قرض کی پیتے تھے مے
وطن عزیز میں میاں قرض کی بہت دھوم تھی۔ دھوم بھی ایسی ویسی!!!! سمجھیے بینڈ باجے کے ساتھ دھوم۔ میاں قرض فرض کی نیکیاں ناپ تول کر بانٹا کرتے تھے اور تشہیر والی نیکیوں پر سونے چاندی کے ورق سجا کر رکھتے۔لونگ، الائچی کی خوش بو کے ساتھ، سریلے نعروں کے جلو میں میاں قرض کی نیکیاں سر پر چادر اوڑھے، پردہ کیے موالیوں سے چھپتی پھرتیں کہ کہیں نظر نہ لگ جاوے۔ میاں قرض نے اپنے گرد ہالے بنا رکھے تھے۔سیر کو سوا سیر ملا تو پھونکوں کے کاروبار سے درویشی کشید کرنے کے ماہر لڑکھڑانے لگے۔ لیکن میاں قرض کی صنعت کاری عروج پر تھی۔ میاں قرض نے نیک نامی پر بہت کام کیا۔اتنا کام، اتنا کام جس سے ملک کے طول و "ارض" میں ان کی چرچا ہونے لگی۔وہ روز صبح سب ملازموں کو اپنے ہاتھ سے کھانا بانٹتے اور ہر ایک کی روٹی سے چوتھا حصہ الگ سے صندوق میں ڈالتے رہتے لوگوں کے پوچھنے پر انھوں نے بتایا کہ یہ صندوق نہیں،دریا ہے اور وہ "نیکی کر دریا میں ڈال" کے محاورہ پر کامل یقین رکھتے ہیں.ہمارے معاشرہ میں ایسے بہت سے میاں قرض موجود ہیں جو مانگے کی مے پر اچھلتے کودتے اپنے ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں۔ پچاس ہزار کا قرض حسنہ دینے والے درویش استاد کی اجرت چھ ہزار........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website