محبوب چاہے جتنی بھی بے اعتنائی برتتا رہے جونہی ذرا سی توجہ بھی دے تو چاہنے والے کی ساری کلفتیں دور ہو جاتی ہیں۔ وہ خوشی سے دیوانہ ہو جاتا ہے، سارے رنج سارے گلے شکوے بھول کر محبوب کی تعریف میں رطب اللسان ہو جاتا ہے۔ امریکہ سے تعلق بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ایک تاریخ ہے، جو ہمیں بتاتی ہے امریکہ نے کہاں کہاں نہر والے پُل پر بُلا کے توجہ کسی اور طرف کی تھی۔ شاید جدید دنیا میں امریکہ کی تابعداری میں اتنی قربانیاں کسی اور ملک نے نہ دی ہوں جتنی پاکستان نے دی ہیں۔عام قربانیاں نہیں بلکہ جانوں کی قربانی۔ اُس کی لگائی ہوئی آگ میں خود کو جھونک کر ہم نے80 ہزار جانیں گنوائیں اور یہ سلسلہ ابھی رکا نہیں،دہشت گردی کے نام پر ہم پاکستانی واقف تک نہیں تھے،پھر ہم امریکہ کے سٹرٹیجک پارٹنر بن گئے،اُس کی جنگ میں فرنٹ لائن سٹیٹ بن کر ہم نے اپنا سینہ پیش کر دیا،اس کے بدلے میں ہمیں ملا کیا، کہا جاتا ہے ڈالر ملے، مگر یہ ڈالر گئے کہاں،کن ممالک کے بینکوں میں محفوظ ہو گئے۔پاکستان میں تو غربت و افلاس ہی بڑھی،اُس پر دہشت گردی کا عذاب علیحدہ نازل ہو گیا۔پہلے امریکہ نے ہم سے مجاہدین بنوانے کا کام لیا، جب مقصد پورا ہو گیا تو انہی مجاہدین کو دہشت گرد قرار دے کر مارنے کی ذمہ داری سونپ دی، ہم بھی بے چون و چرا یہ سب کچھ کرتے چلے گئے کہ اس کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔آئی ایم ایف کو ہماری معاشی شہ رگ پر مسلط کر کے امریکہ نے پہلے گلے میں جو طوق غلامی ڈالا تھا، وہ وقت کے ساتھ ساتھ ایک پھندہ بنتا گیا۔آج کے حالات سب کے سامنے ہیں آئی ایم ایف کی اجازت کے بغیر سانس لینا بھی مشکل ہو چکا ہے۔نئے وزیر خزانہ کی تان ہی اس بات پر ٹوٹتی ہے مالی سال سے پہلے نئے معاہدے میں جانا چاہتے ہیں، اللہ رے یہ بے تابی، گویا آئی ایم ایف کے سامنے دیدہ و دل فرش راہ کر دیئے گئے ہیں جو چاہے، جو شرائط منوائے،جو حکم صادر فرمائے سر تسلیم خم کرنے کے لئے تیار ہیں۔

