ایک معاصر میں خبر چھپی ہے کہ لاہور کے مسلم لیگی ایم پی اے ملک وحید وزیراعلیٰ مریم نواز کی طرف سے شوکاز نوٹس ملنے پر دلبرداشتہ ہیں اور مستعفی ہونے کا سوچ رہے ہیں،اس کے پیچھے کہانی کیا ہے، شاید بہت سے لوگوں کو معلوم نہ ہو تاہم میں نے وہ ویڈیو دیکھی ہے،جو اس سارے معاملے کا پس منظر سامنے لاتی ہے۔چند روز پہلے لاہور میں ایک واقعہ پیش آیا۔ ون فائیو پر ایک جھگڑے کی کال موصول ہوئی تو متعلقہ تھانے کے اے ایس آئی یاسر کو نفری کے ہمراہ موقع پر پہنچنے کی ہدایت موصول ہوئی،وہ جائے وقعہ کے قریب تھا تو تین گاڑیاں کھڑی نظر آئیں،جن میں ایک پراڈو بھی تھی،اے ایس آئی نے اُن گاڑیوں کو چیک کرنے کی ٹھانی اور اپنے ساتھ آنے والے سپاہیوں کو ایسا کرنے کے لئے کہا۔اُسی وقت یہ عقدہ کھلا کہ ان میں ایک بڑی گاڑی ملک وحید ایم پی اے کی ہے جسے مبینہ طور پر کالے شیشے لگے ہونے پر چیک کیا جا رہا تھا، اسی اثناء میں ایم پی اے گاڑی سے باہر نکلے اور انہوں نے پولیس والوں سے الجھنا شروع کر دیا ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے وہ اُس وقت کتنے غصے میں تھے۔اُن کا کہنا تھا یہ میرا علاقہ ہے،آپ کو جرأت کیسے ہوئی کہ میری گاڑی کو چیک کریں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں کوئی عام تام ایم پی اے نہیں میرے ساتھ عوام موجود ہیں۔ اے ایس آئی یاسر کو جب معلوم ہوا کہ گاڑی ایم پی اے کی ہے تو اُس نے سپاہیوں کو چیکنگ سے روک دیا اور ملک وحید سے کہا آپ جا سکتے ہیں،لیکن ملک وحید نے وہاں ہنگامہ کھڑا کر دیا۔انہوں نے کہا پولیس کو یہ جرأت کیسے ہوئی مجھے یا گاڑی کو چیک کرے،ساتھ ہی انہوں نے اپنے حامیوں سے کہا وہ اِس ساے واقعہ کی وڈیو بناتے رہیں،ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے اے ایس آئی اُن سے ملتجی انداز میں کہتا ہے وڈیو نہ نبوائیں، ہم نے اپنی ڈیوٹی کی ہے،مگر ملک وحید بضد نظر آتے ہیں کہ ویڈیو بنے گی اور سب کے سامنے اُن سے معافی بھی مانگنی پڑے گی، کافی منتیں کرانے کے باوجود جب ملک وحید معافی کے بغیر راضی نہیں ہوئے تو اے ایس آئی یاسر اُن سے معذرت کر لیتا ہے،اِس معذرت کی وڈیو بنا کر ملک وحید ایسے خوش ہوتے ہیں جیسے انہوں نے بڑا معرکہ سر کر لیا ہو۔ اسی واقعہ کا دوسرا منظر یہ ہے کہ لاہور پولیس کے افسر آؤ دیکھتے ہیں نہ تاؤ،انکوائری کراتے ہیں اور نہ واقعہ کی تفصیل جانتے ہیں فوراً اے ایس آئی کا تبادلہ کر دیتے ہیں،یعنی وہ ایم پی اے سے اتنا خوفزدہ ہو جاتے ہیں کہ اپنے ایک اہلکار کو جائز معاملے پر تحفظ بھی نہیں دے سکتے۔یہ واقعہ سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوتا ہے تحریک انصاف والے اسے خوب شیئر کرتے ہیں،ساتھ یہ کمنٹ بھی دیتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے دور میں قانون کی اسی طرح دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔

