وجاہت مسعود کالم نویسوں میں ممتاز اور منفرد مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے تین چار دن پہلے ”تالاب گد لا ہو گیا ہے“ کے عنوان سے ایک کالم لکھا ہے جس میں انہوں نے 12مارچ 1949ء کو پاکستان کی دستورساز اسمبلی میں منظور کی گئی قرارداد مقاصد پر شدید تنقید کی ہے۔ اس قرارداد کے محرک پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان تھے۔ تمام مسلمان ارکان نے قرارداد مقاصد منظور کرنے کے حق میں ووٹ دیا تھا اور شاید بہت کم لوگوں کے علم میں ہو کہ سر محمد ظفر اللہ خان نے بھی قرارداد مقاصد کے حق میں بڑی مدلل اور مفصل تقریر کی تھی۔ یہ وہی سر محمد ظفر اللہ خان ہیں جنہوں نے قائداعظم کا جنازہ نہیں پڑھا تھا اور معروف صحافی منیر احمد منیر کو انٹرویو دیتے ہوئے قائداعظم کا جنازہ نہ پڑھنے کی وجہ یہ بیان کی تھی کہ سارے جہاں کو معلوم ہے کہ ہم غیر احمدی کا جنازہ نہیں پڑھتے۔سر ظفر اللہ خان نے یہ بھی کہا میرے عقیدے کو انہوں نے ناٹ مسلم قرار دیا ہے تو اگر میں آئینی اور قانونی اعتبار سے ناٹ مسلم ہوں تو ایک ناٹ مسلم پر ایک مسلمان کا جنازہ پڑھنا کیسے واجب ہو گیا۔ظفر اللہ خان کے اس انٹرویو کا حوالہ میں نے اس لئے دیا ہے کہ قائداعظم کا جنازہ نہ پڑھنے والے ظفر اللہ خان بھی قرارداد مقاصد کی منظوری کے لئے پیش پیش تھے اور انہیں قرارداد مقاصد میں کوئی ایسی خرابی نظر نہیں آئی جو ہمارے بھائی وجاہت مسعود کو نظر آ گئی ہے۔ 1985ء میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں قرارداد مقاصد کو دستور پاکستان کا مستقل حصہ بنا دیا گیا تھا اس پر بھی وجاہت مسعود سخت برہم، مضطرب اور پریشان نظر آتے ہیں۔ انہوں نے بڑی حسرت، ملال، پچھتاوے اور تاسف کے ساتھ اپنے کالم میں لکھا ہے کہ انہیں اپنی زندگی میں یہ امید نہیں کہ دستور پاکستان کو اس آلودگی سے پاک کیا جائے گا۔ گویا ہمارے اس کالم نویس دوست کا ارشاد یہ ہے کہ جب تک قرارداد مقاصد دستور پاکستان کا مستقل حصہ رہے گی یہ دستور پاکستان آلودگی سے پاک نہیں ہوگا۔ آلودہ دامن گناہ گار کو کہتے ہیں اور آلودگی کے معنی گندگی یا آلائش ہیں۔قرارداد مقاصد کے اصول اور احکام وجاہت مسعود اگر اپنے کالم میں تحریر کر دیتے اور یہ بھی وضاحت کر دیتے کہ قرارداد مقاصد کے کن اصولوں اور احکام کی وجہ سے وہ حد درجہ پریشان اور غصے میں ہیں۔ تو بہت مناسب ہوتا۔

کرپٹو کرنسی فراڈ اسکینڈل میں سام بینک مین فرائڈ کو 25 سال قید

قرارداد مقاصد کا آغاز اس طرح سے ہوتا ہے۔”چونکہ اللہ تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلاشرکت غیرے حاکم مطلق ہے اور پاکستان کے جمہور کو جو اختیار و اقتدار اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہوگا، وہ ایک مقدس امانت ہے“۔”مملکت اپنے اختیارات و اقتدار کو جمہور کے منتخب کردہ نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے گی“۔

