ہمارے ہاں گڈ گورننس کی بات تو بہت کی جاتی ہے لیکن کبھی کسی نے غور کیا،گڈ گورننس دراصل ہے کیا؟ اس کے پیرامیٹرز کیا ہیں؟ یعنی کہاں سے کہاں تک گڈ گورننس ہوتی ہے اور بیڈ گورننس کا آغاز کیسے اور کہاں سے ہوتا ہے؟ گڈ گورننس کا تعلق پیش بینی،کھلے پن اور روشن خیال پالیسی سازی سے ہوتا ہے۔ پیشہ ورانہ اخلاقیات سے لیس بیوروکریسی اپنے اقدامات اور پالیسیوں کے لئے جواب دہ انتظامیہ،عوامی معاملات میں حصہ لینے والی ایک مضبوط سول سوسائٹی اور سب سے بڑھ کر قانون کی حکمرانی، یہ سبھی گڈ گورننس کے ماخذ ہیں،گڈ گورننس کا مطلب کسی ملک کے سماجی اور معاشی وسائل کی اس انداز میں مؤثر انتظام کاری ہے جو کھلی، شفاف، جوابدہی پر مبنی اور منصفانہ ہو۔ بیورو کریسی کو حکمرانی کے سب سے طاقتور آلات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، اس کے ذریعے ہی عوامی پالیسیوں کو شکل دی جاتی ہے اور ان پر عملدرآمد بھی ہوتا ہے، اس لئے اچھی حکمرانی کے لئے لامحالہ ملک میں مؤثر بیوروکریسی کی ضرورت ہوتی ہے۔

قومی ٹیم میں قیادت کی تبدیلی پر پی سی بی کی جانب سے واضاحتی بیان جاری

ذرا سوچئے، قومی سطح پر گورننس کے حوالے سے ماضی کے ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے ادوار جبکہ پاکستان میں پنجاب کے چند وزرائے اعلیٰ کے دورِ حکومت کو ہی کیوں یاد کیا جاتا ہے؟ کسی اور دور کو کیوں یاد نہیں کیا جاتا؟ وجہ ایک ہی ہے گڈ گورننس اور عوام کی توقعات پرپورا اترنا۔ کچھ نہ کچھ ہوتا نظر آنا چاہئے، جمود کسی کو پسند نہیں، عوام نے انہی ادوار کو پسند کیا، جن میں انہیں کچھ ہوتا نظر آیا اور یہ اسی وقت نظر آتا ہے جب حکمران اور بیوروکریسی ایک پیج پر ہوں۔

حکومت یا حکمران اگر بیوروکریسی پر قدغن لگائے گا، اسے کام کرنے کی آزادی نہ دی جائے، اس سے ایسے معاملات کی باز پرس کی جائے گی، جن پر نہیں کی جانی چاہئے، تو ظاہر ہے کہ پھر کوئی بھی کام نہیں کرے گا۔ یہ معاملہ ہم نے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں دیکھا،جب نیب کو کھل کھیلنے کا موقع دیا گیا تھا تو پھر بیوروکریٹس نے بھی کام کرنے سے ہاتھ کھینچ لیا تھا۔ وہ کوئی انیشی ایٹو لیتے ہوئے گھبراتے تھے کہ بلا وجہ باز پرس ہو گی، بہتر ہے خاموش رہا جائے، انہی معاملات کو دیکھ کر بانی پی ٹی آئی نے یہ کہا تھا کہ بیوروکریسی اس کے ساتھ تعاون نہیں کر رہی اور اس عدم تعاون کے پیچھے پچھلی حکومت کا ہاتھ ہے، اس لحاظ سے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ شہباز شریف اور محسن نقوی اگر متحرک اور کام کرنے والے کہلائے تو اس کی واحد وجہ یہی تھی کہ انہوں نے بیورو کریسی کو کام کرنے کی پوری آزادی دی اور پھر بیورو کریسی نے بھی اس کے رد عمل میں حکمرانوں کو بہترین پالیسیاں بنا کر دیں اور بہترین منصوبوں پر کام کرنے کی راہ ہموار کی۔