بابر اعظم کو ایک بار پھر قومی ٹیم کا کپتان بنا دیا گیا

اب ایسے میں یہ خوشخبری آئی ہے،جی ہاں میں اسے خوشخبری ہی کہوں گا کہ صدر جوبائیڈن نے وزیراعظم شہباز شریف کو خط لکھ دیا ہے، جس میں انہیں عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دی ہے یہ مژدہ بھی سنایا ہے پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں اور مکمل تعاون جاری رکھیں گے۔حکومتی عہدیدار اِس لئے پھولے نہیں سما رہے کہ جوبائیڈن نے ایک عرصے بعد پاکستان کے ساتھ براہ راست رابطہ کیا ہے۔وہ جب امریکی صدر بنے تو اُس وقت کی پاکستانی حکومت یعنی وزیراعظم عمران خان سے کھنچے کھنچے رہے۔سفارتی سطح پر بہترین کوششیں کی گئیں کہ برف پگھلے اور گرم جوشی کے تعلقات بحال ہوں،مگر کامیابی نہ ملی۔ بعض ذرائع کہتے ہیں اِس عدم تعلق کی وجہ سے عمران خان خاصے نفسیاتی دباؤ میں رہے اور بعدازاں جب سائفر کا معاملہ آیا تو اُن کے ضبط کا بندھ ٹوٹ گیا۔ انہوں نے براہِ راست اپنی حکومت گرانے کا الزام امریکہ پر لگایا اور بظاہر پاک امریکہ تعلقات ایک نازک مرحلے میں داخل ہو گئے۔اب امریکی صدر جوبائیڈن نے ایک ماہ سے زائد گزر جانے کے بعد وزیراعظم شہباز شریف سے خط لکھ کر رابطہ کیا ہے،ابھی اگلے چند دن میں فون کا مرحلہ بھی آ سکتا ہے۔اس خط میں صدر جوبائیڈن نے وہی روایتی باتیں کی ہیں، جو سفارتی زبان کا حصہ ہوتی ہیں۔ خط کے مندرجات پڑھ کر لگتا ہے امریکہ پاکستان کو معاشی گرداب اور بحرانوں سے نکالنے کے لئے بے تاب ہے۔ صحت، ترقی، معیشت، ماحولیاتی بہتری، پائیدار زرعی ترقی، انسانی حقوق کے تحفظ اور سب کے لئے تعلیم جیسے نکات بڑے پُرکشش ہیں۔خطے میں اہم ترین چیلنجز کا سامنا کرنے کے لئے دونوں ممالک میں مثالی معاون اور ہم آہنگی پر بھی زور دیا گیا ہے اور یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ کھڑا رہے گا۔ مبصرین کا کہنا ہے اس موقع پر کہ جب امریکہ میں صدارتی انتخاب قریب آ رہے ہیں،جوبائیڈن کا یہ خط اُن کی اپنی ضرورت تھا، کیونکہ سابق صد ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کو متاثر کرنے کے لئے یہ بیانیہ اختیار کئے ہوئے ہیں کہ دوبارہ صدر بن کر وہ عمران خان کو رہا کرائیں گے،بلکہ انہیں دوبارہ وزیراعظم بھی بنوائیں گے۔اگرچہ یہ سیاسی ضرورت کے تحت دیا گیا بیان ہے تاہم اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان امریکی سیاست میں ایک خاص اہمیت اختیار کر چکا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں امریکی کانگریس کے اندر اِس بات کی گونج موجود ہے کہ رجیم چینج میں امریکہ کا کوئی کردار رہا ہے یا نہیں۔کانگریس کمیٹی میں ڈونلڈ لو کی طلبی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی،جوبائیڈن انتظامیہ غالباً اس الزام سے خود کو بری الذمہ قرار دینا چاہتی ہے۔امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کی طرف سے متعدد بار اس حوالے سے بیانات بھی جاری ہو چکے ہیں،جن میں عمران خان کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کیا پاکستان امریکہ کے اندر کی اس صورتحال سے سیاسی فائدہ اُٹھا سکتا ہے؟کیا معیشت کی بحالی کے لئے صرف زبانی جمع خرچ سے آگے بھی بڑھنے کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے؟ اس کا انحصار پاکستان کی نئی حکومت پر ہے،جو خود اندرونی سیاسی دباؤ میں ہونے کی وجہ سے مدد کے لئے اِدھر اُدھر دیکھ رہی ہے۔

پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی نے ماضی کی تمام غلط فہمیوں کو دور کر کے آگے بڑھنے پر اتفاق کرلیا