اگر قرارداد مقاصد منظور نہ بھی ہوتی اور قرارداد مقاصد کو دستور پاکستان کا مستقل حصہ نہ بھی بنایا جا چکا ہوتا تو پھر بھی کوئی مسلمان کس طرح اللہ تعالیٰ کے کل کائنات کے بلاشرکت غیرے حاکم مطلق ہونے سے انکار کر سکتا ہے اور ممبران پارلیمنٹ اسلام پر ایمان رکھتے ہوئے کس طرح یہ اظہار یا اعلان کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے اختیارات اور اقتدار کو اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے استعمال نہیں کریں گے۔ خود قائداعظم نے صوبہ سرحد کے کانگرسی لیڈروں خان عبدالغفار خان اور ان کے بھائی ڈاکٹر خان صاحب کے اس الزام کی پُرزور تردید کی تھی کہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا مرتب کردہ آئین شریعت کے مطابق نہیں ہوگا۔ قائداعظم کا یہ مفصل بیان 10جولائی 1947ء کے ”پیسہ اخبار“ میں شائع ہوا تھا کہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی جو مسلمانوں کی بھاری اکثریت پر مشتمل ہوگی وہ جمہوریت، مساوات اور سماجی انصاف کے اسلامی تصورات کو کیسے نظر انداز کر سکتی ہے۔ قائداعظم نے مزید فرمایا تھا کہ تیرہ صدیوں سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ اس دوران مسلمانوں کو ہر طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس کے باوجود ہم قرآن پر عمل کرتے رہے۔ اب پاکستان کی دستور ساز اسمبلی شریعت اور قرآنی اصولوں کو کیسے نظر انداز کر سکتی ہے۔قائداعظم نے یہ بھی فرمایا کہ صوبہ سرحد کے مسلمان یہ حقیقت اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ وہ پہلے مسلمان ہیں اور بعد میں پٹھان۔ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے ہندو ارکان کی طرف سے یہ ترمیم پیش کی گئی کہ قرارداد مقاصد میں سے یہ پیراگراف حذف کر دیا جائے: ”اللہ تعالیٰ کل کائنات کا بلاشرکت غیرے حاکم مطلق ہے اور پاکستان کے جمہور کو جو اختیار و اقتدار اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہوگا۔ وہ ایک مقدس امانت ہے“۔دستور ساز اسمبلی کے ہندو ارکان کی جانب سے پیش کی گئی یہ ترمیم دستور ساز اسمبلی کے تمام مسلمان ارکان نے مسترد کر دی حتیٰ کہ سرظفر اللہ خان نے بھی ہندو ارکان اسمبلی کی اس ترمیم کے خلاف ووٹ دیا تھا۔

پیپلزپارٹی نے ذوالفقار بھٹو کی برسی پر جلسہ نہ کرنے کا اعلان کردیا، وجہ بھی سامنے آگئی

میں ایک گناہ گار مسلمان ہوں اور میرا گمان غالب یہ ہے کہ وجاہت مسعود میرے مقابلے میں کہیں بہتر مسلمان ہیں،اس لئے میرا یہ بھی گمان ہے کہ وجاہت مسعود جس آلودگی سے دستور پاکستان کو پاک کرنا چاہتے ہیں اس سے ان کی یہ مراد نہیں ہو سکتی کہ پاکستان کی پارلیمنٹ کے ممبران اپنے اختیارات و اقتدار کو اللہ کی مقرر کی ہوئی حدود کے اندر رہ کر استعمال نہ کریں۔

قرارداد مقاصد میں یہ اعلان بھی کیا گیا تھا کہ پاکستان کا دستور بناتے ہوئے جمہوریت، حریت، مساوات، رواداری اور عدل عمرانی کے اصولوں کو جس طرح اسلام نے ان کی تشریح کی ہے،پوری طور پر ملحوظ رکھا جائے گا۔جمہوریت، حریت، مساوات، رواداری اور عدل عمرانی کے اصولوں کو اگر دستور پاکستان بناتے ہوئے پوری طرح ملحوظ رکھا جائے تو اس سے دستور پاکستان کیسے گدلا یا کسی خرابی سے آلودہ ہو سکتا ہے۔ جمہوریت، مساوات، رواداری اور عدل عمرانی کی جو تشریح قرآن و سنت کی روشنی میں اسلام نے کی ہے اس پر عمل کرنے سے ایک مسلمان معاشرے میں خیر و برکت ہی پھیلے گی۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (جمعے) کا دن کیسا رہے گا؟

