ملک کو حقیقی ترقی کیسے ملے گی؟
پتا نہیں کیوں حکمران بڑے فخر سے یہ بتاتے ہیں کہ ہم نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کر دی ہیں یا پوری کرنے جا رہے ہیں جس کے بعد ہمیں اس عالمی اقتصادی ادارے سے قرضے کی اگلی قسط مل جائے گی یا اگلے پیکیج کے لیے کوئی ڈیل ہو سکے گی۔ انہیں ایسی بات کرتے ہوئے سو بار سوچنا چاہیے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ آج اگر ہمارا ملک دیوالیہ کی حد کو پہنچا ہے اور ہم مالی لحاظ سے اس قدر مجبور ہو چکے ہیں کہ آئی ایم ایف سے ایک کے بعد دوسرا، اور دوسرے کے بعد تیسرا پیکیج لینے کے سوا ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں تو یہ کوئی فخر کی بات نہیں، تشویش اور افسوس کا معاملہ ہے۔ یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا ملک اس حالت کو کیوں پہنچا؟ اس ملک کو اس نہج تک پہنچانے کے ذمہ دار کون ہیں؟ اور اس دلدل سے نکلنے کا راستہ کون سا ہو سکتا ہے؟ ظاہر ہے ملک کو اس نہج تک پہنچانے کے ذمہ دار عوام نہیں ہو سکتے کہ اختیارات ان کے ہاتھوں میں کبھی نہیں رہے، انتخابات کے دوران ان کا مینڈیٹ بھی ادھر ادھر کر دیا جاتا رہا۔ یہ حکمران ہیں جو ملک کی پالیسیاں مرتب کرتے اور ان پر عمل درآمد کراتے ہیں، لہٰذا 1947 سے اب تک اس ملک پر حکمرانی کرنے والے لوگ اور پارٹیاں ہی ملک کی اس حالت کے ذمہ دار قرار دئیے جا سکتے ہیں کہ انہوں نے ملک، قوم کو حقیقی ترقی کی راہ پر ڈالنے کی بجائے قرضوں پر قرضے لیے، اور محض وقتی، جنہیں پنجابی میں ڈنگ ٹپاؤ کہا جاتا ہے، پالیسیاں بنائیں اور صرف اپنا وقت گزارا، اپنا Tenure پورا کیا۔ یہ نہیں سوچا کہ بعد میں........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website