بدقسمتی سے پاکستان کے ساتھ امریکہ کا رویہ ایک وڈیرے جیسا رہا ہے جو دعوے تو بہت کرتا ہے، مگر عملاً اُس کی کوشش یہ ہوتی ہے اُس کے مزارعے پاؤں پر نہ کھڑے ہو سکیں۔ وہ مختلف دھمکیوں، حیلے بہانوں، دباؤ اور پابندیوں کے ذریعے انہیں سر اٹھا کے جینے نہیں دیتا۔ البتہ اُن کی خوشی غمی میں وڈیرا بن کر شریک ضرور ہوتا ہے۔ مثلاً اب یہی دیکھئے پاکستان کو شدید معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔بجلی بحران کے بعد اب گیس کا بحران ملکی معیشت کی کمر توڑ رہا ہے، صنعتوں کو گیس سپلائی نہیں ہو رہی اور گھریلو صارفین کے بل اتنے زیادہ آ رہے ہیں کہ انہوں نے میٹر کٹوانے شروع کر دیئے ہیں۔ اگر امریکہ واقعی یہ چاہتا ہے پاکستان معاشی بحران سے نکلے تو اسے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی حمایت کرنی چاہئے،مگر اُس کی منافقت کا رویہ یہ ہے کہ اُس نے باقاعدہ دھمکی دے کر یہ منصوبہ رکوا دیا ہے،حالانکہ یہ منصوبہ تکمیل کے قریب ہے اور اس کے ذریعے پاکستان کو سستی گیس مہیا ہو سکتی ہے،جبکہ اِس وقت پاکستان مہنگی ایل این جی درآمد کر رہا ہے جس کا امپورٹ بل اربوں ڈالر بنتا ہے۔ ہماری حکومتوں میں کبھی اتنا دم خم نہیں رہا کہ امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے یہ باور کرائیں،ہم ایک خود مختار ملک ہیں اور ہمیں دیگر ممالک سے معاہدے کرنے کی آزادی حاصل ہے۔ دوسری طرف امریکی دباؤ پر ہم نے سی پیک کو بھی ادھورا چھوڑا ہوا ہے ایک زمانہ تھا ہم یہ بتاتے نہیں تھکتے تھے، سی پیک ہمارے لئے گیم چینجر ہے، آج اُس کا نام لیتے ڈرتے ہیں تو صاحبو! جوبائیڈن کے خط پر خوشیاں منانے کی ضرورت نہیں ایسے خط امریکیوں کے نزدیک صرف جھوٹے لو لیٹر ہوتے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان کے عہدے کی میعاد سے متعلق خبروں پر عطاء اللّٰہ تارڑ کا بیان سامنے آگیا

QOSHE -  جھوٹے لو لیٹر - نسیم شاہد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

 جھوٹے لو لیٹر

8 0
31.03.2024

محبوب چاہے جتنی بھی بے اعتنائی برتتا رہے جونہی ذرا سی توجہ بھی دے تو چاہنے والے کی ساری کلفتیں دور ہو جاتی ہیں۔ وہ خوشی سے دیوانہ ہو جاتا ہے، سارے رنج سارے گلے شکوے بھول کر محبوب کی تعریف میں رطب اللسان ہو جاتا ہے۔ امریکہ سے تعلق بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ایک تاریخ ہے، جو ہمیں بتاتی ہے امریکہ نے کہاں کہاں نہر والے پُل پر بُلا کے توجہ کسی اور طرف کی تھی۔ شاید جدید دنیا میں امریکہ کی تابعداری میں اتنی قربانیاں کسی اور ملک نے نہ دی ہوں جتنی پاکستان نے دی ہیں۔عام قربانیاں نہیں بلکہ جانوں کی قربانی۔ اُس کی لگائی ہوئی آگ میں خود کو جھونک کر ہم نے80 ہزار جانیں گنوائیں اور یہ سلسلہ ابھی رکا نہیں،دہشت گردی کے نام پر ہم پاکستانی واقف تک نہیں تھے،پھر ہم امریکہ کے سٹرٹیجک پارٹنر بن گئے،اُس کی جنگ میں فرنٹ لائن سٹیٹ بن کر ہم نے اپنا سینہ پیش کر دیا،اس کے بدلے میں ہمیں ملا کیا، کہا جاتا ہے ڈالر ملے، مگر یہ ڈالر گئے کہاں،کن ممالک کے بینکوں میں محفوظ ہو گئے۔پاکستان میں تو غربت و افلاس ہی بڑھی،اُس پر دہشت گردی کا عذاب علیحدہ نازل ہو گیا۔پہلے امریکہ نے ہم سے مجاہدین بنوانے کا کام لیا، جب مقصد پورا ہو گیا تو انہی مجاہدین کو دہشت گرد قرار دے کر مارنے کی ذمہ داری سونپ دی، ہم بھی بے چون و چرا یہ سب کچھ کرتے چلے گئے کہ اس کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔آئی ایم ایف کو ہماری معاشی شہ رگ پر مسلط کر کے امریکہ نے پہلے گلے میں جو طوق غلامی ڈالا تھا، وہ وقت کے ساتھ ساتھ ایک پھندہ بنتا گیا۔آج کے حالات سب کے سامنے ہیں آئی ایم ایف کی اجازت کے بغیر سانس لینا بھی مشکل ہو چکا ہے۔نئے وزیر خزانہ کی تان ہی اس بات پر ٹوٹتی ہے مالی سال سے پہلے نئے معاہدے میں جانا چاہتے ہیں، اللہ رے یہ بے تابی، گویا........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play