کا ہے، کیا واقعی حکومت اتنی بڑی کارروائی کے لئے تیار ہے۔کہا جاتا ہے یہ بھڑوں کا چھتہ ہے، جس نے بھی ہاتھ ڈالا خود لہولہان ہو گیا۔ حکومتیں بدلتی رہیں،پالیسیاں بنتی رہیں،دعوے کئے جاتے رہتے:لیکن پرنالہ وہیں کا وہیں رہا، نہ بجلی چوری رکی، نہ اربوں روپے کے لائن لاسز ختم ہو سکے۔اب آئی ایم ایف نے بھی کہہ دیا ہے لائن لاسز روکنے ہوں گے وگرنہ بجلی کی قیمت بڑھائی جائے گی، کیونکہ اِس وقت عوا م کی بس ہو چکے ہیں، اُن پر مزید بوجھ ڈالا گیا تو اُن کے لئے زندہ رہنا بھی شاید مشکل ہو جائے، اِس لئے حکومت غالباً یہ طے کر رہی ہے اب کوئی بڑا قدم اٹھانا ہی پڑے گا۔یہ بڑا قدم یہی ہو سکتا ہے کہ اربوں روپے کی بجلی چوری کو روکا جائے۔اس کا دہرا فائد ہو گا،ایک طرف لائن لاسز پورے کرنے کے لئے کرپٹ افسر جو اوور بلنگ کرتے ہیں رہ رک جائے گی،جس کا عام آدمی کو فائدہ ہو گا اور دوسرا تقسیم کار کمپنیوں کے خسارے میں کمی آئے گی،اس پر عملدرآمد ایک بہت بڑا چیلنج ہے، اس کی وجہ یہ ہے بجلی چوری کسی غریب کے گھر میں نہیں ہوتی،بلکہ کسی امیر کے گھر میں جہاں دس دس ائر کنڈیشنڈ لگے ہوئے ہیں،یا فیکٹریوں میں کی جاتی ہے،جن کا ماہانہ بل کروڑوں میں بنتا ہے،مگر وہ بجلی چوری کی وجہ سے لاکھوں میں ادا کرتی ہیں،افسروں اور بڑے لوگوں کا ایک نیٹ ورک ہے،جو یہ کام کر رہا ہے،کیا حکومتیں اس نیٹ ورک کو توڑنے میں کامیاب ہوں گی؟

فلسطینیوں کا قتل عام کرنے والے اسرائیلی وزیر اعظم بیماری میں مبتلا

پنجاب حکومت نے اِس حوالے سے ایک ایکشن پلان بنا لیا ہے،جو اچھی بات ہے یہ حقیقت بھی پیش ِ نظر رہے گی کہ پورے ملک میں اوسطاً سب سے کم بجلی چوری بھی پنجاب میں ہوتی ہے، اس کی وجہ یہاں کا انتظامی نظام اور قابل رسائی علاقے ہیں۔ بلوچستان، خیبرپختونخوا اور اندرون سندھ میں بجلی کی تاروں سے کنڈے لگا کر چوری کرنا معمول کی بات ہے۔کئی علاقے تو ایسے ہیں،جہاں بجلی کمپنیوں کے اہلکار جا ہی نہیں سکتے، جانے کی غلطی کر لیں تو اغوا ہو جاتے ہیں یا پھر تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔پنجاب میں بجلی چوری افسروں اور اہلکاروں کی ملی بھگت سے ہوتی ہے،کیونکہ یہاں بجلی چوروں کے خلاف بڑی تعداد میں مقدمات بھی درج ہوتے ہیں اور ڈائریکٹ لائن سے بجلی لینا آسان بھی نہیں ہوتا،لیکن باقی تینوں صوبوں میں قانونی گرفت نہ ہونے کے برابر ہے۔صوبائی حکومتیں یہ سوچ کر کہ بجلی وفاقی حکومت کا مسئلہ ہے ہم اپنے عوام کو کیوں ناراض کریں،بجلی چوری کے بڑے جرم سے آنکھیں چراتی ہیں،لیکن اِس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر اربوں روپے کی بجلی چوری کا بوجھ قومی خزانے پر پڑے گا تو صوبوں کو ملنے والے حصے میں بھی کمی آئے گی،اِس لئے اجتماعی کوششوں کے بغیر اِس لعنت پر قابو نہیں پایا جا سکتا جس قسم کے عزم کا اظہار وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کیا ہے اُسی طرح کا عزم باقی صوبوں کے وزیرائے اعلیٰ کو اپنانا چاہئے۔ڈائریکٹ کنڈے لگا کر بجلی چوری کے رجحان کو صوبائی حکومتوں کے بغیر صرف واپڈا یا تقسیم کار کمپنیوں کے اہلکار نہیں روک سکتے،اس کے لئے انتظامی اقدامات کرنا ہوں گے اور پولیس کو اختیارات دینا ہوں گے۔پنجاب میں اِس حوالے سے قانون سازی کا عندیہ دیا گیا ہے،دوسرے صوبوں کو بھی اسے قومی مسئلہ سمجھ کے اہمیت دینی چاہئے۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (پیر) کا دن کیسا رہے گا؟