کرپٹو کرنسی فراڈ اسکینڈل میں سام بینک مین فرائڈ کو 25 سال قید

دو دن پہلے میری نظر سے ایک اور وڈیو کلپ گزرا جس میں وزیراعلیٰ مریم نواز اپنے دفتر میں موجود ہیں اور اُن کے سامنے لاہور کے سی سی پی او بلال صدیق کمیانہ اور وہی اے ایس آئی یاسر بیٹھے ہیں۔اس وڈیو کا سب سے خوبصورت منظر وہ ہے جب مریم نواز اے ایس آئی یاسر کو جو نظریں جھکائے بیٹھا ہے، کہتی ہیں ”یاسر میری طرف دیکھو، تمہیں دِل چھوٹا کرنے کی ضرورت نہیں، تم نے اپنی ڈیوٹی کی ہے اور ریاست نے تمہیں اسی لئے مامور کیا ہے۔اسی طرح اپنی ڈیوٹی کرتے رہو،قانون کے سامنے چیف منسٹر، وزیر، ایم پی اے یا کوئی بھی بڑی شخصیت سب برابر ہیں،ہاں کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرنی،قانون کے دائرے میں رہ کر اپنے فرائض ادا کرنے ہیں“۔ اسی بات پر اے ایس آئی یاسر کے چہرے پر اطمینان کی لہر دوڑ جاتی ہے،اُسے جب بلایا گیا ہو گا تو شاید اس کے ذہن میں یہ خدشات ہوں گے کہ وزیراعلیٰ اپنے ایم پی اے کے ساتھ بُرے سلوک پر اُس سے باز پرس کریں گی، ممکن ہے اُسے نوکری سے نکالنے کا پروانہ بھی جاری کر دیا جائے گا،مگر یہاں کا منظر بدلا ہوا تھا۔اس کے بعد مریم نواز لاہور پولیس کے سربراہ بلال صدیق کمیانہ سے پوچھتی ہیں،اے ایس آئی کا تبادلہ کیوں کیا گیا، جس کا جواب وہ دیتے ہیں کہ واقعہ کی ون فائیو پر کال چلی تھی، جس کے بعد تبادلہ کر دیا گیا۔مریم نواز انہیں درمیان ہی میں روک کر کہتی ہیں آئندہ ایسا نہیں ہو گا اس قسم کے ہر واقعہ کے بعد باقاعدہ انکوائری کر کے کوئی ایکشن لیا جائے گا۔ خاص طور پر ایسے کسی معاملے میں کسی اہلکار کے تبادلے سے پہلے اُن سے اجازت لی جائے گی، اسی وڈیو میں وزیراعلیٰ نے یہ انکشاف بھی کیا کہ انہوں نے اپنے ایم پی اے کو شوکاز نوٹس دیا ہے اُس کا جواب آنے پر مناسب کارروائی کی جائے گی۔

پیپلزپارٹی نے ذوالفقار بھٹو کی برسی پر جلسہ نہ کرنے کا اعلان کردیا، وجہ بھی سامنے آگئی

