معاملہ پنجاب کے”گندمی“ گورنراورایچی سن کالج کے ”گورے“ پرنسپل کے مابین حالیہ محاذ آرائی کا نہیں ہے۔اگر1947 ء سے لے کر آج تک پاکستان کے تمام جملہ مسائل کا ”کھُرا“ نکالیں تو وہ سیدھا”کالوں“ اور ”گوروں“ کے درمیان موجود اس ان مٹ لکیر کے آس پاس ملے گا، جو تقسیم کے 77 برسوں بعد بھی عہد غلامی کی یادتازہ کرتی ہے۔البتہ یہ ضرور ہے کہ جیسے جیسے انسان نے ترقی کی منازل طے کیں، ویسے ویسے اس کا طرز زندگی بدلتا گیا اور ساتھ ہی”حاکموں“ کا طریقہ واردات اور محکوموں کی غلامی کے بھی نت نئے انداز نکل آئے۔ نوآبادیاتی نظام میں محکموم ملکوں پر جنگوں اور فوجی طاقت کے ذریعے تسلط قائم کیا جاتا تھا جبکہ مفتوحہ علاقوں میں اپنی حاکمیت قائم رکھنے کیلئے سامراج کو افرادی قوت اور وسائل جھونکنے کے ساتھ ساتھ مسلسل مشق کرنا پڑتی تھی، تاہم آہستہ آہستہ اس حاکمیت کی شکلیں بدل گئیں اور محکموم علاقوں کو بظاہر تو آزادی مل گئی مگران ملکوں کا مالیاتی و تعلیمی نظام اور حکومتی نظم و نسق اداروں کے ذریعے چلایا جانے لگا۔ پاکستانی عوام کی اکثریت آج بھی اس خُوش فہمی کا شکار ہے کہ شاید وہ آزاد ہیں لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے۔ملکی معیشت اور معاشرت سے لے کر طبقاتی نظام تعلیم میں آج بھی ”گوروں“ کا راج ہے، چاہے یہ ”گو رے“ گندمی رنگ کے ہوں، سانولے یا پھر کالے۔

بھائی اور باپ کے ہاتھوں قتل ہونے والی 22 سالہ ماریہ کے کیس میں اہم پیشرفت

معاملہ پاکستان کی طاقت ور ترین حکومتی شخصیت احد چیمہ کے بیٹوں کی فیس معافی کا بھی نہیں ہے، نہ ہی موضوع یہ ہے کہ گورنر پنجاب بلیغ الرحمان نے بورڈ آف گورنرز کی منظوری کے بغیرعیسی اور مصطفی کی فیس معاف کی یا اس سلسلے میں اپنے اختیار اور دیگر قانونی تقاضوں کو بھی مد نظر رکھا۔ یہ بحث بھی لا حاصل ہے کہ ”گورے“ پرنسپل مائیکل تھامسن نے جان بوجھ کر”گیم“ڈالی یا پھر وہ فیس معافی معاملے کو بھی سیاسی رنگ دینے کیلئے استعمال ہو گئے۔ اس شورو غوغے میں ایچی سن کے طلباء کے ”ممی ڈیڈی“ والدین نے لگے ہاتھ گورنر پنجاب کی مداخلت کیخلاف احتجاج بھی کر ڈالا۔ حالانکہ کچھ مختلف حقائق بھی سامنے آ رہے ہیں جن کے مطابق ایچی سن کے پرنسپل کے عہدے کی مدت فروری 2024 ء میں ختم ہو گئی تھی، انہوں نے طلباء سے اپنا الوداعی خطاب بھی کر لیا تھا لیکن ادارے میں نئے داخلوں سمیت مارچ کے مہینے میں کچھ ایونٹس ایسے تھے جن میں پرنسپل کی موجودگی ضروری تھی، لہٰذا انہیں چند ہفتوں کیلئے کام جاری رکھنے کی درخواست کی گئی اور اگر احد چیمہ کے بیٹوں کی فیس معافی کا تنازعہ نہ بھی پیدا ہوتا، تو بھی فاضل پرنسپل یکم اپریل کواپنے عہدے سے سبکدوش ہونے ہی والے تھے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ نے قومی ٹیم کیلئے کوچز کی تلاش میں ایک اور قدم اٹھا لیا

