لیکن پہلے چیف جسٹس فائز عیسیٰ کے تدبر کی ستائش جنہوں نے 6ججوں کے خط سے پیدا شدہ بحران سے ملک کو بڑی بصیرت اور خاموشی سے نکال دیا۔ استاد محترم نے6ججوں کا خط بنام سپریم جوڈیشل کونسل دے کر حکم دیا کہ اگلا کالم اس پر آنا چاہیے۔12صفحاتی راگ مالا بار بار پڑھی۔ دستور متصور کیا، کچھ یاد نہ آیا تو دستور کھولا، رات گئے پڑھتا رہا۔ بارے خدا ذہن ریختہ سا ہوگیا تو سوچا صبح استاد محترم سے پوچھوں گا:"اس رام لیلا کا جوڑ سپریم جوڈیشل کونسل سے کس نے بنایا، کونسل تو عدلیہ کے خلاف دادرسی کی جگہ ہے اور خط خفیہ ادارے کے خلاف ہے۔ صبح اخبار دیکھے تو کیا ماہرین دستور اور کیا ٹام، ڈک، ہیری اور کیا اپنے ایرے غیرے نتھو خیرے، سبھی ٹھٹھا مخول کر رہے تھے کہ کونسل خفیہ ایجنسی کے خلاف بھی کارروائی کا اختیار رکھتی ہے، واہ۔ تب اپنی ہی تجویز یاد آئی کہ سال میں کم از کم ایک دفعہ تمام کلیدی عہدے داروں کا نفسیاتی معائنہ ہونا چاہیے۔

پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی نے ماضی کی تمام غلط فہمیوں کو دور کر کے آگے بڑھنے پر اتفاق کرلیا

جسٹس شوکت صدیقی کہہ رہے تھے کہ جب میں نے 2018ء میں اسی خفیہ ادارے پر پہلا پتھر پھینکا تو میرے دو بیٹوں پر قاتلانہ حملے ہوئے، بیٹی کو اغوا کرنے کی کوشش کی گئی۔ تب ان خط نویسوں میں سے چار میرے رفیق کار تھے،لیکن میں ان سب کے لیے اجنبی قرار پایا۔ سب نے مجھ سے قطع تعلق کر کے ہاتھ ملانا بھی چھوڑ دیا. اپنی بیٹی کی شادی پر انہیں بلایا تو ایک بھی نہ آیا۔ تب یہ لوگ دیوار کی دوسری جانب کھڑے تھے۔ مجھے جسٹس صدیقی سے ہمدردی تو بہت ہے، پر کوئی تعجب نہیں ہوا۔ پھر اسی حالیہ خط کے ساتھ دوسرا خط دیکھا جو ان کے چیف کے نام تھا۔ذہن میں یزداں اور اہرمن والے مکالمے کا مصرع سوالی بن کر متصرف ہوا:کب کھلا تجھ پر یہ راز، 9مئی سے پہلے کہ بعد ”تاریخ دیکھی تو 10 مئی تھی۔ ادھر سعد رفیق 6 ججوں کے ضمیر جاگنے پر مبارک سلامت کا یوں غوغا بپا کیے ہوئے تھا: "میں اور سلمان رفیق حفاظتی ضمانت کے لئے 2018ء میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوئے تو دو ججوں کے پینل نے ضمانت کی بجائے میرا تمسخر اڑایا۔تذلیل اضافی کارروائی تھی۔ سنا ہے اب ضمیر جاگ گئے ہیں، مبارک"۔ آج اپنی خواب گاہوں سے کیمرے نکلنے پر جسٹس صدیقی کے سائے تلے پناہ لینے والے ان معززین کو دیکھ کر پروین شاکر بھی گنگناتی پائی:

چیف جسٹس پاکستان کے عہدے کی میعاد سے متعلق خبروں پر عطاء اللّٰہ تارڑ کا بیان سامنے آگیا

بستی میں جتنے آب گزیدہ تھے سب کے سب

دریا کے رخ بدلتے ہی تیراک ہو گئے

آئین ججوں کو خدائی اختیار نہیں دیتا، ورنہ ہر ممکنہ چیز ان کے اختیار میں ہے۔ آئی ایس آئی سیکٹر کمانڈر وہیں کا رخ کرتا ہے جہاں امکانات کے دیے روشن ہوں، جہاں چاہ وہاں راہ (where there is a will there is a way) آئی ایس آئی کے سیکٹر کمانڈر کے رابطہ کرتے ہی ان با اختیار جج صاحبان نے اسے حوالہ زنداں کیوں نہیں کیا؟ توہین عدالت کی سزا کیوں نہیں دی؟ ہمارے پروفیسر زبیر کے پاس بورڈ کے پرچے آئے تو ایک طالب علم کا ابا پھلوں کا ٹوکرا اٹھائے ان کے گھر جا پہنچا۔ ٹوکرا تو انہوں نے باہر خالی پلاٹ پر دے مارا۔ پھر اپنا ہاتھ اس کے چہرے پر تان کر بولے: "تھپڑ سے اس لیے نہیں مارتا کہ میرے گھر بیٹھے ہو، چلو دفع ہو جاؤ"۔

