مشہور فلاسفر افلاطون کا قول ہے کہ حاکم وقت ایک دریا کی مانند ہے اور رعایا چھوٹی ندیاں اگر دریا کا پانی میٹھا ہوگا تو ندیاں بھی میٹھا پانی دیں گی اور اگر دریا کا پانی تلخ ہوگاتو لازمی ندیوں کا پانی بھی تلخ ہوگا، اس کے شاگرد سقراط نے ایک بار کہا تھا کہ عدل کا قیام اسی معاشرے میں ممکن ہے جس کے افراد قدرتی صلاحیتوں کے مطابق اپنے اپنے فرائض انجام دے رہے ہو۔ دوسری جانب پاکستانی سیاسی تاریخ کا ایک کڑوا سچ ہے جس کے ہاتھ میں جب تک لاٹھی رہی تب تک وہ سب کو ہانکنے میں کامیاب رہا،اس ملک میں عدل کا نام لیا جاتا رہا مگر اس کے عملی نفاذ کے لیے کوشش نہیں کی گئی۔یہ حقیقت ہے کہ عدل کے ستون پر ہی معاشرے کھڑے ہوتے ہیں وگرنہ عدل کی غیرموجودگی میں اخلاقیات پر بات کرنا بھی گناہ سمجھا جاتا ہے۔عدل کے نفاذ کے عملی فقدان کی وجہ سے ہماری عدلیہ سب سے زیادہ متاثرہوئی اور اسی وجہ سے آج بھی ہماری عدلیہ ماضی کے متنازعہ فیصلوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔عدلیہ کے اس کمزور کردار کی وجہ سے ہمارے ہاں ایک بات مشہور ہے ”وکیل کی کرناں اے،جج ای کر لو“۔مگرپچھلے دنوں سپریم کورٹ کی طرف سے تازہ ہوا کا پہلا جھونکا تب آیا جب ذوالفقار علی بھٹو کیس کے پھانسی والے فیصلے کو غلط قرار دیا گیا جبکہ دوسرے جھونکے میں سپریم کورٹ کے ایک جسٹس کو کوڈ آف کنڈکٹ پرپورا نہ اُترنے پر فارغ کیا گیابظاہر یہ اس بوجھ سے نکلنے کی سنجیدہ کوششیں ہیں وگرنہ مولوی تمیز الدین کیس اور جسٹس منیر کا نظریہ ضرورت کے تحت دیا گیا فیصلہ اور اس کے مضمرات میں مسلسل فوجی لشکر کشی،عدلیہ کے منہ پرابھی بھی سیاہ دھبے کی صورت میں موجود ہیں بہر حال ہماری عدلیہ ماضی کے بوجھ اُتارنے کے موڈ میں نظر آتی ہے جو خوش آئند بات ہے ان دنوں سپریم جوڈیشل کونسل کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کی جانب سے لکھے گئے خط کی خوب دھوم ہے جس میں حالیہ سالوں میں مختلف نوعیت کے مقدمات کے دوران سرکاری اداروں کی جانب سے معزز ججزپر دباؤ ڈالے جانے کا ذکر ہے۔

بھائی اور باپ کے ہاتھوں قتل ہونے والی 22 سالہ ماریہ کے کیس میں اہم پیشرفت

خط میں متعلقہ جج صاحبان نے اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے مدد مانگی ہے۔خط میں کہا گیا ہے کہ ماضی قریب میں سرکاری اداروں کی جانب سے مرضی کے عدالتی فیصلے حاصل کرنے کے لیے جج صاحبان کو ڈرانے دھمکانے کے علاوہ تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے لیکن خط میں یہ نہیں بتایا گیاکہ کیادباؤ کے بعد فیصلے انصاف پر ہوئے یا پھراداروں کی مرضی پر۔نیز اتنا عرصہ خاموش رہنے کے بعد اب اچانک کیا ہوا کہ خط لکھنا پڑ گیا؟۔شایداس کے جواب کے لیے ہمیں تھوڑاانتظار کرنا ہوگا۔ یاد رہے کہ پاکستانی عدلیہ کی تاریخ میں ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ حاضر سروس جج صاحبان کی جانب سے سرکاری اداروں کے دباؤ کا ذکرکیا گیا ہو۔ سابق جج شوکت علی صدیقی نے 2018ء میں راولپنڈی بار سے بحیثیت جسٹس ہائی کورٹ خطاب کرتے ہوئے سرکاری اداروں کی جانب سے من پسند فیصلوں کے لیے دباؤ کا واشگاف ذکر کیا تھا۔انہوں نے اس تقریر سے پہلے اُ س وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار سے سرکاری افسروں کی جانب سے مرضی کے فیصلوں کے حصول لیے ناجائزدباؤ کی شکایت کرنے کے لیے ملاقات کا وقت مانگا تھا جوا نہیں نہیں دیا گیا جبکہ سچ بولنے کی پاداش میں معزز جج صاحب کو ملازمت سے ہی برخاست کر دیا گیا۔شوکت صدیقی نے اپنی تقریر میں بار ارکان کو بتایا تھا کہ کس طرح سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے مقدمات میں مرضی کے فیصلے حاصل کرنے کے لیے پریشر ڈالا تھااور تعاون نہ کرنے پر عبرت کا نشان بنانے کی دھمکیاں بھی دی گئیں مگر قربان جائیں جسٹس (ر) شوکت صدیقی پر جنہوں نے حلف کی پاسداری کو مقدم جانا۔کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ”انصاف کے لیے اکیلے لڑنا،پوری دنیا کا سلطان بننے سے بہتر ہے“لہذا وہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ نے قومی ٹیم کیلئے کوچز کی تلاش میں ایک اور قدم اٹھا لیا