خیر، اس معاملے میں حق، سچ کا ”نتارا“ کرنابھی آج کا مقصد نہیں ہے، بلکہ اصل مدعا یہ ہے کہ پاکستان کا سارا نظام آج بھی کالے، سانولے اور گندمی رنگ کے ”گوروں“ کے مضبوط شکنجے میں ہے۔1947 ء سے لے کر آج تک کے 77 برسوں میں گورے اور کالے کی یہ تفریق اس لئے بھی نہیں مٹ سکی کہ یہاں پر ”ایچی سن“ جیسے تعلیمی ادارے موجود ہیں اور جب تک اس قسم کے تعلیمی ادارے موجود رہیں گے یہ تفریق ”دیوار چین“ کی طرح نمایاں رہے گی۔ یہاں ”کالوں“ سے مُراد پاکستان کے 99 فیصد عوام اور ”گوروں“ سے مُراد ایک فیصد حکمران ہیں۔جنہوں نے باقاعدہ منظم اور یک جان ہو کرپورے سسٹم کو جکڑا ہوا ہے۔اگر ہم اپنے سماج کا باریک بینی سے جائزہ لیں تو آپ کو ہر جگہ تقسیم در تقسیم نظر آئے گی۔ اپنے گھر اور گلی کی نُکڑ سے لے کر محلوں، بازاروں، چوک، چوراہوں، ہسپتالوں، کھیلوں کے میدانوں، دفاتر، مساجد و مدارس غرض ہر جگہ پرمختلف طبقات کی نمائندگی کرنے والے انسانوں کا جم غفیر دیکھنے کو ملے گا۔تفرقے میں پڑے ہوئے یہ تمام تر طبقات باہم دست و گریباں نظر آئیں گے اور اس سب بگاڑ کی وجہ صرف ایک ہے ”یکساں نظام تعلیم“ کا نہ ہونا۔پاکستان کے تمام مسائل کا واحد حل اس ”نظام تعلیم“ کو درست کرنے میں ہے۔ حکمران، پالیسی سازیا بیورو کریٹ عوام کے مسائل کا حل تعلیم کے علاوہ کسی بھی دوسری شئے میں ڈھونڈنے کی کوشش بھی کریں تو سمجھیں وہ عوام کو مزید اُلجھا کر اپنا ”سودا“ بیچ رہے ہیں، کیونکہ اگرہم کرّہ ارض سمیت سات آسمان بھی گھوم پھر کر دیکھ لیں تویکساں اور مساوی تعلیم کے سوا معاشرے کی بہتری کیلئے کوئی دوسرا حل سرے سے موجود نہیں ہے۔

بھارتی فلموں کے معروف اداکار 48 سال کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے

مملکت خُداداد کے معرض وجود میں آنے سے پہلے کیا کچھ ہوا اسے ایک طرف رکھ دیں، گزشتہ 77 برسوں میں پاکستان کی پارلیمنٹ، عدلیہ، انتظامیہ، بیورو کریسی سمیت ملک کا پورا سسٹم چلانے والی حکمران اشرافیہ کو جتنے لوگ ”ایچی سن“ نے دیئے ہیں وہ کسی دوسرے تعلیمی ادارے نے نہیں دیئے۔ تو پھر آپ ریلوے، پی آئی اے، سٹیل مل سے لیکر دیگر سرکاری کارپوریشنوں، محکموں کے اعلی افسروں، سینیٹرز، سپیکرزاورپارلیمنٹیرینز کی کارکردگی اٹھا کر دیکھ لیں تو پتہ چل جائیگا کہ ریاست، سیاست اور معاشرت ہر شئے زوال پذیر کیوں ہے۔ ہر طرف ناکامیوں نے جھنڈے گاڑے ہوئے ہیں۔ غربت، بیماری، بیروزگاری، لا قانونیت اور کرپشن کا دور دورہ ہے۔ گزشتہ پون صدی میں ایچی سن نے کوئی ایک مائی کا لعل ایسا پیدا نہیں کیا جو اس ملک کی عوام کے حقیقی مسائل کو حل کرنا تو دور کی بات ان مسائل کا ادراک ہی رکھتا ہو، اور ادراک ہو بھی کیسے سکتا ہے۔ ایچی سن میں پڑھنے والے کالے، سانولے اور گندمی رنگ والوں کی ”بریڈ“ ہی ”گوری“ ہے۔انہیں ہم بلڈی کالوں کے مسائل کا پتہ کیسے ہوسکتا ہے۔ اگر آپ ایچی سن میں بچہ داخل کروانے کا عمل ہی ملاحظہ کر لیں تو آپ کا سر چکرا جائے گا۔ جبکہ کلاس میں موجود سارے بچے چیف سیکرٹریوں، چیف کمشنروں، ڈی پی او، ڈی سی او، آر پی او، پراپرٹی ٹائیکون، بزنس مینوں، سینٹروں اور پارلیمنٹیریز کے بچے، پوتے اور نواسے وغیرہ ہوتے ہیں۔ایچی سن کے ذریعے یہ تمام”گورے“ گراس روٹ لیول سے آپس میں ”کنیکٹ“ ہو جاتے ہیں جن کو کل وقت صرف یہ سکھایا جاتا ہے کہ یہاں سے باہر نکل کر ”کالوں“ پر کس طرح حکمرانی کرنی ہے۔ سابق بیورو کریٹ اور موجودہ وفاقی وزیر کے بچوں کی فیس معافی کا معاملہ آج کل زبان زد عام ہے لیکن ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے ایچی سن میں تیار ہونیوالی ”بریڈ“ اگرچہ عوامی مشکلات کم کرنے کیلئے پبلک سروس جوائن کرتی ہے تاہم اس بریڈ کا ہر طرح کے عوامی مسئلوں سے کوئی سروکار نہیں۔ میری عوام سے درخواست ہے کہ ایلیٹ کلاس کے ”پھڈوں“ میں پڑنے کی بجائے اپنے گھروں کی دال روٹی پر توجہ دیں۔ بقول ساحر لدھیانوی