سادہ سی بات ہے کہ وہ کروڑوں صارفین جو اپنے استعمال شدہ یونٹس کا باقاعدگی سے بل ادا کرتے ہیں اس چوری سے ہونے والے خسارے کا بوجھ کیوں اٹھائیں، کیوں بڑھے ہوئے سرکلر ڈیڈ کی وجہ سے ہر ماہ بڑھنے والی قیمتوں کا نشانہ بنیں، بجلی چوری کے جتنے بھی راستے ہیں انہیں بند کرنا ضروری ہے۔ جہاں افسروں اور اہلکاروں کی ملی بھگت سے چوری ہو رہی ہے، اِس کا سد باب بھی ضروری ہے اور جہاں لوگوں نے من مانی کی ہوئی ہے اور تاروں پر کنڈے ڈال کر بجلی استعمال کر رہے ہیں، وہاں قانون کا موثر نفاذ ہونا چاہئے، صوبے اگر وفاقی محاصل سے حصہ لیتے ہیں تو انہیں محاصل اکٹھا کرنے کے لئے اپنی سپورٹ بھی دینی چاہئے۔ ماضی میں ایک طریقہ یہ اختیار کیا گیا کہ جہاں لائن لاسز زیادہ ہیں، بجلی زیادہ چوری ہو رہی ہے وہاں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بڑھا دیا جائے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسا پنجاب پولیس آج کل دھاتی ڈور سے عوام کو بچانے کے لئے موٹر سائیکلوں پر لوہے کی تار لگوا رہی ہے، حالانکہ ضرورت اِس اَمر کی ہے دھاتی ڈور اور پتنگوں کی فروخت کرنے والوں پر آہنی ہاتھ ڈالا جائے۔ ہم نے مختلف حوالوں سے نوگو ایریاز اور کچے کے علاقے بنائے ہوئے ہیں یہ کمزور ریاست کی علامت ہے۔ قانون کا نفاذ ہر جگہ ہونا چاہئے اور وفاق یہ اصول اپنائے کہ جس صوبے میں بجلی کے لاسز زیادہ ہوں گے اس کے محاصل سے اتنا ہی حصہ منہا کر لیا جائے گا۔ شاید اس سے صوبائی حکومتوں کو سمجھ آئے کہ بجلی چوری صرف وفاقی حکومت نہیں ان کا بھی نقصان ہے۔

کراچی میں موجود برطانوی دور کی رہائشی عمارت کا ایک حصہ منہدم

QOSHE -        بجلی چوری کے خلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہ، بسم اللہ کریں  - نسیم شاہد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

       بجلی چوری کے خلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہ، بسم اللہ کریں 

10 0
01.04.2024

بجلی چوری روکنی ہے تو اس خوف سے نکلنا ہو گا کہ بجلی تقسیم کار کمپنیوں کے لاکھوں ملازمین نے ہڑتال کر دی تو کیا ہو گا، حکومت اُن سے کتنی ڈرتی ہے اس کا اندازہ اِس امر سے لگایا جا سکتا ہے جب ملازمین کے فری یونٹس ختم کرنے کی بات ہوئی، بلکہ عوام کی طرف سے مطالبہ کیا گیا تو فیصلہ سازوں کے پَر جلنے لگے۔کوئی اِن پالیسی بنانے والوں کو سمجھائے کہ بجلی چوری کی بڑی واردات اس فری یونٹس سکیم کی آڑ میں ہوتی ہے ایسے ہزاروں ملازمین ہیں جو اپنے فری یونٹس کسی دوسرے کو بیچ دیتے ہیں اور اپنے میٹر میں گڑ بڑ کر کے مفت بجلی استعمال کرتے ہیں، اس کا کھوج لگانا بھی زیادہ مشکل نہیں۔ ریونیو دفاتر کا ڈیٹا نکال کر دیکھا جا سکتا ہے کس ملازم نے اپنے فری یونٹس استعمال کرنے کے لئے کتنے پتے بدلے، کتنے میٹر تبدیل کئے۔یہ باتیں مجھے اس لئے یاد آئیں کہ وزیراعلیٰ مریم نواز نے ایک اجلاس میں یہ فیصلہ سنایا ہے کہ بجلی چوری کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے گا،انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم نے ایک اجلاس میں صوبوں کو یہ ذمہ داری سونپی ہے کہ وہ بجلی چوری روکنے کے خلاف بھرپور ایکشن لیں اِس لئے پنجاب حکومت اس میں اپنا حصہ ڈالے گی اور بجلی چوروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی،ابھی کچھ دن پہلے وفاقی حکومت نے یہ فیصلہ بھی کیا تھا کہ اوور بلنگ کرنے والے افسران کو کٹہرے میں لایا جائے گا۔اُن کے خلاف سخت قانونی اور محکمانہ کارروائی کی جائے گی۔

قومی ٹیم میں قیادت کی تبدیلی پر پی سی بی کی جانب سے واضاحتی بیان جاری

ست بسم اللہ بڑے اچھے اقدامات ہیں،مگر سوال جو اکثر ایسے دعوؤں کے بعد اٹھتا ہے، وہ........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play