قرارداد مقاصد میں یہ یقین دہانی بھی کرائی گئی تھی کہ مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات اور تقاضوں کے مطابق جس طرح قرآن کریم اور سنت میں ان کا تعین کیا گیا ہے، ترتیب دے سکیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ریاست مسلمانوں کو اس قابل بنائے کہ وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں قرآن کریم اور سنت کے احکام کی روشنی میں اسلامی تعلیمات پر عمل کر سکیں تو اس سے دستور پاکستان کیسے آلودہ ہو گیا؟ سوال یہ ہے کہ ہمارے بھائی وجاہت مسعودکا اصل اعتراض کیا ہے۔ قرآن و سنت کی تعلیمات پر عمل کرنے سے کسی بھی اقلیت کے اپنے مذہب و عقیدہ پر آزادی کے ساتھ عمل کرنے کا حق متاثر نہیں ہو سکتا اور نہ ہی اقلیتوں پر اپنی ثقافتو ں کو آزادانہ طو رپر ترقی دینے کے حوالے سے کوئی پابندی عائد کی جا سکتی ہے کیونکہ قراردادمقاصد میں واضح طور پر یہ بھی اعلان کیا گیا تھا کہ تمام اقلیتوں کو آزادی کے ساتھ اپنا مذہب اور عقیدہ رکھنے اور اس پر عمل کرنے کا حق حاصل ہوگا۔

لیہ کے ہسپتال میں ذہنی معذور بچی سے مبینہ زیادتی

قرارداد مقاصد میں بنیادی حقوق کے حوالے سے یہ پیراگراف بھی موجود ہے کہ حیثیت و مواقع میں برابری، قانون کی نظر میں برابری، عمرانی، اقتصادی اور سیاسی انصاف، اظہار خیال، اجتماع، عقیدۂ دین اور عبادات میں آزادی۔ قرارداد مقاصد میں عدلیہ کی آزادی کی مکمل ضمانت دینے کا اعلان بھی موجود تھا۔ قرارداد مقاصد میں اس امر کا بھی واضح اظہار کیا گیا تھا کہ اقلیتوں، پسماندہ اور پسے ہوئے طبقوں کے جائز حقوق کو قرارواقعی تحفظ دیا جائے گا۔

اب مجھے نہیں معلوم کہ قرارداد مقاصد کے کسی مخصوص حصے پر وجاحت مسعود کو اعتراض ہے یا تمام پیراگراف ہی وجاہت مسعود کے نزدیک گردن زدنی ہیں۔ اگر وہ اپنے کسی کالم میں قرارداد مقاصد کا مکمل متن شائع کرکے اس کے ایک ایک پیراگراف کا جائزہ لے کر ہماری رہنمائی کر دیں تو ہمیں بھی علم ہو جائے گاکہ دستور پاکستان کو وہ کن کن آلودگیوں سے پاک کرنا چاہتے ہیں۔ اگر قرارداد مقاصد کے علاوہ بھی انہیں آئین کے کسی اور آرٹیکل سے پریشانی لاحق ہے تو اس کی بھی وضاحت کر دیں۔

قبضہ مافیا کی جانب سے خاتون پر سرعام تشدد کی ویڈیو وائرل

میرا خیال ہے کہ اسلام کے پاکستان کے مملکتی مذہب ہونے پر تو ان کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا، کیونکہ آئین کے اس آرٹیکل کو لیاقت علی خان نے منظور نہیں کروایا۔ دستور پاکستان کے آرٹیکل 227میں کہا گیا ہے کہ تمام موجودہ قوانین کو قرآن پاک اور سنت میں منضبط اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا۔ اس آرٹیکل پر بھی وجاہت مسعود کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس آرٹیکل کو مولانا شبیر احمد عثمانی نے تحریر نہیں کیا۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آرٹیکل 260میں مسلمان کی یہ تعریف تحریر کی گئی ہے کہ ”مسلم سے کوئی ایسا شخص مراد ہے جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی وحدت و توحید، خاتم النبین حضرت محمدﷺ کی ختم نبوت پر مکمل اور غیر مشروط ایمان رکھتا ہے اور پیغمبر یا مذہبی مصلح کے طور پر کسی ایسے شخص پر نہ ایمان رکھتا ہو نہ مانتا ہو جس نے حضرت محمدﷺ کے بعد کسی بھی مفہوم یا کسی بھی لحاظ سے پیغمبر ہونے کا دعویٰ کیا ہویا دعویٰ کرے“۔

بابراعظم سے ملاقات کے بعد چئیر مین پی سی بی کی سلیکشن کمیٹی کےاراکین سے اہم ملاقات، کپتانی کے حوالے سے مشاورت