منصب کی قربانی دے دی مگر حلف پر آنچ نہ آنے دی۔یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ جسٹس(ر) شوکت صدیقی نے دباؤ ڈالنے والوں کے براہ راست نام لیے تھے جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے خط میں کوئی نام نہیں لیا گیا۔اس خط کے سامنے آنے کے بعد یہ سوال بہت اہم ہے کہ جب ایک عام قانون کا طالب علم جانتا ہے کہ خط میں درج مندرجات پر سپریم جوڈیشل کونسل کاروائی کا اختیار نہیں رکھتی تو پھر ہائی کورٹ کے معزز جج صاحبان نے سب جانتے بوجھتے سپریم جوڈیشل کونسل کو کیوں خط لکھا؟۔دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ ہائی کورٹ کے چھ جج صاحبان کے خط کے پبلک ہو جانے پر سپریم کورٹ کیا ایکشن لے گی؟۔اُمید ہے کہ سب سے اہم بات کا جواب جلد مل جائے گا کہ اس خط کا اصل ہدف کون ہے۔کیا اس کا نشانہ وفاقی حکومت ہے؟ کیا سرکاری خفیہ اداروں کو لگام ڈالنا مقصود ہے؟ کیا اس کا براہ راست اثر چیف جسٹس سپریم کورٹ پر ہوگا؟کیا چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کا محاسبہ تو نہیں کیا جا رہا؟۔

بھارتی فلموں کے معروف اداکار 48 سال کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے

پچھلے چند دنوں سے ملک میں دہشت گردی کا جن ایک بار پھر قابو سے باہر ہو رہا ہے مگر ہمارے سجیلے جوانوں نے ہرباراپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے دشمنوں کے عزائم کو خاک میں ملا دیا۔وہ اپنا لہو بہا کر اس پاک سرزمین کی حفاظت کر رہے ہیں۔دوسری طرف کمزورملکی معیشت کو بیرونی سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے تاکہ ملک میں روزگار بڑھے اور خوشحالی آئے مگر بد قسمتی سے ہمارے نا پختہ ذہنوں والے سیاسی اکابرین جو خارجی و اندورنی ایشوز کے علاوہ عوامی مسائل پر بھی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے پر تیار نہیں ہیں اب جج صاحبان کے لکھے گئے خط جیسے اہم اور سنجیدہ مسئلے پر بھی اپنے پرانے طرز عمل کو اختیار کرتے ہوئے سیاست چمکانے کی کو شش کر رہے ہیں ایک جماعت اس میں سے اپنے فائدے کا مطلب نکال رہی ہے جبکہ دوسری جماعت اپنی فتح کا اعلان کر رہی ہے۔پاکستانی سیاسی اکابرین کے اس غیر دانشمندانہ طرزعمل کو مد نظر رکھا جائے تو سوائے افسوس کے اظہار کے اور کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

گزشتہ پورے ہفتے میں ڈالر کتنا سستاہوا ؟ جانئے

QOSHE - جج صاحبان کا خط کس کے لیے بنے گا ”وبال جان“ - عمران امین
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

جج صاحبان کا خط کس کے لیے بنے گا ”وبال جان“

12 1
30.03.2024

مشہور فلاسفر افلاطون کا قول ہے کہ حاکم وقت ایک دریا کی مانند ہے اور رعایا چھوٹی ندیاں اگر دریا کا پانی میٹھا ہوگا تو ندیاں بھی میٹھا پانی دیں گی اور اگر دریا کا پانی تلخ ہوگاتو لازمی ندیوں کا پانی بھی تلخ ہوگا، اس کے شاگرد سقراط نے ایک بار کہا تھا کہ عدل کا قیام اسی معاشرے میں ممکن ہے جس کے افراد قدرتی صلاحیتوں کے مطابق اپنے اپنے فرائض انجام دے رہے ہو۔ دوسری جانب پاکستانی سیاسی تاریخ کا ایک کڑوا سچ ہے جس کے ہاتھ میں جب تک لاٹھی رہی تب تک وہ سب کو ہانکنے میں کامیاب رہا،اس ملک میں عدل کا نام لیا جاتا رہا مگر اس کے عملی نفاذ کے لیے کوشش نہیں کی گئی۔یہ حقیقت ہے کہ عدل کے ستون پر ہی معاشرے کھڑے ہوتے ہیں وگرنہ عدل کی غیرموجودگی میں اخلاقیات پر بات کرنا بھی گناہ سمجھا جاتا ہے۔عدل کے نفاذ کے عملی فقدان کی وجہ سے ہماری عدلیہ سب سے زیادہ متاثرہوئی اور اسی وجہ سے آج بھی ہماری عدلیہ ماضی کے متنازعہ فیصلوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔عدلیہ کے اس کمزور کردار کی وجہ سے ہمارے ہاں ایک بات مشہور ہے ”وکیل کی کرناں اے،جج ای کر لو“۔مگرپچھلے دنوں سپریم کورٹ کی طرف سے تازہ ہوا کا پہلا جھونکا تب آیا جب ذوالفقار علی بھٹو کیس کے پھانسی والے فیصلے کو غلط قرار دیا گیا جبکہ دوسرے جھونکے میں سپریم کورٹ کے ایک جسٹس کو کوڈ آف کنڈکٹ پرپورا نہ اُترنے پر فارغ کیا گیابظاہر یہ اس بوجھ سے نکلنے کی سنجیدہ کوششیں ہیں وگرنہ مولوی تمیز الدین کیس اور جسٹس منیر کا نظریہ ضرورت کے تحت دیا گیا فیصلہ اور اس کے مضمرات میں........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play