میرا کسی سیاسی جماعت یا گروپ سے کوئی تعلق نہیں، بابر غوری کا بیان

میں 1986ء میں اپنے ادارے میں 16ویں سکیل تک کی بھرتیاں کیا کرتا تھا۔ ہر تیسرے دن کسی وزیر کا سفارشی خط اٹھائے کوئی افسر آ دھمکتا۔ تنگ آکر ایک خط کے چار ٹکڑے کر کے اسی افسر کے منہ پر یہ کہہ کر دے مارے کہ جاؤ انہیں میری طرف سے وزیر کے منہ پر مارنا۔ سال بھر میں میری وہ شہرت بن گئی کہ میں بعد میں پروفیسر بھی بھرتی کرتا رہا لیکن سفارش کی جسارت کبھی کوئی نہ کر سکا۔ ہمیں ہاسٹل کے لیے پلازہ چاہیے تھا۔ پلازے کا مالک ریٹائرڈ کرنل میرے کزن مرحوم کرنل ظفر کو کسی اور بہانے سے گھر لے آیا۔ اس نے دیکھا کہ 60کی دہائی کا چار ٹانگوں والا پرانا بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی میری کسمپرسی کا پول کھول رہا تھا، بولے:"جناب اسے پھینکیں دو دن میں نیا کلرڈ ٹی وی پہنچ جائے گا"اگلے دن اپنے باس ڈاکٹر انیس (رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلر) کو پیشکش بتائی۔ انہوں نے کرنیل صاحب کا داخلہ بند کرا دیا کہ عدالتی اختیارات تو تھے نہیں۔

پیٹرول پمپ پر 3 موٹرسائیکل سوار آئے، درجنوں لوگوں کے سامنے کیشیئر سے نقدی چھین کر فرار

سول جج تا سیشن جج پر ایسٹا کوڈ لاگو ہوتا ہے۔ کسی جج کو محکمانہ شکایت ہو تو وہ انفرادی درخواست دے سکتا ہے۔ شکایت کئی ججوں کو ہو تو بھی انفرادی شکایت ہی ممکن ہے، اجتماعی درخواست ممکن نہیں۔ دی جائے تو یہ ٹریڈ یونین ازم ہوگا، مرتکبین کو سزا دی جا سکتی ہے۔ اسی طرح اعلیٰ عدلیہ کا کوڈ آف کنڈکٹ، ایسٹا کوڈ سے مماثل ہے۔ ججوں کا افسر اعلیٰ صدر مملکت ہے۔ خفیہ ادارے کے خلاف چھ ججوں کی حالیہ اجتماعی درخواست کا تعلق نہ تو سپریم جوڈیشل کونسل سے ہے اور نہ چیف جسٹس آف پاکستان سے۔ عام جج یا سرکاری ملازم ایسی اجتماعی درخواست دیتے تو ٹریڈ یونین ازم کے الزام کی لپیٹ میں آ کر معطل ہو چکے ہوتے. مستزاد یہ کہ یہ 6معززین جوڈیشل کنونشن کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں تاکہ عدلیہ پکی ٹریڈ یونین بن جائے۔

اسرائیل کی غزہ جنگ کو مزیدپھیلانے کی دھمکی

یہ معززین اس خط میں اپنے چیف جسٹس کو بھی یوں ملزم بنا بیٹھے:"ہم نے چیف جسٹس سے آئی ایس آئی ملازمین کی مداخلت کی شکایت کی تو وہ بولے کہ ڈی جی- سی سے میری بات ہو گئی ہے۔انہوں نے یقین دلایا ہے کہ آئی ایس آئی کا کوئی ملازم کسی جج سے رابطہ نہیں کرے گا".اس الزام کی تصدیق تکذیب چیف خود کریں گے۔ ڈی جی سی بر بنائے عہدہ چیف جسٹس کے ماتحت سیشن جج کے مساوی ہوتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ چیف جسٹس نے شکایت سنتے ہی اسے دفتر بلا کر توہین عدالت کی سزا کیوں نہیں دی۔ اگر یہ جج سچے ہیں تو چیف جسٹس بھی اس لیے کٹہرے میں ہوں گے کہ گویا وہ خفیہ ادارے سے رابطے میں رہتے ہیں۔ کیوں رہتے ہیں؟بروقت اپنے اختیارات کیوں استعمال نہیں کرتے؟