میرا یقین ہے کہ دستور پاکستان میں مسلمان کی جو تعریف بیان کی گئی ہے اس سے تو محترم وجاہت مسعود کا مکمل اتفاق ہو گا کیونکہ یہ تعریف ان کی انتہائی ناپسندیدہ شخصیات لیاقت علی خان اور مولانا شبیر احمد عثمانی نے دستور پاکستان میں شامل نہیں کروائی۔ صدر مملکت، وزیراعظم پاکستان، وزرائے اعلیٰ، گورنرز قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ کے ارکان جب حلف اٹھاتے ہیں تو حلف نامہ میں اس امر کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ ہم اسلامی نظریے کو برقرار رکھنے کے لئے کوشاں رہیں گے جو قیام پاکستان کی بنیاد ہے۔ میرا خیال ہے کہ حلف نامے کی اس عبارت سے بھی وجاہت مسعود کو کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوگی۔

QOSHE - قراردادمقاصد اور وجاہت مسعود - محمد آصف بھلی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

قراردادمقاصد اور وجاہت مسعود

31 0
29.03.2024

وجاہت مسعود کالم نویسوں میں ممتاز اور منفرد مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے تین چار دن پہلے ”تالاب گد لا ہو گیا ہے“ کے عنوان سے ایک کالم لکھا ہے جس میں انہوں نے 12مارچ 1949ء کو پاکستان کی دستورساز اسمبلی میں منظور کی گئی قرارداد مقاصد پر شدید تنقید کی ہے۔ اس قرارداد کے محرک پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان تھے۔ تمام مسلمان ارکان نے قرارداد مقاصد منظور کرنے کے حق میں ووٹ دیا تھا اور شاید بہت کم لوگوں کے علم میں ہو کہ سر محمد ظفر اللہ خان نے بھی قرارداد مقاصد کے حق میں بڑی مدلل اور مفصل تقریر کی تھی۔ یہ وہی سر محمد ظفر اللہ خان ہیں جنہوں نے قائداعظم کا جنازہ نہیں پڑھا تھا اور معروف صحافی منیر احمد منیر کو انٹرویو دیتے ہوئے قائداعظم کا جنازہ نہ پڑھنے کی وجہ یہ بیان کی تھی کہ سارے جہاں کو معلوم ہے کہ ہم غیر احمدی کا جنازہ نہیں پڑھتے۔سر ظفر اللہ خان نے یہ بھی کہا میرے عقیدے کو انہوں نے ناٹ مسلم قرار دیا ہے تو اگر میں آئینی اور قانونی اعتبار سے ناٹ مسلم ہوں تو ایک ناٹ مسلم پر ایک مسلمان کا جنازہ پڑھنا کیسے واجب ہو گیا۔ظفر اللہ خان کے اس انٹرویو کا حوالہ میں نے اس لئے دیا ہے کہ قائداعظم کا جنازہ نہ پڑھنے والے ظفر اللہ خان بھی قرارداد مقاصد کی منظوری کے لئے پیش پیش تھے اور انہیں قرارداد مقاصد میں کوئی ایسی خرابی نظر نہیں آئی جو ہمارے بھائی وجاہت مسعود کو نظر آ گئی ہے۔ 1985ء میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں قرارداد مقاصد کو دستور پاکستان کا مستقل حصہ بنا دیا گیا تھا اس پر بھی وجاہت مسعود سخت برہم، مضطرب اور پریشان نظر آتے ہیں۔ انہوں نے بڑی حسرت، ملال، پچھتاوے اور تاسف کے ساتھ اپنے کالم میں لکھا ہے کہ انہیں اپنی زندگی میں یہ امید نہیں کہ دستور پاکستان کو اس آلودگی سے پاک کیا جائے گا۔ گویا ہمارے اس کالم نویس دوست کا ارشاد یہ ہے کہ جب تک قرارداد مقاصد دستور پاکستان کا مستقل حصہ رہے گی یہ دستور پاکستان آلودگی سے پاک نہیں ہوگا۔ آلودہ دامن گناہ گار کو کہتے ہیں اور آلودگی کے معنی گندگی یا آلائش ہیں۔قرارداد مقاصد کے اصول اور احکام وجاہت مسعود اگر اپنے کالم میں تحریر کر دیتے اور یہ بھی وضاحت کر دیتے کہ قرارداد مقاصد کے کن اصولوں اور احکام کی وجہ سے وہ حد درجہ پریشان اور غصے میں ہیں۔ تو بہت مناسب ہوتا۔

کرپٹو کرنسی فراڈ اسکینڈل میں سام بینک مین فرائڈ کو 25 سال قید

قرارداد مقاصد کا آغاز اس طرح سے ہوتا ہے۔”چونکہ اللہ تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلاشرکت غیرے حاکم مطلق ہے اور پاکستان کے جمہور کو جو اختیار........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play