فلسطینیوں کا قتل عام کرنے والے اسرائیلی وزیر اعظم بیماری میں مبتلا

پنجاب کی بات ہو رہی ہے تو سبھی جانتے ہیں کہ صوبے میں پچھلے تقریباً سوا سال سے زاہد اختر زمان چیف سیکرٹری کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور اس سوا سال کے عرصہ کو صوبے کی گورننس میں بہترین قرار دیا جا رہا ہے، زاہد اختر زمان کا تعلق پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے 24ویں کامن سے ہے اور وہ انتظامیہ کے شعبے میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ چیف سیکرٹری پنجاب کے عہدے پر تعیناتی سے قبل وہ سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو پنجاب،ایڈیشنل چیف سیکرٹری جنوبی پنجاب،کے علاوہ متعدد وفاقی اور صوبائی محکموں میں اہم عہدوں پر فائز رہے۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (پیر) کا دن کیسا رہے گا؟

مسلم لیگ(ن) والے یا کوئی اور محسن نقوی کی پنجاب میں کارکردگی سے اس قدر خوش ہوئے کہ ان کو نہ صرف پی سی بی کی چیئر مینی دی بلکہ وفاقی وزارت داخلہ دی اور سینیٹر بھی بنوا دیا، ان کے نگران دور کے ایک سال سے زائد عرصہ میں زاہد اختر زمان ان کے دست راست تھے تو میرے خیال میں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اس دور کی گڈ گورننس کا سہرا چیف سیکرٹری پنجاب اور ان کی ٹیم ہی کے سر ہے، یہ ان کی خدمات کا اعتراف ہی ہے کہ ایک ہفتہ قبل انہیں ہلال امتیاز بھی دیا گیا۔

لیکن سب ہرا ہرا نہیں ہے،تسلیم کہ پچھلے دور میں بہت تیزی سے ترقیاتی کام ہوئے اور لوگوں کو بہت سی سہولیات میسر آئیں، لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اسی عرصے میں بہت سے شعبوں پر وہ مناسب توجہ نہیں دی جا سکی جو دی جانی چاہئے تھی،گزشتہ حکومت کا جائزہ لیں تو اس میں مہنگائی کو کم کرنے کے لئے کوئی اقدام ہوتا نظر نہیں آیا، مہنگائی کی صورتحال جوں کی توں رہی، کہیں پرائس کنٹرول کمیٹیاں قائم ہوتی نظر نہیں آئیں، کہیں مارکیٹ میں قیمتوں کو چیک کرنے کا کوئی نظام نافذ ہوتا نظر نہیں آیا، کہیں منافع خوری کے خلاف کوئی مہم چلتی نظر نہیں آئی، ذخیرہ اندوز اپنی من مانی کرتے رہے، سٹریٹ کرائمز کی صورتحال بھی ویسی کی ویسی رہی، صوبے کی سطح پر تجاوزات کے خلاف جو مہم شروع کی گئی تھی اس کے بھی کوئی خاطر خواہ اثرات یا نتائج مرتب ہوتے نظر نہ آئے تو اس کو درمیان میں ہی چھوڑ دیا گیا، چنانچہ یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ اس عرصے میں جہاں اچھے کام ہوئے،جہاں گڈ گورننس کی بہت سی مثالیں قائم ہوئیں وہاں بہت سے شعبوں میں بیڈ گورننس بھی جاری رہی،

کراچی میں موجود برطانوی دور کی رہائشی عمارت کا ایک حصہ منہدم

اس لئے جہاں بہتر کارکردگی کا کریڈٹ حکومت کے ساتھ ساتھ بیورو کریسی کو جاتا ہے وہاں اس بیڈ مینجمنٹ کی ذمہ دار بیورو کریسی بھی قرار پاتی ہے۔ یہ ساری نشاندہی کرنے کا مطلب اور مقصد محض تنقید نہیں، بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ گزشتہ دورِ حکومت میں جو کوتاہیاں اور خامیاں رہ گئی تھیں وہ موجودہ دور حکومت میں ختم کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے۔ یہ خوش آئند ہے کہ مریم نواز کی حکومت قائم ہوئی تو زاہد زمان ہی کو چیف سیکرٹری کے عہدے پر کام جاری رکھنے کو کہا گیا،اس سے صوبے میں اچھے کام کا تسلسل جاری رہا،چیف سیکرٹری نے نئی وزیراعلیٰ کو بہت سے نئے پروجیکٹس کے بارے میں بھی بتایا کہ وہ ان پر فوری طور پر کام شروع کر سکتی ہیں۔