وزیراعلیٰ پنجاب کا ہسپتال میں ٹک ٹاک ویڈیوبنانے کا نوٹس،ایم ایس معطل

سابق کمشنر راولپنڈی کے انتخابی دھاندلی کے اپنے اعترافی بیان پر تحریک انصاف کے یہ بیانات آئے تھے کہ ایسے ہی مزید اعترافات آ کر بھونچال پیدا کریں گے۔ اس خط نے واقعی ارتعاش پیدا کیا ہے۔ کچہریوں کے لوگ ججوں کے سیاسی میلان سے خوب واقف ہوتے ہیں لیکن اس خط نے پوری قوم سے ان چھ معززین کا بھرپور تعارف کرا دیا ہے۔ باقی کسر ان کے حق میں تحریک انصاف کے ریلی تکالنے کے اعلان نے نکال دی ہے۔ سپریم کورٹ میں یہ رٹ دائر ہو چکی ہے کہ الزامات کے فیصلے تک ان 6 ججوں کو مقدمات کی سماعت سے روک دیا جائے جو شاید ممکن نہ ہو, لیکن یہ ممکن ہے کہ ان معززین کو کوئی سیاسی مقدمہ دے کر انہیں مزید آزمائش میں نہ ڈالا جائے۔ انہیں نکاح، طلاق، کرایہ داری، اور فوجداری مقدمات ہی دیے جائیں، تا وقتیکہ کمیشن کی سفارشات پر عمل ہو جائے۔ امید ہے محترم چیف جسٹس اس پر غور کریں گے۔ (جاری ہے)

QOSHE - پروفیسر زبیر کا طمانچہ اور ججوں کے الزامات (۱) - ڈاکٹر شہزاد اقبال شام
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

پروفیسر زبیر کا طمانچہ اور ججوں کے الزامات (۱)

26 1
31.03.2024

لیکن پہلے چیف جسٹس فائز عیسیٰ کے تدبر کی ستائش جنہوں نے 6ججوں کے خط سے پیدا شدہ بحران سے ملک کو بڑی بصیرت اور خاموشی سے نکال دیا۔ استاد محترم نے6ججوں کا خط بنام سپریم جوڈیشل کونسل دے کر حکم دیا کہ اگلا کالم اس پر آنا چاہیے۔12صفحاتی راگ مالا بار بار پڑھی۔ دستور متصور کیا، کچھ یاد نہ آیا تو دستور کھولا، رات گئے پڑھتا رہا۔ بارے خدا ذہن ریختہ سا ہوگیا تو سوچا صبح استاد محترم سے پوچھوں گا:"اس رام لیلا کا جوڑ سپریم جوڈیشل کونسل سے کس نے بنایا، کونسل تو عدلیہ کے خلاف دادرسی کی جگہ ہے اور خط خفیہ ادارے کے خلاف ہے۔ صبح اخبار دیکھے تو کیا ماہرین دستور اور کیا ٹام، ڈک، ہیری اور کیا اپنے ایرے غیرے نتھو خیرے، سبھی ٹھٹھا مخول کر رہے تھے کہ کونسل خفیہ ایجنسی کے خلاف بھی کارروائی کا اختیار رکھتی ہے، واہ۔ تب اپنی ہی تجویز یاد آئی کہ سال میں کم از کم ایک دفعہ تمام کلیدی عہدے داروں کا نفسیاتی معائنہ ہونا چاہیے۔

پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی نے ماضی کی تمام غلط فہمیوں کو دور کر کے آگے بڑھنے پر اتفاق کرلیا

جسٹس شوکت صدیقی کہہ رہے تھے کہ جب میں نے 2018ء میں اسی خفیہ ادارے پر پہلا پتھر پھینکا تو میرے دو بیٹوں پر قاتلانہ حملے ہوئے، بیٹی کو اغوا کرنے کی کوشش کی گئی۔ تب ان خط نویسوں میں سے چار میرے رفیق کار تھے،لیکن میں ان سب کے لیے اجنبی قرار پایا۔ سب نے مجھ سے قطع تعلق کر کے ہاتھ ملانا بھی چھوڑ دیا. اپنی بیٹی کی شادی پر انہیں بلایا تو ایک بھی نہ آیا۔ تب یہ لوگ دیوار کی دوسری جانب کھڑے تھے۔ مجھے جسٹس صدیقی سے ہمدردی تو بہت ہے، پر کوئی تعجب نہیں ہوا۔ پھر اسی حالیہ خط کے ساتھ دوسرا خط دیکھا جو ان کے چیف کے نام تھا۔ذہن میں یزداں اور اہرمن والے مکالمے کا مصرع سوالی بن........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play