کہنے کو یہ ایک عام سا واقعہ ہے، مگر درحقیقت ایک بڑا قدم ہے جو مریم نواز نے اٹھایا۔عام طور پر یہ ہوتا رہا ہے کہ بااثر افراد خاص طور پر حکمران جماعت کے ارکان اسمبلی من مانی کرتے ہیں، افسر اپنے ملازمین کا دفاع کرنے کی بجائے اُسی طرح بھیگی بلی بن جاتے ہیں جیسے اس واقعہ میں اے ایس آئی یاسر کا فوری تبادلہ کر کے ثابت کیا۔شاید افسروں کا خیال تھا ملک وحید مسلم لیگ(ن) کے ایم پی اے ہیں۔انہوں نے اگر وزیراعلیٰ کو شکایت کر دی تو تبادلہ ہو جائے گا یا ممکن ہے کسی انکوائری کے نرغے میں آ جائیں۔ اب اسی وڈیو کے بعد ڈی جی پی آر نے بھی ویڈیو جاری کی ہے غالباً پنجاب کی پولیس کو یہ پیغام چلا گیا ہے کہ اپنی ایمانداری سے ڈیوٹی کرنی ہے اور کسی دباؤ کو خاطر میں نہیں لانا۔میں سمجھتا ہوں جو کام یاسر کی وجہ سے ممکن ہوا ہے، وہ آئی جی ڈاکٹر عثمان انور اور سی سی پی او لاہور بلال صدیق کمیانہ شاید کبھی نہ کر سکتے،کیونکہ بڑی پوسٹوں کا سحر سچ کہنے سے روک دیتا ہے۔دسری طرف مریم نواز نے یاسر کی وساطت سے یہ پیغام بھی دیا ہے،کسی سے زیادتی نہیں ہونی چاہئے۔قانون کی حد میں رہ کر فرض ادا کریں۔ ملک وحید کو استعفا دینے کی ضرورت نہیں البتہ انہیں اپنے مزاج اور رویے کو تبدیل کرنا چاہئے۔ایم پی اے کوئی قانون شکن نہیں ہوتا،قانون کا پاسدار ہوتا ہے اسی میں اُس کی عزت ہے۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (جمعے) کا دن کیسا رہے گا؟

QOSHE - ”یاسر میری طرف دیکھو“ - نسیم شاہد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

”یاسر میری طرف دیکھو“

11 0
29.03.2024

ایک معاصر میں خبر چھپی ہے کہ لاہور کے مسلم لیگی ایم پی اے ملک وحید وزیراعلیٰ مریم نواز کی طرف سے شوکاز نوٹس ملنے پر دلبرداشتہ ہیں اور مستعفی ہونے کا سوچ رہے ہیں،اس کے پیچھے کہانی کیا ہے، شاید بہت سے لوگوں کو معلوم نہ ہو تاہم میں نے وہ ویڈیو دیکھی ہے،جو اس سارے معاملے کا پس منظر سامنے لاتی ہے۔چند روز پہلے لاہور میں ایک واقعہ پیش آیا۔ ون فائیو پر ایک جھگڑے کی کال موصول ہوئی تو متعلقہ تھانے کے اے ایس آئی یاسر کو نفری کے ہمراہ موقع پر پہنچنے کی ہدایت موصول ہوئی،وہ جائے وقعہ کے قریب تھا تو تین گاڑیاں کھڑی نظر آئیں،جن میں ایک پراڈو بھی تھی،اے ایس آئی نے اُن گاڑیوں کو چیک کرنے کی ٹھانی اور اپنے ساتھ آنے والے سپاہیوں کو ایسا کرنے کے لئے کہا۔اُسی وقت یہ عقدہ کھلا کہ ان میں ایک بڑی گاڑی ملک وحید ایم پی اے کی ہے جسے مبینہ طور پر کالے شیشے لگے ہونے پر چیک کیا جا رہا تھا، اسی اثناء میں ایم پی اے گاڑی سے باہر نکلے اور انہوں نے پولیس والوں سے الجھنا شروع کر دیا ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے وہ اُس وقت کتنے غصے میں تھے۔اُن کا کہنا تھا یہ میرا علاقہ ہے،آپ کو جرأت کیسے ہوئی کہ میری گاڑی کو چیک کریں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں کوئی عام تام ایم پی اے نہیں میرے ساتھ عوام موجود ہیں۔ اے ایس آئی یاسر کو جب معلوم ہوا کہ گاڑی ایم پی اے کی ہے تو اُس نے سپاہیوں کو چیکنگ سے روک دیا اور ملک وحید سے کہا آپ جا سکتے ہیں،لیکن ملک وحید نے وہاں ہنگامہ کھڑا کر دیا۔انہوں نے کہا پولیس کو یہ........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play