پٹرول کے بعد ایل پی جی کی قیمتوں میں بھی ردوبدل

اب جبکہ صوبے کی نئی حکومت تشکیل پا کر اپنا پہلا مہینہ مکمل کر چکی ہے تو وہی بیوروکریسی مریم نواز صاحبہ کے ساتھ بھی مکمل تعاون کر رہی ہے، جس کے مثبت نتائج سامنے آنے کی اُمید کی جا رہی ہے، لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ جو کوتاہیاں گزشتہ دور حکومت میں ہوئی تھیں وہ اس دورِ حکومت میں نہ دہرائی جائیں۔ ترقیاتی کاموں پر ضرور توجہ دی جائے لیکن عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے کے لئے بھی اقدامات ہوتے نظر آنا چاہئیں،گڈ گورننس یہ نہیں کہ آپ رمضان بازار لگا لیں، یوٹیلٹی سٹورز پر کنٹرولڈ نرخوں پر لوگوں کو اشیاء فراہم کر دیں،بلکہ گڈ گورننس اس صورت حال کا نام ہے کہ عام اور کھلی مارکیٹ میں بھی کوئی بندہ چیزیں ذخیرہ نہ کر سکے اور کوئی تاجر حکومت کی طے کردہ قیمتوں سے زیادہ نرخ وصول نہ کر سکے، قوانین موجود ہیں ان کا نفاذ اور استعمال اتنا سخت ہونا چاہئے کہ کوئی بھی ان سے روگردانی کے بارے میں سوچ نہ سکے اور یہی گڈگورننس ہو گی۔

شاہین شاہ آفریدی کرکٹ بورڈ سے جاری بیان سے لاعلم نکلے

QOSHE -        گڈ گورننس کو یقینی بنائیں - محسن گواریہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

       گڈ گورننس کو یقینی بنائیں

7 0
01.04.2024

ہمارے ہاں گڈ گورننس کی بات تو بہت کی جاتی ہے لیکن کبھی کسی نے غور کیا،گڈ گورننس دراصل ہے کیا؟ اس کے پیرامیٹرز کیا ہیں؟ یعنی کہاں سے کہاں تک گڈ گورننس ہوتی ہے اور بیڈ گورننس کا آغاز کیسے اور کہاں سے ہوتا ہے؟ گڈ گورننس کا تعلق پیش بینی،کھلے پن اور روشن خیال پالیسی سازی سے ہوتا ہے۔ پیشہ ورانہ اخلاقیات سے لیس بیوروکریسی اپنے اقدامات اور پالیسیوں کے لئے جواب دہ انتظامیہ،عوامی معاملات میں حصہ لینے والی ایک مضبوط سول سوسائٹی اور سب سے بڑھ کر قانون کی حکمرانی، یہ سبھی گڈ گورننس کے ماخذ ہیں،گڈ گورننس کا مطلب کسی ملک کے سماجی اور معاشی وسائل کی اس انداز میں مؤثر انتظام کاری ہے جو کھلی، شفاف، جوابدہی پر مبنی اور منصفانہ ہو۔ بیورو کریسی کو حکمرانی کے سب سے طاقتور آلات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، اس کے ذریعے ہی عوامی پالیسیوں کو شکل دی جاتی ہے اور ان پر عملدرآمد بھی ہوتا ہے، اس لئے اچھی حکمرانی کے لئے لامحالہ ملک میں مؤثر بیوروکریسی کی ضرورت ہوتی ہے۔

قومی ٹیم میں قیادت کی تبدیلی پر پی سی بی کی جانب سے واضاحتی بیان جاری

ذرا سوچئے، قومی سطح پر گورننس کے حوالے سے ماضی کے ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے ادوار جبکہ پاکستان میں پنجاب کے چند وزرائے اعلیٰ کے دورِ حکومت کو ہی کیوں یاد کیا جاتا ہے؟ کسی اور دور کو کیوں یاد نہیں کیا جاتا؟ وجہ ایک ہی ہے گڈ گورننس اور عوام کی توقعات پرپورا اترنا۔ کچھ نہ کچھ ہوتا نظر آنا چاہئے، جمود کسی کو پسند نہیں، عوام نے انہی ادوار کو پسند کیا، جن میں انہیں کچھ ہوتا نظر آیا اور یہ اسی وقت نظر آتا ہے جب حکمران اور بیوروکریسی ایک پیج پر ہوں۔

حکومت یا حکمران اگر بیوروکریسی پر قدغن لگائے گا، اسے کام کرنے کی آزادی نہ دی جائے، اس سے ایسے........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play