گزشتہ پورے ہفتے میں ڈالر کتنا سستاہوا ؟ جانئے

بزم شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی...!!

QOSHE -   گندمی رنگ کے ”گورے“ - صبغت اللہ چودھری
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

  گندمی رنگ کے ”گورے“

19 0
30.03.2024

معاملہ پنجاب کے”گندمی“ گورنراورایچی سن کالج کے ”گورے“ پرنسپل کے مابین حالیہ محاذ آرائی کا نہیں ہے۔اگر1947 ء سے لے کر آج تک پاکستان کے تمام جملہ مسائل کا ”کھُرا“ نکالیں تو وہ سیدھا”کالوں“ اور ”گوروں“ کے درمیان موجود اس ان مٹ لکیر کے آس پاس ملے گا، جو تقسیم کے 77 برسوں بعد بھی عہد غلامی کی یادتازہ کرتی ہے۔البتہ یہ ضرور ہے کہ جیسے جیسے انسان نے ترقی کی منازل طے کیں، ویسے ویسے اس کا طرز زندگی بدلتا گیا اور ساتھ ہی”حاکموں“ کا طریقہ واردات اور محکوموں کی غلامی کے بھی نت نئے انداز نکل آئے۔ نوآبادیاتی نظام میں محکموم ملکوں پر جنگوں اور فوجی طاقت کے ذریعے تسلط قائم کیا جاتا تھا جبکہ مفتوحہ علاقوں میں اپنی حاکمیت قائم رکھنے کیلئے سامراج کو افرادی قوت اور وسائل جھونکنے کے ساتھ ساتھ مسلسل مشق کرنا پڑتی تھی، تاہم آہستہ آہستہ اس حاکمیت کی شکلیں بدل گئیں اور محکموم علاقوں کو بظاہر تو آزادی مل گئی مگران ملکوں کا مالیاتی و تعلیمی نظام اور حکومتی نظم و نسق اداروں کے ذریعے چلایا جانے لگا۔ پاکستانی عوام کی اکثریت آج بھی اس خُوش فہمی کا شکار ہے کہ شاید وہ آزاد ہیں لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے۔ملکی معیشت اور معاشرت سے لے کر طبقاتی نظام تعلیم میں آج بھی ”گوروں“ کا راج ہے، چاہے یہ ”گو رے“ گندمی رنگ کے ہوں، سانولے یا پھر کالے۔

بھائی اور باپ کے ہاتھوں قتل ہونے والی 22 سالہ ماریہ کے کیس میں اہم پیشرفت

معاملہ پاکستان کی طاقت ور ترین حکومتی شخصیت احد چیمہ کے بیٹوں کی فیس معافی کا بھی نہیں ہے، نہ ہی موضوع یہ ہے کہ گورنر پنجاب بلیغ الرحمان نے بورڈ آف گورنرز کی منظوری کے بغیرعیسی اور مصطفی کی فیس........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play